• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو ہفتے پہلے میرے ایک محلے دار کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اور اُس کے بعد وہ سب کی زد میں آگئے۔ پہلے تو اس بات پر اعتراض ہوا کہ موصوف کی عمر 60 سال ہے، دو جوان بیٹے ہیں، پھر اللّٰہ اللّٰہ کرنے کی عمر میں یہ تیسرا بچہ۔ توبہ ہے شرم تو جیسے ختم ہی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ جملے محلے کی بڑی بوڑھیوں کے تھے البتہ انہی کی عمر کے مرد کچھ اور چہ مگوئیاں کرتے پائے گئے جن میں سوالات کی شرح زیادہ تھی۔دوسری بات جس نے زیادہ اٹھان پائی وہ یہ تھی کہ ’ہائے بیچارے کے پہلے ہی دو بیٹے تھے ایک بیٹا اور ہو گیا‘۔ یہ بڑا عجیب سا جملہ تھا۔ میں نے محلے داروں کی ایک محفل میں اعتراض اٹھایا کہ بیٹا تو خدا کی نعمت ہوتا ہے اس کے پیدا ہونے پر اعتراض کیوں؟ ایک دم سے جیسے محفل میں آگ لگ گئی۔حاجی صاحب کڑک کر بولے ’جس گھر میں بیٹی نہ ہو وہ گھر نامکمل ہوتا ہے‘۔ میں نے سر ہلایا ’بالکل ٹھیک کہا لیکن اس طرح تو جس گھر میں صرف بیٹیاں ہی ہوں کیا اسے بھی نامکمل گھر کہا جائے گا؟‘۔ پھنکاریں مزید بڑھ گئیں۔ حاجی صاحب غرائے ’بیٹیاں ماں باپ کے دُکھ درد کی ساتھی ہوتی ہیں جب کہ بیٹے صرف باپ کی جائیداد پر نظر رکھتے ہیں، لالچی ہوتے ہیں‘۔ میں نے گال کھجائے ’حاجی صاحب آپ بھی تو اپنے والدین کے بیٹے تھے تو کیا آپ بھی…‘ حاجی صاحب نے دانت پیسے اور انگلی سے سیدھا میری طرف اشارہ کرتے ہوئے چلائے، ’تمہارے صرف بیٹے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم دوسروں کا مذاق اڑاؤ‘۔میں سہم گیا ’حاجی صاحب مذاق تو آپ اڑا رہے ہیں، بیٹا نعمت ہے اور بیٹی رحمت، کسی کے گھر یہ دونوں ہیں اور کسی کے گھر ایک، تو اس میں طعنے مارنے والی کون سی بات ہے؟‘ محفل میں بدمز گی ہوگئی تھی لہٰذا سب اٹھ کھڑے ہوئے۔

میں سوشل میڈیا پر آئے دن پڑھتا ہوں کہ ’میرے گھر اللہ کی رحمت آئی ہے…بیٹی نہ ہو تو گھر سُوناہوتا ہے…بیٹی ماں باپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتی وغیرہ وغیرہ۔ کبھی کوئی شارٹ فلم بھی نظر سے گزرتی ہے تو اس میں بیٹے کو لفنٹراور بیٹی کو فرمانبردار دکھایا جاتا ہے۔یہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے آگے چل کر جب بیٹا باپ بنتا ہے اور بیٹی ماں کا روپ دھارتی ہے تو اولاد کو بھی لگتا ہے کہ باپ کسی کام کا نہیں، کریڈٹ کی حقدار صرف ماں ہے۔کبھی کبھی میں ڈر جاتا ہوں۔ یاروں دوستوں کے درمیان بیٹھے ہوں تو وہ بڑے فخر سے اپنی بیٹیوں کا ذکر کرتے ہیں، بیٹیوں کے فضائل بتاتے ہیں،خدا کی رحمت کی شان بیان کرتے ہیں۔ لیکن مجھے لگا کہ میں نے یہاں اگر بیٹوں کی حمایت میں ایک لفظ بھی کہا تو شاید گنہگار ہوجائوں گا۔میں کہنا چاہتا ہوں کہ بیٹے واقعی نعمت ہوتے ہیں۔پاکستان کے ماحول میں رات کو آپ کی گاڑی خراب ہوجائے تو آپ کا بیٹا موٹر سائیکل پر مکینک کو لے کر آسکتا ہے یا آپ کو Pick کر سکتا ہے۔آپ اسے اندھیرا پھیلنے کے بعد بھی کوئی چیز منگوانے بازار بھیج سکتے ہیں۔وہ آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوتا ہے تو آپ کو دگنی طاقت محسوس ہوتی ہے اور…دیکھئے میں پھر ڈرنا شروع ہوگیا ۔ مجھے لگتا ہے بیٹی کی تعریف کرتے وقت بیٹے کی خوبیاں بالکل نہیں گنوانی چاہئیں لیکن بیٹے کی تعریف کرتے وقت بیٹی والوں کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔کیا سارے بیٹے برے اور ساری بیٹیاں اچھی ہوتی ہیں؟شاید معاشرے میں بیٹیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے لوگ بیٹیوں کے زیادہ طرف دار ہوگئے ہیں۔ میں بھی ہوں۔لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ آج بھی کسی کے گھر بیٹی ہو تو خوشی مناتے ہوئے لوگ ہر دوسرے جملے میں ’رحمت ‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے والدین کو اندر کھاتے حوصلہ دے رہے ہیں، دل جوئی کر رہے ہوتے ہیں۔جہاں تین تین بیٹیاں ہیں وہاں یہ جملہ عام سننے کو ملتا ہے، کوئی بات نہیں اللہ بیٹا بھی دے گا۔کتنے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کوئی بات نہیں اللہ بیٹی بھی دے گا۔ گزارش ہے کہ بیٹا ہو یا بیٹی دونوں اپنی اپنی جگہ خوشیوں کا خزانہ ہیں۔بیٹی کی تعریف کرنی ہے تو کریں، ساتھ بیٹوں کی برائی کرنے کی کیا تُک ہے؟جن کے گھر بیٹیاں نہیں کیا وہ رحمت سے محروم ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بیٹے دے کرسزا دی ہے؟میرے ایک دوست کے چار بیٹے ہیں۔ پہلے وہ کہا کرتا تھا کہ ’میرے ماشاء اللہ چار بیٹے ہیں‘۔ اب اس نے ماشاء اللہ کہنا چھوڑ دیا ہے کہ یوں لگتاہے میں بیٹیوں والوں پر طنز کر رہا ہوں۔ایسا نہیں حضور! بیٹیاںہوں، بیٹے ہوں ۔ اولاد والدین کی آنکھوں کا نور ہوتی ہے۔ضروری نہیں کہ آپ کو اللہ نے صرف بیٹیاں دی ہیں تو آپ بیٹوں پر تبرا کرنا اپنے فرائضِ منصبی میں شامل کرلیں ۔جس گھر میں خدا کی ’رحمت‘ ہوتی ہے اُس رحمت نے ایک نہ ایک روز کسی ’نعمت‘ کے ساتھ بندھنا ہوتاہے۔جس طرح کئی بدبخت بیٹے اپنے والدین کے لئے برے ثابت ہوتے ہیں اسی طرح کئی ناسمجھ بیٹیاں بھی والدین کو تڑپتا چھوڑ جاتی ہیں۔ بیٹیاں آنگن کی تتلیاں ہوتی ہیں تو بیٹے تناور درخت ۔رحم کیجئے اور درختوں کا ذکر کرتے وقت محض نفرت کو مدنظر مت رکھئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین