• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل قمرجاوید باجوہ اکلوتے سپہ سالار ہیں جنہوںنے ہر کام نامکمل اور ادھورا چھوڑ دیااور انہیں ہر محاذ پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔سیاسی محاذ پر انہوں نے’’ آپریشن ردالنواز‘‘ شروع کیا مگر ان کی ملازمت کے آخری چند ماہ کے دوران مسلم لیگ (ن) کی حکومت لوٹ آئی ،ان کی طرف سے غلطیوں کا ازالہ کرنے کا وعدہ کیا گیاتھاچنانچہ 28اکتوبر2022ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے مریم نوازشریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں باعزت بری کردیا۔اسحاق ڈار اور سلمان شہباز پاکستان واپس آگئے جبکہ نئے سال کے آغاز میں ہی نوازشریف کی واپسی متوقع ہے۔اسی طرح عسکری محاذ پر انہوں نے آپریشن ردالفسادکا آغاز کیا مگر جہاد کے نام پر فساد پھیلانے والوں کا فتنہ ختم نہیں کیا جاسکا۔ جنرل قمرجاویدباجوہ 26نومبر2016ء کو آرمی چیف تعینات ہوئے تو اس روز دہشت گردوں کی طرف سے دوحملے کئے گئے۔خیبر پختونخوا کے علاقے مہمند میں فرنٹیئر کور کو نشانہ بنایا گیا جبکہ پسنی میں چینی انجینئرز کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔17فروری 2017ء کو دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کیلئےآپریشن ردالفساد لانچ کیا گیا۔پاک افغان بارڈر کو محفوظ بنانے کیلئے باڑ لگانے کے منصوبے پر کا م شروع ہوا۔عسکری محاذ پر ان کا آپریشن ردالفساد ناکام ہوگیا کیونکہ ان کے جانے سے پہلے ہی افغان طالبان حکومت کی طرف سے باڑ اکھاڑ پھینکنے کا سلسلہ شروع ہوگیا،جس دن انہوں نے کمانڈ کی چھڑی جنرل عاصم منیر کے حوالے کی ،اسی روز تحریک طالبان پاکستان نے حملوں کا اعلان کردیا۔گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ہشت گردی کی نئی لہر یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ یہ لوگ پھر سے منظم ہوچکے ہیں ۔

گزشتہ برس16اگست کو طالبان کابل میں داخل ہوئے تو پاکستان بھر میں اس مہم جوئی کو اسٹریٹجک ڈیپتھ یعنی تزویراتی گہرائی کے ریاستی بیانئے کی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے اب افغانستان پاکستان کا حصہ بن گیا ہے۔ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اس کامیابی کا کریڈٹ لینے کیلئےافغانستان جا پہنچے اور کابل کے ایک پنج تارہ ہوٹل کی لابی میں چائے سے جی بہلاتے ہوئے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ،پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،سب ٹھیک ہوجائے گا۔ان کے ڈ ھنڈ و ر چیوں نے ڈھول کی تھاپ پر منادی شروع کردی اور قوم کو یہ مژدہ جانفزا سنایا گیا کہ جو کام حمید گل نہ کرسکے ،وہ فیض حمید نے کردکھایا۔اس کے بعد جب فاتح کابل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پشاور کے کورکمانڈر بنے تو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا گیا۔ جنگ بندی کی آڑ میں ان دہشت گردوں نے ایک بار پھر پاکستان میں قدم جمانا شروع کردیئے۔اس دوران وزیراعظم عمران خان طالبان کی وکالت کرتے رہے اور ان کا مقدمہ بہت زبردست انداز میں عالمی فورمز پر پیش کرتے ر ہے ۔ 29نومبر2022ء کو جب جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ایک ساتھ رخصت ہوئے تو تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے جنگ بندی ختم کرکے پھر سے حملے شروع کرنے کا اعلان کردیا گیا۔

جب طبلچی اور ڈھنڈورچی جھوٹی اور غیر حقیقی کامیابیوں کے گن گارہے تھے تب بھی یہ گزارشات پیش کی تھیں کہ کابل میں طالبان کی آمد کسی طرح بھی پاکستان کیلئے خیر کی خبر نہیں ۔کچھ عرصہ بعد ہی پا ک افغان بارڈر پر لگی باڑ اکھاڑنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور افغان طالبان کی طرف سے واضح کردیا گیا کہ ہم اس سرحد کو نہیں مانتے۔پھر مغربی سرحد پر اشتعال انگیزی کا آغاز ہوگیا۔سرحد پار سے حملے ہونے لگے ۔افغانستان ان طالبان کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا جو پاکستان میں کارروائیاں کرنے کے بعد وہاں جا کر چھپ جاتے۔پاکستانی طالبان کے ہاں یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ اگر افغانستان میں امریکہ جیسی سپر پاور کو شکست دی جاسکتی ہے تو پاکستان میں بھی فوج کے خلاف کامیابی حاصل کرنا ناممکن نہیں۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ افغان طالبان ان جنگجوئوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور وعدوں کے برعکس ان کا راستہ روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں اورجنرل قمر جاوید باجوہ کے6سالہ دور میں غلط پالیسیوں کی شکل میں جو فصل بوئی گئی تھی اسے کاٹنا پڑ ے گا۔

پاکستان کو مغربی سرحد کی طرف سے جو چیلنجز درپیش ہیں وہ محض عسکری نوعیت کے نہیں ہیں ۔ سفارتی، سیاسی،تجارتی اور معاشی حوالوں سے بھی پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔مثال کے طور پر افغان طالبان کی آمد سے پہلے پاکستانی مزدور وہاں کام کرنے جایا کرتے تھے اور ڈالروں کی شکل میں غیر ملکی زرمبادلہ پاکستان آتا تھا مگر اب ڈالروں کی افغانستان اسمگلنگ کا معاملہ اس قدر گمبھیر شکل اختیارکرگیا ہے کہ پاکستانی کرنسی کی قدر مسلسل گھٹ رہی ہے اور ڈالر کی شرح تبادلہ سنبھلنے میں نہیں آرہی۔ معاملہ صرف یہیں تک محدود رہتا تو الگ بات تھی۔زرعی اجناس جیسا کہ چاول اور گندم کوغیر قانونی طریقے سے سرحد پار لے جایا جارہا ہے۔یوں پاکستان کو زرعی ملک ہونے کے باوجود مہنگی گندم درآمد کرنا پڑ رہی ہے اور اس سے امپورٹ بل میں اضافہ ہورہا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کو بیک وقت کئی محاذوں پر چومکھی لڑائی کا سامنا ہے۔اسٹریٹجک ڈیپتھ کے جس نظریئے کو تزویراتی گہرائی سمجھا گیا ،وہ دراصل تزویراتی کھائی تھی اور ہم اس میں گرتے چلے گئے۔سائبیریا کے برفانی علاقوں میں لوگ شکار کرنے کےلئے ایک خنجر پر کسی جانور کا خون لگا کر اسے برف میں گاڑ دیتے ہیں ۔برفانی بھیڑیا خون کی خوشبو سونگھتا ہوا آتا ہے اور اسے چاٹنا شروع کردیتا ہے۔تیز دھار خنجر کی نوک سے اس کی زبان کٹ جاتی ہے، وہ اپنا خون چاٹتے بیہوش ہوکر گرجاتا ہے۔ہمارے منہ کو خون لگا ہوا تھا،طالبان نے اس کمزوری کا فائدہ اُٹھایا اور تزویراتی گہرائی کا جھانسہ دیکر ہمیں شکارکرلیا۔

تازہ ترین