• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی تعلیمی بجٹ میں کٹوتی، سیلاب طلبہ کا مستقبل بھی بہا لے گیا

2022ء ہمارے لیے اس حوالے سے انتہائی اہم تھا کہ اس برس قیامِ پاکستان کے 75 برس مکمل ہوئے، لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ پون صدی بعدبھی ہم مادرِ وطن کو اس قابل نہیں بناسکے کہ اس کا شمار ترقّی یافتہ ممالک میں ہوسکے،جس کی بنیادی وجہ تعلیم کا قومی ترجیحات میں شامل نہ ہونا ہے۔پاکستان کی موجودہ شرحِ خواندگی 62.8 فی صدہے، یعنی آج بھی قریباً 60 ملین آبادی ناخواندہ ہے ،جب کہ ہم متعدّد تعلیمی پالیسیز، منصوبوں کے باجود اب تک یہی فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمیں قومی سطح پر اپنے بچّوں کو کس زبان میں تعلیم دینی ہے۔

ذرا سوچیں کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا مُلک ،شرحِ خواندگی کے اعتبار سے دنیا کےٹاپ 50 ممالک میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔سالِ گزشتہ کا جائزہ لیں، تو جون 2022 ء میں شایع ہونے والی اقتصادی سروے رپورٹ 22-2021ء کے مطابق ایک سال کےدوران مُلک کی شرحِ خواندگی میں صرف 0.4 فی صد اضافہ ہوا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کی مجموعی شرحِ خواندگی 66 فی صد، سندھ کی 61.8 فی صد،کے پی کےکی 55.1فی صداور بلوچستان کی 54.5 فی صد ہے۔وفاقی تعلیمی بجٹ کی بات کی جائے، تومالی سال 23-2022 ءکے لیے95 کھرب روپے کے حجم کا بجٹ پیش کیا گیا، جس میں تعلیم کے لیے 90,556 ملین روپے مختص کیے گئے۔ 

واضح رہے، گزشتہ مالی سال کے لیے90,861 ملین روپے تعلیم کے لیے مختص کیے گئے تھے (پہلے 91,970 ملین روپے مختص کیے گئے ، بعدازاں ترمیم کی گئی)۔اس طرح رواں مالی سال کے تعلیمی بجٹ میں قریباً 305 ملین روپے کی کٹوتی کی گئی۔جب کہ ایچ ای سی کے لیے 109ارب روپے، بلوچستان اور ضم اضلاع کے لیے 5ہزار وظائف اورایچ ای سی کی ترقیاتی اسکیمز کے لیے44ارب رکھے گئے۔

دوسری جانب، کورونا وبا کے بعدمُلک میں سیلابی صورتِ حال نے بھی بچّوں پر تعلیم کے دروازے بند کیے کہ غیر معمولی بارشوں، سیلاب کے سبب املاک، معیشت کو تونقصان پہنچا ہی، مگر 20 ہزارسے زائد اسکولز بھی تباہ ہوئے ، جب کہ 7ہزار اسکولزکو امدادی مراکز میں تبدیل کردیاگیا،جس سےتعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اچھی خبر کی بات کریں، توبرطانوی ادارے،کیو ایس کی جانب سے جاری کردہ جامعات کی نئی عالمی درجہ بندی برائے2023ءمیں پاکستان کی 3یونی وَرسٹیز (نیشنل یونی ورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی، قائداعظم یونی وَرسٹی،پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز)ٹاپ500 کی فہرست میں جگہ بنانے میں کام یاب رہیں۔

