• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال 2022ء میں عدالتوں نے بار بار کہا کہ سیاسی مسائل کے حل کا فورم پارلیمنٹ ہے، عدالتیں نہیں، لیکن اِس کے باوجود، اہم حکومتی معاملات عدالتوں ہی میں طے ہوئے۔ وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد مسترد کرنے کا معاملہ ہو یا پنجاب اسمبلی میں وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے دَوران ایک جماعت کے ووٹ گنتی نہ کرنے کا تنازع، سیاسی معاملات عدالتی فورم ہی پر حل ہوئے۔ عمران خان نے اقتدار سے باہر ہونے پر رات کو عدالت کُھلنے کا بیانیہ دیا، مگر پھر عدالتوں سے سب سے زیادہ ریلیف بھی اُنھیں اور پی ٹی آئی کے دیگر قائدین کو ملا۔ 

سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل ہی اسے سازشی تھیوری کی بنیاد پر مسترد کرنے سے متعلق ڈپٹی اسپیکر کی 3اپریل کی رُولنگ غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دی۔ عدالت نے کہا’’ وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر صدر عارف علوی کی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل آئین و قانون سے متصادم تھی۔ وزیرِ اعظم، صدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتے تھے۔‘‘عدالت نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے دَوران ڈپٹی اسپیکر، پنجاب اسمبلی کی جانب سے مسلم لیگ ق کے10 ووٹ مسترد کرنے کی رُولنگ غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے امیدوار پرویز الٰہی کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب قرار دیا۔ 

عدالت نے گورنر پنجاب کو نئے وزیرِ اعلیٰ سے اُسی رات 11:30پر حلف لینے اور دست یاب نہ ہونے کی صُورت میں صدرِ مملکت کو حلف لینے کا کہا۔عدالتِ عظمیٰ کا ارکانِ پارلیمان کے، اپنی سیاسی پارٹی کی پالیسیز سے انحراف سے متعلق آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح کے حوالے سے دائر صدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستیں نمٹاتے ہوئے کہنا تھا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے ارکانِ اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ عدالت نے منحرف ارکان کی عوامی عُہدہ رکھنے کے لیے تاحیات نااہلی سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے منحرف رُکن کی نااہلی کی میعاد کے تعیّن کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوا دیا۔

سپریم کورٹ نے غلط بیانِ حلفی پر فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی ختم کر دی۔ فیصل واوڈا کی جانب سے غلط بیانی تسلیم اور معافی مانگنے پر اُن کی تاحیات نااہلی پانچ سال میں تبدیل کر دی گئی۔فیصل واوڈا اب آئندہ عام انتخابات میں حصّہ لینے کے اہل ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کا فیصلہ 2022ء میں بھی نہ ہو سکا۔ جون میں کیس سماعت کے لیے مقرّر ہوا،مگر جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی ناسازیٔ طبیعت کے باعث سماعت ملتوی ہو گئی۔پھر بینچ کے دو ارکان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نیا بینچ تشکیل پایا اور نہ ہی کیس کی سماعت ہو سکی۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کا فیصلہ جاری کیا کہ جج کی اہلیہ کو آئینی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔نیز، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایف بی آر کی تحقیقات کا حکم غلط قرار دیتے ہوئے فیصلہ واپس لے لیا گیا۔تفتیشی اداروں میں مبیّنہ حکومتی مداخلت کے تاثر اور میڈیا رپورٹس پر چیف جسٹس پاکستان نے از خود نوٹس لیا۔

عدالت نے ہائی پروفائل کیسز، خصوصی عدالت اور نیب مقدمات میں تقرّر و تبادلوں پر پابندی عاید کر دی، جب کہ پراسیکیوشن کو ہائی پروفائل مقدمات واپس نہ لینے کا حکم بھی جاری کیا۔6 اپریل کے بعد ای سی ایل سے نکالے گئے تمام نام اور کیسز کا ریکارڈ سیل کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نشستوں کی تعداد میں اضافے کی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا گیا کہ عدالت پارلیمنٹ کو ہدایات نہیں دے سکتی۔

