• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب تو عمران خان کے بارے میں یہ تاثر ختم ہوجانا چاہئے کہ وہ ملک میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کے خواہش مند تھے یا کسی قسم کا انقلاب برپا کرنے کے تمنائی ہیں۔اب تک ان کی سیاست کا جائزہ لینے پر یہی عقدہ ،کُشا ہوتا ہے کہ موصوف ذات کے خول میں بند مریضانہ حد تک خود پسند فرد ہیں جو خود غرضی، مطلب براری، جاہ پرستی اور احسان فراموشی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ عمران خان کی سیاست کا مرکز و محور جاہ پرستی اور طاقت کے حصول کے سوا کچھ نہیں رہا اور اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔تحریک انصاف کے بانی اراکین کی اکثریت میں جس جس کو ان کے خصائص کا ادراک ہوتا گیا وہ باری باری ان سے فاصلہ اختیار کرتا چلا گیا۔ جو بروقت نہ سمجھ پائے انہیں خود عمران خان نے اپنی انا کی بھینٹ چڑھا کے ان کے ساتھ وہی کیا جس کی ابتداء وہ کرکٹ ٹیم کے کپتان بن کر اس کھیل میں اپنے اولین سرپرست ماجد خان کی کرکٹ کے میدان کی بے دخلی سے کرچکے تھے۔ مقتدرہ نے سیاست دانوں کی مخالفت میں خان کی سرپرستی کرنے کا ارادہ کیا تو نواز شریف و بے نظیر دشمنی میں اس شخص کی تحلیل نفسی کا اتنا بھی جوکھم اٹھانے کی زحمت نہ کی جتنا جوکھم تحلیل نفسی کے مرحلے سے خود گزر کر وردی زیب تن کرنے کے لئے اٹھاتے رہے وگرنہ جان لیتے کہ نرگسیت کا مارا یہ شخص مطلب نکل جانے کے بعد ان کے ساتھ بھی وہی کچھ کرسکتا ہے جو اس کی جبلت ہے۔احسان فراموشی میں یدِ طولیٰ رکھنے والا عمران خان اپنے محسنوں کے ساتھ کیا کیا کرتا آیا ہے یہ جاننے کی تکلیف گوارا نہ کرنے والوں نے اپنی پیشہ ورانہ تربیت کے علی الرغم اس کے ضمن میں اس احتیاط اور دیکھ بھال کے قدم اٹھانے کا خیال ہی نہ رکھا جس کے لئے وہ مشہور ہیں۔اپنی محتاط روی ،منصوبہ بندی اور ہر چال سوچ سمجھ کے چلنے والوں نے اپنے اسی طرز عمل سے بھٹو جیسے عوامی مقبولیت کے حامل زیرک و فہیم ،دانا و بینا ،ذہین و فطین سیاست دان کو تختۂ دار پر کھینچنے کے خوفناک اقدام کے بعد بھی بچ نکلنے میں ظفر یابی حاصل کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو عین عام انتخابات کے ہنگام میں سر عام گولی مروا کر محفوظ رہے اور نواز شریف کو تو ایک موقع پر پھانسی کابلیک وارنٹ تھمانے کا بندوبست بھی کرچکے تھے یہ تو میاں نواز شریف کی تقدیر اچھی تھی کہ بعض عرب ممالک کی بروقت مداخلت سے پھانسی کے پھندے سے بچ رہے مگر شُتر کینہ رکھنے والوں کی کینہ پروری کے وار سے بچ رہنا ان کے بس میں نہ تھا اسی لئے منتخب وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی ایک ایسے الزام میں اقتدار سے نکالے گئے جو آج تک ثابت نہیں کیا جاسکا اور یہ سب اس طرح ہوا کہ ان کی جماعت کی ملک میں حکومت تھی مگر وہ خود حکومتی جماعت کے سربراہ ہوتے ہوئے ایک سے دوسری عدالت میں بیٹی سمیت پیشیاں بھگتتے پھر رہے تھے۔ نواز شریف اور زرداری کو سیاست بدر کرنے کے لئے ان کے پیچھے’’اوئے اوئے اور چور چور‘‘کے نعرے لگا نے کے لئے جن سرپھروں کو لگایا گیا اسے شوریدہ سر ی میں ساری حدیں پار کرانے کی ذمہ داری عمران خان کو سونپی گئی جس کی بطور کرکٹ کپتان منہ زوری کے کارنامے زبان زدعام تھے۔وہ تقریباً دو دہائیوں سے خو کو بطورسیاسست دان منوانے کی تگ و دو میں مصروف تھے مگر اس دوران میڈیا کی آنکھ کا تارا بنے رہنے کے باوجود سوائے میانوالی کی ایک نشست حاصل کرنے سے زیادہ کچھ نہ کرسکے۔کرکٹ کے میدان کا ہیرو سیاست کے میدان میں اس وقت تک زیرو ہی رہا جب تک مقتدر ادارے نے خود کو اس زیرو کے الٹے ہاتھ کھڑا کرکے اس کی قدر بڑھانے کی سعی نہ کی۔اس صفر کے ساتھ مزید صفر کھڑے کرکے اس کی جتنی اہمیت بنائی گئی وہ تمام تر منصوبہ بندی کے بعد بھی خام کی خام رہی جس کا ثبوت یہ ہے کہ جونہی ادارہ اس کی بائیں جانب سے ہٹ کر کھڑا ہوا ،صفر ’’اپنی آنے والی تھاں‘‘ پر آکر پوری طرح اپنی اصلیت دکھا رہا ہے۔اس کے ساتھ جوڑے گئے سارے صفر اپنی اپنی حیثیت کھل جانے پر تلملاہٹ اور ذہنی خلفشار کا شکار ہوکر اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہیں کہ’’ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں‘‘۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ تاریخی اعتراف کرلیا ہے کہ ایک جھوٹا بیانیہ گھڑ کر قوم کو گمراہ کیا گیا ،عسکری قیادت پر بلاجواز گند اچھالا گیا،اور اب اپنے جھوٹے بیانیے سے پسپائی اختیار کی جارہی ہے۔ادارے نے سات دہائیوں تک سیاست بازی کی اپنی غیر آئینی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے آئندہ کے لئے یہ میدان سیاست دانوں کے لئے کھلا چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اب سیاست دانوں کو اپنے طرز عمل میں بدلاؤ لانے کی روش اختیار کرنا ہوگی۔یوں مقتدروں نے عمران خان کی شکل میں جو تحفہ اس قوم کو دیا ہے اسے واپس لینا بھی ان ہی کی ذمہ داری ہے۔یہ تحفہ جو آج ادارے کی سرپرستی کے بغیر اس قابل بھی نہیں رہا کہ اسے کسی توشہ خانے یا کسی مال خانے میں جمع کرایا جاسکے۔

تازہ ترین