سالِ رفتہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) کی جانب سے مستحق طلبہ کے لیے اسکالر شِپ کی مَد میں مختلف یونی ورسٹیز کو ادا کی جانے والی 54.42ملین روپے کی ادائیگیوں میں مبینہ بےضابطگیوں کاانکشاف ہوا۔نیز،ملک میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح پر گریڈنگ سسٹم تبدیل کرکے 10 نکاتی طریقۂ کار لانے میں پیش رفت ہوئی ، جس کے تحت پاسنگ مارکس کی شرح 33 سے بڑھا کر 40 فی صد پر لائی جارہی ہے، جب کہ فیل (یعنی ایف گریڈ) ختم کرکے یو (اَن سیٹسفائی) گریڈ متعارف کروایا جائے گا۔ علاوہ ازیں، میٹرک، انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو نمبرز کے بجائے گریڈنگ پوائنٹس دینے پر بھی غور ہورہا ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی طریقۂ کار ہے، جس سے طلبہ کو دوسرے ممالک میں داخلہ لینے یا وہاں کے سسٹم میں شامل ہونے میں مدد ملے گی۔

اساتذہ کی بات کی جائے، تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اساتذہ کو موسمِ سرما،گرما کی تعطیلات میں کنوینس الاؤنس نہ دینے کا نوٹس لیتے ہوئے اسے غیر قانونی اور امتیازی عمل قراردیا۔ سی ایس ایس کے تحریری امتحان کے نتائج میں کام یابی کا تناسب1.94فی صد رہا۔یاد رہے، مُلک بَھر سےکُل 20 ہزار 262 امیدواروں نے مقابلہ جاتی امتحان میں حصّہ لیا تھا، جن میں سےصرف 393 امیدوارہی کام یاب ہوسکے۔

صوبۂ پنجاب میں مالی سال2023- 2022ءکے لیے 3 ہزار 226 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا، جس میں شعبۂ تعلیم کے لیے مجموعی طور پر 485ارب 26 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ جس میں سے 428 ارب 56 کروڑ روپے ترقیاتی اور 56 ارب 70 کروڑ روپے غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے رکھے گئے۔بجٹ میں محکمہ اسکول ایجوکیشن کے لیے 421 ارب 6 کروڑ،ہائر ایجوکیشن کے لیے 59 ارب 7 کروڑ روپے، اسپیشل ایجوکیشن کے لیے ایک ارب 52 کروڑ روپےاور غیر رسمی تعلیم کے لیے 59 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ محکمہ اسکول کے لیے مختص کردہ382 ارب میں سے 5 ارب 53 کروڑ 6 لاکھ روپے ’’زیورِ تعلیم‘‘ پروگرام کے لیے ،جب کہ مفت کتب فراہمی کے لیے 3 ارب 20 کروڑ روپے، اسکول کاؤنسلز کے ذریعے تعلیمی سہولتوں کے لیے 14 ارب 93 کروڑ روپےاوردانش اسکولز کے اخراجات کے لیے 3 ارب 75 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔

نیز، محکمۂ اسکول ایجوکیشن کے لیے مختص 39 ارب میں سے نئے دانش اسکولز کے لیے ایک ارب 50 کروڑ روپے وقف کیے گئے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پروگرام کے تحت پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے لیے 21 ارب 50 کروڑ،اسکولز کی خستہ حال عمارتوں کی مرمّت کے لیے ایک ارب 50 کروڑ روپے اورصوبے کے اسکولز میں اضافی کمروں کی تعمیر کے لیے ایک ارب روپیا مختص کیا گیا۔امتحانی نتائج کی بات کی جائے تو پنجاب میں کُل 9تعلیمی بورڈز ہیں، جن کی رو سے ڈیرہ غازی خان بورڈ میں بچّوں کے پاس ہونے کی شرح سب سے زیادہ یعنی 77 فی صد اور لاہور بورڈ میں میٹرک کے بچّوں کے پاس ہونے کی شرح کم ترین ،66 فی صد رہی۔

نیز، پنجاب بھر میں طلبہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے ’’اسٹوڈنٹس پرفارمینس ایویلیویشن اینڈ ٹریکنگ سسٹم (سپیٹس)‘‘ نامی ایک سافٹ ویئر تیار کیا گیا۔اوراس کے پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز مارچ میں ملتان کے اسکول سے کیا گیا۔ آغاز میں سافٹ وئیر کی مدد سے چھٹی سے دسویں جماعت تک کے طلبہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ یاد رہے، صوبے میں طلبہ کی کُل تعداد 42,93,753 ہے، جب کہ سافٹ ویئر کی مدد سے ہر طالبِ علم کے ساتھ ایک منفرد آئی ڈی نمبر منسلک کیا جائے گا، جس کےذریعے اس کے مکمل تعلیمی ریکارڈ، صحت، غیر نصابی سرگرمیوں، امتحانات کے نتائج و دیگر ضروری معلومات کی فراہمی ممکن ہوگی۔ 