سپریم کورٹ نے سینئر صحافی اور اینکرپرسن، ارشد شریف کے کینیا میں قتل پر از خود نوٹس لیتے ہوئے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ریکوڈک کے نئے معاہدے سے متعلق وفاقی حکومت کی جانب سے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہوئی۔ غیر مُلکی ماہرین نے عدالت کو بریفنگ میں بتایا کہ معاہدے سے بلوچستان حکومت کو 40سال میں 32ارب ڈالرز ملیں گے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے قانونی حقوق اور شکایات کے ازالے کے لیے خصوصی اقدامات کا حکم جاری کیا گیا۔

مُلک بھر کی پانچوں ہائی کورٹس کو تعلیمی اداروں کی پالیسیز اور قواعد میں مداخلت سے گریز کی ہدایت کرتے ہوئے جامعات کے دیگر معاملات میں دخل اندازی پر بھی پابندی لگا دی گئی۔’’شاہ زیب قتل کیس‘‘میں ٹرائل کورٹ سے سزائے موت پانے والے مجرم، شاہ رُخ جتوئی سمیت دیگر شریک مجرمان کو راضی نامے کی بنیاد پر بَری کر دیا گیا۔عدالت نے پرویز مشرف پر حملے کے ملزم رانا نوید کو عُمر قید کی سزا مکمل ہونے پر بَری کرنے کا فیصلہ سُنایا۔

عمران خان نے توہینِ عدالت کیس میں سپریم کورٹ میں جواب جمع کروایا کہ اُنہیں اپنی طرف سے سپریم کورٹ میں وکلا کے ذریعے 25مئی کی ریلی کے ریڈ زون میں داخل نہ ہونے کی یقین دہانی کروانے کا علم نہیں۔اِس پر عدالت نے کہا کہ’’ دو وکلا کے ذریعے عدالت کو گم راہ کیا گیا۔ عمران خان نے براہِ راست یقین دہانی نہیں کروائی تھی۔‘‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی ہدایت پر عدالتی کارروائی کی ٹرائل بنیادوں پر لائیو اسٹریمنگ کا فیصلہ ہوا۔ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے کورٹ روم نمبر وَن میں سسٹم نصب کر کے بار نمائندوں، کورٹ رپورٹرز، ججز سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ان کے موبائل فونز یا کمپیوٹر سسٹم پر عدالتی کارروائی براہِ راست دیکھنے کی رسائی دیتے ہوئے تجاویز طلب کی گئیں تاکہ اس سے متعلق رُولز بنائے جا سکیں،تاہم بعد میں یہ پراجیکٹ وقتی طور پر بند کر دیا گیا۔ عمران خان کے لیے نہ صرف اتوار کے روز عدالت کُھلی، بلکہ جج دھمکی کیس میں اُنھیں پیش ہوئے بغیر حفاظتی ضمانت بھی ملی۔ 

توہینِ مسجدِ نبویؐ کے الزام پر درج مقدمات میں عید کی چُھٹی کے روز فوّاد چوہدری اور شہباز گل سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنمائوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ریلیف ملا۔ شیریں مزاری کی گرفتاری پر رات ساڑھے گیارہ بجے سماعت ہوئی۔اسلام آبا دہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بَری کرتے ہوئے احتساب عدالت کی جانب سے سُنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دیں، عدالت نے کہا کہ سزائیں بلا جواز تھیں۔ نیب اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا، بارِ ثبوت ملزمان پر منتقل ہی نہ کر سکا۔ ٹرائل کورٹ نے نواز شریف کے خلاف کرپشن کا الزام مسترد کیا، جس کے خلاف اپیل ہی دائر نہیں کی گئی۔

