میلبرن کے سائنسدانوں نے ایچ آئی وی وائرس کو اس کے چھپنے کی جگہ (سفید خلیات) سے باہر نکالنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے۔
اس کے لیے انہوں نےایم آر این اے ٹیکنالوجی کو ایک نئے قِسم کے چربی کے ننھے ذرات ایل این پی ایکس میں ڈال کر وائرس تک پہنچایا، جس سے وائرس ظاہر ہو جاتا ہے۔
یہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن مستقبل میں مستقل علاج کی امید پیدا کرتی ہے، خیال رہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 4 کروڑ افراد کو ایڈز کا باعث بننے والے وائرس ایچ آئی وی کا سامنا ہے۔
اب تک اس کا مستقل علاج ممکن نہیں تھا اور مریضوں کو ساری زندگی دوائیں کھانی پڑتی تھیں، لیکن آسٹریلیا کے سائنسدانوں نے ایک ایسی اہم کامیابی حاصل کی ہے جو مستقل علاج کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
علاج میں بڑی رکاوٹ دور ہوگئی، ایچ آئی وی وائرس جسم کے سفید سیلز میں چھپے رہتے ہیںاور ادویات یا جسم کا دفاعی نظام اس تک نہیں پہنچ پاتا، یہ خاموش گڑھ وائرس کو دوبارہ فعال ہونے کا موقع دیتے ہیں۔
میلبرن کے سائنسدانوں کی تحقیق میں نیا کیا ہے؟ پیٹر ڈوہرٹی انسٹی ٹیوٹ کے محققین نے ایک نئی ٹیکنالوجی تیار کی ہے، انہوں نےایم آر این اے کو چربی کے انتہائی باریک ذرات میں لپیٹ کر اسے خاص سفید خلیوں تک پہنچایا ، وائرس چھپا ہوتا ہے،جس کے بعد وائرس ظاہر ہوتا ہے۔
تحقیقی ٹیم کی رکن ڈاکٹر پالا سیوال نے بتایا کہ پہلے یہ ناممکن سمجھا جاتا تھا ، جب پہلے تجربے کے نتائج سامنے آئے تو وہ بہت اچھے تھے، جس پر یقین کرنا مشکل تھا،ہم سب حیرت زدہ تھے، پہلے کچھ نہیں ہو رہا تھا پھر اچانک سب کچھ کام کرنے لگا۔
سائنسدان اب یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا وائرس کے ظاہر ہونے کے بعد جسم کا مدافعتی نظام خود اسے ختم کر سکتا ہے یا پھر اس ٹیکنالوجی کو دوسری ادویات کے ساتھ ملانا پڑے گا۔
اس ٹیکنالوجی کو مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کرنے میں ابھی کئی سال لگ سکتے ہیں، پہلے جانوروں اور پھر انسانوں پر محفوظ ہونے کے تجربات (ٹرائلز) ضروری ہیں، ڈاکٹر سیوال کے مطابق امید ہے کہ نینو پارٹیکلز کی یہ نئی ڈیزائن ایچ آئی وی کے علاج کا ایک نیا راستہ ثابت ہوسکتی ہے۔