نیز، اس سسٹم کی مدد سے اساتذہ کی کارکردگی کو بھی باریک بینی سے جانچا جاسکےگا۔یعنی اگرسسٹم کی نشان دہی کے باوجود بچوں کے تعلیمی مسائل حل نہ ہوئے، تو اساتذہ جواب دہ ہوں گے۔علاوہ ازیں، محکمۂ اسکول ایجوکیشن نے نجی تعلیمی اداروں کو ہدایت جاری کی کہ چَھٹی سے آٹھویں جماعت تک یک ساں نصاب نافذ کیا جائے۔خیال رہے، پی ٹی آئی دَورِ حکومت میں پرائمری جماعتوں میں یک ساں تعلیمی نصاب کے پہلے مرحلے کا آغازکیا جا چُکا ہے۔ 

نیز، یکم اپریل 2023 ء سے پہلے نئی کتب کی مارکیٹ میں دست یابی یقینی بنانے کے احکامات بھی جاری کیے گئے، جب کہ ایسے تعلیمی ادارے، جو یک ساں نصابِ تعلیم کے ساتھ دیگر نصاب استعمال کرنا چاہتے ہیں، انہیں پہلے پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بُک بورڈ سے اجازت لینا ہوگی، بصورتِ دیگر 25 ہزار روپے سے 5 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ ہاں، پنجاب سے ایک بہت اچھی خبر یہ آئی کہ حافظ ڈاکٹر ولید ملک نےایم بی بی ایس میں29 میڈلز(27 گولڈ، 2 سلور)جیت کر ایک ریکارڈ قائم کردیا۔

صوبۂ سندھ کی بات کی جائے تو سال کے آغاز میں وزیر ِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سندھ کی27 سرکاری جامعات کے لیے 5 ارب 40 کروڑ روپے کی گرانٹ جاری کرنے کی منظوری دی، جس میں سے جامعہ کراچی کے لیے 1,271 ملین روپے، جامعہ سندھ کے لیے 1,207 ملین روپے، ٹنڈو جام زرعی یونی وَرسٹی کے لیے666 ملین روپے، جناح سندھ میڈیکل یونی وَرسٹی کے لیے 97 ملین روپے، ڈائو میڈیکل یونی وَرسٹی کے لیے 124 ملین روپے، جامعہ این ای ڈی کے لیے 478 ملین روپے، داؤد انجینئرنگ یونی وَرسٹی کے لیے55 ملین روپے، آئی بی اے، کراچی کے لیے65 ملین روپے، لیاری یونی وَرسٹی کے لیے 85 ملین روپے، سندھ مدرستہ الاسلام یونی وَرسٹی کے لیے 60 ملین روپے، لاء یونی وَرسٹی کے لیے 70 ملین روپے، گورنمنٹ کالج یونی وَرسٹی، حیدرآباد کے لیے 70 ملین روپے، سکرنڈ یونی وَرسٹی کے لیے70 ملین روپے، مہران یونی وَرسٹی کے لیے370 ملین روپے، قائدِ عوام یونی وَرسٹی کے لیے 389 ملین روپے، بیگم نصرت بھٹو ویمن یونی وَرسٹی کے لیے 50 ملین روپےاورشاہ لطیف یونی وَرسٹی کے لیے180 ملین روپے کی گرانٹ منظور کی گئی۔

جب کہ سندھ میں مالی سال 23-2022 ءکے لیے ایک ہزار 714 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا، جس میں محکمۂ تعلیم کے لیے326.80 ارب مختص کیے گئے، جو کُل بجٹ کے اخراجات کا 24 فی صد سے زاید بنتاہے۔سندھ حکومت کے تحت 7اضلاع میں یونی وَرسٹی یا یونی وَرسٹی کیمپس قائم کیے جائیں گے، جن میں کورنگی، کراچی ویسٹ، کیماڑی، ملیر، ٹنڈو محمّد خان، ٹنڈو ا لہیار اور سجا ول شامل ہیں۔