عدالت نے کہا کہ نیب یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ نواز شریف نے مریم نواز کے نام سے غیر قانونی طریقے سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے۔ نیب اِس بات کا بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا کہ مریم نواز نے اونر شپ چُھپانے میں معاونت کی۔ خاتون ایڈیشنل سیشن جج، زیبا چوہدری کو تقریر میں دھمکانے پر عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کا آغاز ہوا، مگر وہ فردِ جرم عاید ہونے سے قبل ہی خاتون جج سے معافی مانگنے کچہری چلے گئے، جہاں جج صاحبہ تو چُھٹی پر تھیں،تاہم عمران خان نے عدالتی عملے کو بتایا کہ’’ وہ جج تک اُن کا پیغام پہنچا دیں کہ وہ معافی مانگنے آئے تھے۔‘‘ ہائی کورٹ نے اِس طرزِ عمل پر اُن کی معافی قبول کرتے ہوئے توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس خارج کر دیا۔ جج دھمکی کیس ہی میں 2اکتوبر کو اتوار کے دن ہائی کورٹ کُھلی اور عمران خان کو پیش ہوئے بغیر حاضری سے استثنا منظور کر کے حفاظتی ضمانت دی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اظہارِ رائے کے منافی پیکا آرڈی نینس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے تحت کی گئی کارروائیاں بھی ختم کر دیں۔ عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے حکّام کے اختیارات کے غلط استعمال کی ایک ماہ میں تحقیقات مکمل کر کے اُن کے خلاف لیے گئے ایکشن کی رپورٹ رجسٹرار آفس میں جمع کروانے کا حکم دیا۔ عدالت نے پی بی اے، اے پی این ایس، سی پی این ای، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز، سینئر صحافیوں اور پی ایف یو جے کی پیکا آرڈی نینس کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سُنایا۔ 

عمران خان کے توشہ خانہ سے وصول کیے گئے تحائف کی تفصیل صحافی ابرار خالد کو فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کابینہ ڈویژن نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے آرڈر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور موقف اختیار کیا کہ سربراہانِ مملکت کے درمیان تحائف کا تبادلہ بین الریاستی تعلقات کا عکّاس ہوتا ہے،لہٰذا تحائف کی تفصیل بتانے سے ان ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ دھرنا کیس میں ہائی کورٹ نے کہا کہ’’ کنٹینرز کیوں لگاتے ہیں، اچھی سی اینٹی رائٹ فورس کیوں نہیں بناتے؟ 

انتظامیہ جدید طریقے اپنائے کہ کنٹینرز لگانا حل نہیں۔ ریاست کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف بی آر کی جانب سے مُلک بھر میں ٹیکس تنازعات پر مَنی لانڈرنگ کے مقدمات بنانے کے حوالے سے اہم قانونی اصول طے کرتے ہوئے فیصلہ سُنایا کہ مَنی لانڈرنگ کا مقدمہ بنانے کے لیے جرم کے پیسے سے اثاثے بنانے کا تعلق ثابت کرنا ضروری ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ ایف بی آر کی جانب سے مَنی لانڈرنگ کا فوج داری مقدمہ بنانے کی کارروائی اختیارات سے تجاوز اور غیر قانونی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیول سیلنگ کلب کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے تین ہفتوں میں گرانے اور سابق نیول چیف، ایڈمرل ظفر محمود عبّاسی سمیت دیگر کے خلاف مِس کنڈکٹ اور فوج داری کارروائی کا فیصلہ سُنایا۔ عدالت نے لکھا کہ نیوی سیلنگ کلب کا فرانزک آڈٹ کرکے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگائیں اور غیر قانونی وینچر میں ملوّث افسران سے نقصان پورا کروایا جائے۔ عدالت نے نیوی گالف کورس کو بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سی ڈی اے کو فوری قبضہ لینے کی ہدایت کی اور سیکرٹری دفاع کو تجاوزات قائم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ 

مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تعمیرات بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ملٹری ڈائریکٹوریٹ فامرز کا نیشنل پارک کی 8ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ مسترد کر دیا گیا۔ عدالت نے مونال ریسٹورنٹ کے ساتھ لیز ایگریمنٹ کو بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آر وی ایف ڈائریکٹوریٹ کے پاس کاروباری سرگرمی میں شامل ہونے اور کرایہ لینے کا اختیار نہیں تھا۔ عدالت نے کہا کہ مسلّح افواج کو کسی کاروباری سرگرمی میں حصّہ لینے کی اجازت نہیں، ان کا کام بیرونی جارحیت سے مُلک کا دفاع اور طلب کیے جانے پر سِول اداروں کی معاونت کرنا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 21مئی ،ہفتے کی شام پی ٹی آئی رہنما، شیریں مزاری کی گرفتاری پر اُن کی فوری رہائی اور رات ساڑھے گیارہ بجے سماعت کے وقت عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔آدھے گھنٹے کی سماعت کے بعد رات بارہ بجے وفاقی حکومت کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ شیریں مزاری کیس سے قبل سینئر صحافی ارشد شریف کی حفاظتی ضمانت بھی رات ساڑھے گیارہ بجے منظور ہوئی۔ ایک متنازع تقریر پر عمران خان کے خلاف درج مقدمے سے دہشت گردی کی دفعہ ختم کر کے مقدمہ سیشن کورٹ منتقل کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ’’ عمران خان کی تقریر نامناسب ضرور ہے، مگر دہشت گردی کی دفعہ نہیں بنتی۔‘‘ 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ججز، بیورو کریٹس اور سرکاری ملازمین کے لیے وفاقی دارالحکومت کے چار سیکٹرز میں پلاٹس الاٹ کرنے کی اسکیم غیر آئینی قرار دی۔ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ووٹنگ کے طریقۂ کار میں ترمیم کے خلاف درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو بدنیّتی نہیں کہا جا سکتا۔سابق صدر، آصف علی زرداری کی ایس جی ایس، کوٹیکنا، اے آر وائی گولڈ سمیت چار ریفرنسز میں احتساب عدالت سے بریت کے خلاف نیب اپیلز خارج کرتے ہوئے احتساب عدالت سے بریت کا فیصلہ برقرار رکھا گیا۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کے خلاف نارووال اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر میں اختیارات کے غلط استعمال کا نیب ریفرنس خارج کر دیا گیا۔

