• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی مشرقی سرحد تو بھارت جیسے کینہ پرور دشمن کے معاندانہ عزائم کی وجہ سے روز اول سے غیر محفوظ ہے جس کی وجہ سے ہماری مسلح افواج کو اس طرف ہمیشہ چوکس اور چوکنا رہنا پڑتا ہے مگر حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مغربی سرحد سے بھی جہاں ’’برادر اسلامی ملک‘‘ افغانستان واقع ہے کبھی کوئی خیر کی خبر موصول نہیں ہوئی اور یہ صورتحال قیام پاکستان کے وقت سے ہی چلی آ رہی ہے۔ طالبان کے برسر اقتدار آنے سے بہتری کی توقع پیدا ہوئی تھی۔مگر یہ توقع پوری نہیں ہوئی اور آج بھی افغان سرحد کی جانب سے نہ صرف تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد پاک سرزمین کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ سرکاری افغان فوج بھی سرحدکے اس طرف حملے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اتوار کو افغان سکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے شہر چمن کی شہری آبادی پر توپ خانے اور دوسرے بھاری ہتھیاروں سے بلا اشتعال اندھا دھند فائرنگ اور گولہ باری کی جس سے سات پاکستانی سویلین شہید اور 17زخمی ہو گئے۔ اس افسوسناک واقعہ کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کچھ افغان باشندے نامکمل دستاویزات کے ساتھ پاکستان میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ پاکستانی اہلکاروں نے انہیں روکا تو افغان فورسز کو اشتعال آ گیا اور انہوں نے فائرنگ اور راکٹ باری شروع کر دی۔ شرمناک بات یہ ہے کہ ان کا نشانہ چمن کی شہری آبادی تھی پاکستانی حکام نے کابل میں افغان حکومت سے رابطہ کیا مگر اس وقت تک دو درجن پاکستانیوں کا خون بہہ چکا تھا۔ زخمیوں کو پہلے چمن اور پھر کوئٹہ کے ہسپتالوں میں منتقل کرنا پڑا جہاں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔ اس سانحے کے نتیجے میں پاک افغان سرحد پر باب دوستی کے راستے ہر قسم کی آمدورفت بند اور دو طرفہ تجارت معطل کر دی گئی ۔ پاکستانی فورسز نے افغان جارحیت کا موثر انداز میں بھرپور جواب دیا تاہم افغان علاقے میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔ پاکستان نے افغان فورسز کی جانب سے اس بلا اشتعال کارروائی پر شدید احتجاج کیا ہے اور کابل حکومت سے اس طرح کے واقعات روکنے کیلئے سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ قندھار کے گورنر کے ترجمان نے واقعہ کو افغان سرحد کے اندر نئی چیک پوسٹوں کی تعمیر سے جوڑتے ہوئے پاکستانی شہریوں کی شہادت اور زخمی ہونے کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ اس واقعہ میں ایک افغان اہلکار بھی مارا گیا صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے دونوں ملکوں کے حکام رابطے میں ہیں لیکن یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس طرح کے کئی واقعات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں جب افغان سرزمین نہ صرف دہشت گردوں نے بلکہ افغان فورسز نے بھی پاکستان پر حملے کیلئے استعمال کی اور پاک فوج کو حرکت میں آنا پڑا۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہو رہا ہے کہ پاکستان نے آج بھی 35لاکھ سے زائد افغانیوں کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے اور انہیں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ طالبان حکومت کو دنیا کے کسی بھی ملک نے اب تک تسلیم نہیں کیاجبکہ پاکستان تسلیم کئے بغیر ہی اس کے ساتھ تجارت سمیت ہر قسم کے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے اور قوموں کی برادری میں افغانستان کے حقوق کی وکالت بھی کر رہا ہے۔ افغان خانہ جنگی کے دوران دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے تقریباً 80ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور سوا کھرب ڈالر کا مالی نقصان اٹھایا۔ طالبان حکومت کو ان احسانات کا ادراک کرنا چاہئے ۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے درست کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات بھائی چارے کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ چمن پر بلااشتعال افغان فورسز کی گولہ باری اور فائرنگ کے ذمہ دار وں کو کڑی سزا دے کر کابل حکومت اپنی نیک نیتی ثابت کر سکتی ہے۔

تازہ ترین