علاوہ ازیں،عدالتی احکامات پر اسلامیہ کالج کی عمارت خالی کروانے کے دوران طلبہ نےشدید احتجاج کرتے ہوئےپولیس پر پتھراؤ کیا اور سڑک پر ٹائر جلا ئے ،جس پر پولیس نے ان پر شیلنگ ، لاٹھی چارج کے ساتھ واٹر کینن کا بھی استعمال کیا ۔نیز، اسلامیہ کالج کےطلبہ نے احتجاجی طور پر کالج کے باہر کلاس روم قائم کر کے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

امتحانی نتائج کا جائزہ لیا جائے ، تو انٹر پری میڈیکل میں کُل 24 ہزار 608 طلبہ نے رجسٹریشن کروائی، جن میں سے24 ہزار 151 نے امتحان میں حصّہ لیا،457 غیر حاضر رہے ۔یوں، مجموعی طور پر14 ہزار 193 طلبہ پاس ہوئےاور کام یابی کا تناسب58.77 فی صد رہا۔میٹرک سائنس میں کُل 152175 طلبہ رجسٹرہوئے، جن میں سے 131436 کام یاب رہے، اس طرح کام یابی کا تناسب 80.48 فی صد رہا۔ سائنس گروپ میں 52,127 طلبہ نے اے ون،34,639 نے اے، 22,548 نے بی، 10,155 نے سی اور 1,851 ڈی گریڈز حاصل کیے۔ میٹرک جنرل گروپ میں 16,880 امیدوار رجسٹر، 16,454 شریک اور11,466 اُمیدوار پاس ہوئے۔کام یابی کی شرح 69.69 فی صد رہی۔ 

علاوہ ازیں ،خصوصی طلبہ کے امتحانات میں کُل 97 طلبہ شریک اور 96 پاس ہوئے، کام یابی کا تناسب 98.96 فی صد رہا۔صوبے کی دیگر تعلیمی سرگرمیوں کی بات کریں، تو صوبائی وزیر ِتعلیم، سردار علی شاہ کے احکامات پر سرکاری اسکولز کے طلبہ کو مفت درسی کتب کی عدم فراہمی اور تاخیر پر دو تعلقہ ایجوکیشن افسران معطّل کیے گئے ۔ دوسری جانب کراچی میں سابق ڈائریکٹر اسکولز کے خلاف بھی اسکولز میں فرنیچر فراہم نہ کیے جانے کی تحقیقات شروع کی گئیں۔ علاوہ ازیں، سیلابی ریلوں کے باعث جہاں لاتعداد افراد بے گھرہوگئے، وہیں سندھ کے اَن گنت بچّے بھی تعلیم سے دُور، اسکولز سے محروم ہوگئے۔حالیہ سیلاب کے سبب سندھ میں20 لاکھ بچّوں کی تعلیم متاثر ہوئی،جب کہ20 ہزار 602 اسکولز کی عمارتوں کو نقصان پہنچا، جن کی بحالی میں قریباً دو سال کا عرصہ لگ سکتاہے۔

