• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
سندھ طاس معاہدے کے بارے میں اِس مفروضے کا بہت زیادہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اس معاہدے کی منظوری کے ذریعے صوبہ سندھ کے پانی کے جائز حصے میں کمی کی گئی تھی۔کالاباغ ڈیم کے بارے میں مختلف مضامین کے مطالعہ کے دوران مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ پانی کے امور پر لکھنے والوں کا ایک حصہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد مشرقی اور مغربی پنجاب کے مکینوں نے سندھ کو اس کے حصے کے پانی سے محروم کرنے کے لئے باہمی سازش شروع کردی۔ یہ ایک تکلیف دِہ الزام ہے۔ یہ بیانیہ پنجاب میں رہنے والے لوگوں کے لئے تعجب کا باعث ہوسکتا ہے ، لیکن اُن لوگوں کی سوچ کو ظاہر کرتا ہے جو پنجاب کے غیر منصفانہ اور غاصبانہ روّیہ میں پختہ یقین رکھتے ہیں۔ تاریخ کے ایک طالب علم کے لئے تقسیم کے فوراً بعد پنجاب کے دونوں حصوں میں رہنے والے بد ترین دشمنوں کا سندھ کے خلاف اتحاد کا مفروضہ غالباً دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے ، لیکن یہ مفروضہ 1947-48ء میں کسی خفیہ منصوبے کو ثابت کرنے کی کاوش ہے۔ لیکن اِس کہانی میںایک سقم ہے۔ جس کا تعلق اِس مذموم سازش کے وقت سے ہے۔پنجاب کیلئے یہ ایک تکلیف دِہ اور آزمائشوں سے بھرا دور تھا۔مشرقی اور مغربی پنجاب کی نئی سرحدوں کے آرپار مذہب کی بنیاد پر جبری ہجرت ایک ایسا پرآشوب المیہ تھا جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ یہ وہی وقت تھا جب پنجاب کے تقسیم ہونے پر دونوں متحارب حصوں میں رہنے والے 10لاکھ افراد نے اس خانہ جنگی میں اپنی جان گنوائی اور تقسیم کی لکیر کے دونوں جانب بہنے والا خون ابھی خشک بھی نہیں ہوا تھا ۔یہ قرینِ قیاس نہیں ہے کہ ایک ایسے جنونیت کے ماحول میں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء لوگ خصوصاً پاکستانی پنجاب کے مسلمان دوسری جانب اپنے دشمن سکھوں اور ہندوئوں کے ساتھ مل کر سندھ کے خلاف کسی سازش کا تانا بانا بُن سکتے تھے ۔لکھنے والوں کی یہ کہانی کسی بھی غیر جانبدار شخص کے ذہن کو چکراسکتی ہے۔
یہ بات بھی ثابت نہیںہوتی کہ سندھ طاس معاہدہ کسی سازش کا نتیجہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد سندھ طاس کے پانی کی تقسیم کے لئے کسی قانونی انتظام کی ضرورت تو تھی۔ اور اسی ضرورت کے تحت ہی بالآخر سندھ طاس معاہدے کی جانب پیش رفت ہوئی۔ پاکستان کے ایک بڑے حصے میں اسے بھارت اور پاکستان کے مابین پانی کی تقسیم اور اس سے جنم لینے والے تنازع کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن کچھ لکھاری اس کا تذکرہ صوبہ سندھ کے خلاف پنجاب کی سازش کے طور پرکرتے ہیں۔ یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ سندھ طاس معاہدے پر دستخط کرنے کی ذمہ داری سے متعلق مختلف تشریحات کا جائزہ لیاجائے۔ سرائیکی سیاستدان اور شوکت عزیز کابینہ کے وزیر اطلاعات ، جو زیریں علاقے بہاولپور کا مقدمہ پیش کرتے ہیں ، وہ بھی سندھ طاس معاہدے کو پاکستانی مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں ، لیکن دوسرے لکھاریوں کے ساتھ ان کے بیان کی یکسانیت یہیں ختم ہوجاتی ہے۔ جہاں دیگر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کارستانی ہے، درانی صاحب کا خیال ہے کہ یہ فوجی سربراہ ایوب خان کی کاریگری ہے۔
کیا سندھ طاس معاہدے کے تانے بانے پنجاب کے لوگوں نے بُنے تھے ؟ اس الزام کا جائزہ لینے کے لئے یہ بات کارآمد ہوگی کہ دیکھا جائے، ایوب خان نے اس بارے میں کیا کہا ہے۔وُہ اپنی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’اس سے قبل کہ میں یوجین بلیک کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بارے میں لکھوں ، میں چاہوں گا کہ میں اپنے تکنیکی ماہرین اور منتظمین کے ساتھ اپنی مخالفت کو واضح کروں۔ مجھے محسوس ہوا کہ انہیں حالات کی سنگینی کا مکمل ادراک نہیں ہے۔ وہ کمزور پوزیشن میں ہونے کے باوجود چاند کے متمنی تھے ۔ وہ پالیسی کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سخت گیر پوزیشن اختیار کررہے تھے۔ اُن میں سے 30،40کے لگ بھگ گورنر ہائوس لاہورمیں جمع تھے۔، جہاں میں نے اُن سے خطاب کیا۔ میں نے کہا ’’حضرات ! ہمارے لئے یہ مسئلہ دور رس نتائج کا حامل ہے ۔ میں آپ کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ ہر عنصر پاکستان کے خلاف ہے ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیں اپنے حقوق سے دستبردار ہوجانا چاہئے ، لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر تم کوئی ایسا حل نہ پاسکے جس کے ساتھ ہم زندہ رہ سکیں تو ہم ایسے حل کو قبول نہ کرکے بہت بڑی حماقت کا ارتکاب کریں گے۔میں یہ بات درحقیقت اپنے آپ سے کہہ رہا ہوں کیونکہ مجھے بھی اس حل کی ذمہ داری لینا پڑے گی۔‘‘
ایوب خان یقینا حقیقت پسندی کا مظاہرہ کررہے تھے کیونکہ 1947ء سے 1960ء کے دوران ہندوستان بھاکڑااورننگل ڈیم سمیت پانی استعمال کرنے کے 16منصوبے یا تو مکمل کرچکا تھا یا انہیں تیزی سے مکمل کررہا تھا ۔ دریائے ستلج ، راوی اور بیاس پر ہندوستان ان منصوبوں کو یکطرفہ طور پر تعمیر کررہاتھا جبکہ پاکستان محض خاموش تماشائی تھا۔بھارت کی یک طرفہ کارروائی کے تناظر میں ایوب خان نے اُسی اجلاس کے دوران گورنر ہائوس لاہور میں جمع آبی ماہرین کو درج ذیل الفاظ میں تنبیہہ کی۔
’’آپ میں سے کسی کی بھی ذمہ داری نہیں ہے ، لہٰذا مجھے واشگاف الفاظ میں آپ کو مطلع کردینا چاہئے کہ پالیسی وہی ہوگی جو میں چاہوں گا ۔ اگر مجھے تکنیکی تفصیلات کے بارے میں کوئی شبہ ہوا تو میں آپ سے مشورہ کروں گا ، لیکن اگر کسی نے میری پالیسی میں دخل اندازی کی تومیں خود اُس سے نمٹوں گا۔‘‘
اس دھمکی نے آبی ماہرین کو خاموش کردیا۔ یہ دھمکی فوجی سربراہ کی جانب سے تھی ، جس کا تعلق اُس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے ہزارہ ڈویژن سے تھا۔ ایک غیر جانبدار مبصّر کی نظر میں پنجاب کے خلاف غیر مناسب الزام بہت بڑی زیادتی معلوم ہوتی ہے ۔ بالکل اُسی طرح جیسے پنجاب میں یہ عمومی تاثر ہے کہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنیو الے بھارتی ایجنسی را سے رقم لیتے ہیں۔
ایسے بیشتر معاہدے جو متنازع معاملات کو حل کرنے کے لئے طے ہوئے ، اُن کے ساتھ ہمیشہ یہ مسئلہ رہا ہے کہ دونوں اطراف کے سخت گیر رویہ رکھنے والے افراد اُن سے ناخوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ِان معاہدوں کے ذریعے اپنے مفادات کا سودا کردیا گیا ہے۔ پنجاب کے آبی ماہرین اسے پاکستان کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں اور چند سندھی لکھاری اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ بھارت کے مفاد میں تھا اور اس نے سندھ کے حقوق کو متاثرکیا ۔ ان لوگوں کی اکثریت اس معاملے پر بھارت کی رائے عامہ سے ناواقف ہے ۔ یہ بات باعث تعجب نہیں کہ بھارت کے سخت گیر افراد بھی اس معاہدے سے خوش نہیں ہیں ۔سندھ طاس معاہدے پرد ستخط کے بعد نہرو کو 30نومبر 1960ء کے لوک سبھا کے اجلاس میں اشتعال انگیز ردّ عمل کا سامنا کرنا پڑا ۔ بھارتی امور پر سینئر مصنف اروند لاوا کارے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’کانگریس ، پی ایس پی اور جن سنگھ سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹ کے ارکان نے اس معاہدے میں کی جانے والی فاش غلطیوں کی نشاندہی کی۔‘‘ انہوں نے مزید تحریر کیا کہ پنجاب اور راجستھان سے منتخب نہرو کی اپنی حکمران جماعت کانگریس سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹ کے ارکان اقبال سنگھ اور ایچ سی ماتھر نے معاہدے کو بھارت کے لئے غیر سودمند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے ان دونوں کی آبائی ریاستوں کا بہت نقصان ہواہے۔ انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ ’’لوک سبھا میں پی ایس پی کے رہنما اشوک مہتا نے اسے ایک ایسا اچھوتا معاہدہ قرار دیا جس کے بعد پاکستان سندھ کے پانی کے اپنے حصے کا مکمل استعمال نہیں کرسکے گا اور اس پانی کو سمندر کی نذر کردے گا۔‘‘
اروند نے سندھ طاس مذاکرات کے دوران بھارتی وفد کی قیادت کرنے والے افسر این ڈی گل ہاٹی کے تاثرات کا بھی حوالہ دیا ہے ۔ گل ہاٹی بیان کرتے ہیں کہ ’’28فروری 1961ء کو میری وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی ، وہ میری ملازمت کاآخری دن تھا ، انہوں نے اداسی بھرے لہجے میں کہا ، گل ہاٹی مجھے امید تھی کہ اس معاہدے سے دیگر معاملات کے تصفیے کی صورت نکلے گی، لیکن ہم اُسی مقام پرکھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔‘‘ وہ مزید تبصرہ کرتے ہیں ’’پس اگرچہ نہرو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سندھ طاس معاہدہ ملک کے لئے اچھی بات ہے ، تاہم وہ معاہدہ ایک فاش غلطی کا روپ دھار چکا تھا۔‘‘ آخر میں وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’جس معاہدے پر انہوں نے 55برس قبل دستخط کئے تھے ، وہ خود کشی کا پھندہ تھا ، جس سے بھارتی اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔‘‘
تازہ ترین