صوبائی وزیرِ تعلیم و ثقافت ،سندھ سید سردار علی شاہ کی زیر صدارت صوبائی تعلیمی نصاب سے متعلق ایک اجلاس منعقد ہوا،جس میں اتفاق ہوا کہ صوبے اور ’’نیشنل کریکیولم پاکستان‘‘ کچھ مضامین کا نصاب مل کر ترتیب دیں گے۔سائنس، ریاضی، کمپیوٹر سائنس اور انگریزی کا نصاب نیشنل کریکیولم پاکستان کی مشاورت سے ’’ایک نصاب پالیسی‘‘ کے تحت مرتّب کیا جائے گا، جب کہ سوشل اسٹڈیز، مادری زبان اور دیگر علوم کی کتب میں صوبے اپنی اپنی سطح پر علاقائی اور قومی موضوعات شامل کرسکیں گے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ ’’پہلی بار پاکستان میں بسنے والے دیگرمذاہب،جیسے عیسائیت، ہندو دھرم، سکھ، بہائی، کیلاشہ، زرتشت اور بدھ مت کے بچّوں کے لیے الگ، الگ نصاب مرتّب کیا گیاہے۔‘‘نیز، محکمہ تعلیم سندھ نے صوبے میں گھوسٹ اساتذہ کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے2 ہزار 19 ملازمین کی تن خواہیں روک لیں۔ یاد رہے،کراچی سے 144، حیدر آباد سے 132اور میرپور خاص سے 114،قمبر شہداد کوٹ سے 464، جیکب آبادسے 190، دادو سے 102، بےنظیرآباد سے 182، شکارپور سے 128، نوشہروفیروز سے 89، لاڑکانہ سے 155 اور سانگھڑسے 28 گھوسٹ اساتذہ رپورٹ ہوئے۔

سروے سے معلوم ہوا کہ صوبے کے 6ہزار 407اسکولز چھتوں کے بغیر ہیں،جب کہ مجموعی طور پر صوبے بَھر میں 4ہزار 533 اساتذہ مستقل غیر حاضر ہیں۔علاوہ ازیں، حیدرآباد کی نجی اسکول انتظامیہ نے عدالتی احکامات کا نوٹس نہ لیتے ہوئےٹیوشن فیس میں 20سے 25 فی صد اضافہ کیا، حالاں کہ، عدالتِ عالیہ، سندھ نے صرف 5 فی صد اضافے کی اجازت دی تھی۔ غالباً پہلی مرتبہ سندھ بھر کے تعلیمی اداروں میں تھیم بیسڈ’’عالمی یومِ اطفال ‘‘منایا گیا، تو سرکاری جامعات میں وائس چانسلر کے عُہدے کے لیےسندھ کے ڈومیسائل کی شرط ختم کردی گئی۔

کے پی کے میں 13 کھرب 32 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا، جس میں ابتدائی و ثانوی تعلیم کے لیے227,087 ملین روپے کی خطیر رقم(جس میں ترقیاتی اور بیرونی مالیاتی امداد بھی شامل ہے)،محکمہ اعلیٰ تعلیم کے لیے34,191 ملین اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لیے 2,849 ملین روپےمختص کیے گئے۔امتحانی کارکردگی کا جائزہ لیں، تو انٹر کا امتحان دینے والے کُل 59,644 طلبہ میں سے 55,856 کام یاب قرار پائےاورکام یابی کی شرح 93.6فی صد رہی۔ میٹرک کے امتحان میں 80,044طلبہ شریک اور67,246 کام یاب ہوئےاور کام یابی کا تناسب 84 فی صد رہا۔

بلوچستان میں 612 ارب 79 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا گیا، جس میں بغیر چھت کے اسکولز کی تعمیر کے لیے 30 کروڑ روپے سے زائد رکھے گئے اور صوبے بھر میں 103 نئے پرائمری اسکولز کھولنے،60 اسکولز اَپ گریڈ کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ مکران یونی وَرسٹی، پنجگور کے قیام کے لیے 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ قائداعظم کیڈٹ کالج، زیارت کے لیے(جس کی تعمیر میں 2 ارب 2 کروڑ کی لاگت آئے گی) 30 کروڑ روپے،ہونہار طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کے لیے 50 کروڑ روپے اور گریجویٹ طلبہ کے انٹرن شپ پروگرام کے لیے20 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ امتحانی نتائج کی بات کی جائے، تو فرسٹ ائیرمیں 41,545طلبہ شریک اور 35,507کام یاب ہوئے اور کام یابی کا تناسب 85.5فی صد رہا، جب کہ سیکنڈ ائیر میں 47,944طلبہ شریک ہوئے،جن میں سے 44,181کام یاب قرار پائے اور تناسب 92.2 فی صدرہا۔