صحافی اور بلاگر، مدثر نارو سمیت دیگر لاپتا افراد کے کیسز میں عدالتی حکم پر وزیرِ اعظم شہباز شریف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے اور یقین دہانی کروائی کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھیں گے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جبری گم شدگیاں ناقابلِ برداشت ہیں، شہریوں کو لاپتا کرنا آئین توڑنے کے مترادف ہے۔ اگر معاملہ حل نہیں ہوتا، تو عدالت ایگزیکٹیو کو ذمّے دار ٹھہرائے گی۔ وزیرِ اعظم کو دِکھانا ہوگا کہ جبری گُم شُدگی ریاست کی غیر علانیہ پالیسی نہیں۔ عدالتی حکم پر دو لاپتا افراد حسیب حمزہ اور عثمان شاہ کو بازیاب کروا کے عدالت میں پیش کیا گیا۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہیومن رائٹس کورٹس اور اڈیالہ جیل میں شکایات سیل قائم کرنے کا حکم دیا۔ توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کی نااہلی کا آرڈر معطّل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عدالت نے عمران خان کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا۔ اداروں کے خلاف بیانات اور نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر ایمان مزاری کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگنے پر ہائی کورٹ نے اُن کے خلاف جیگ برانچ کی جانب سے درج کروایا گیا مقدمہ خارج کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے سانحۂ مَری میں 23 ہلاکتوں کا ذمّے دار ریاست اور این ڈی ایم اے کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ واقعے کی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں،قانون پر این ڈی ایم اے نے عمل کروانا تھا۔

سیشن کورٹ، اسلام آباد میں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کے ٹرائل کا آغاز ہوا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے پارلیمنٹ حملہ کیس میں صدر عارف علوی، شاہ محمود قریشی، اسد عُمر، پرویز خٹک، شوکت یوسف زئی، شفقت محمود، جہانگیر ترین، سیف اللہ نیازی اور علیم خان سمیت 82ملزمان کو بَری کیا۔احتساب عدالت نے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زاید اثاثوں کے ریفرنس پر کارروائی ختم کر دی۔ سیشن کورٹ نے نور مقدّم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت کا حکم سنایا۔جب کہ اسلام آباد کے اپارٹمنٹ میں لڑکے اور لڑکی پر تشدّد اور اُن کی غیر اخلاقی وڈیو بنانے کے کیس میں ٹرائل کورٹ نے عثمان مرزا سمیت پانچ مجرموں کو عُمر قید کی سزا سُنائی۔ 

احتساب عدالت نے جنگ، جیو کے ایڈیٹر انچیف، میر شکیل الرحمان کو پراپرٹی کیس میں باعزّت بَری کرتے ہوئے کہا کہ’’ میر شکیل الرحمان کے خلاف اعانتِ جرم کی ذرّہ برابر بھی شہادت نہیں۔ اس کیس میں سزا کا کوئی امکان نہیں، اِس لیے ناکافی مواد کے سبب ریفرنس کا ٹرائل جاری رکھنا لاحاصل مشق ہو گی۔‘‘میر شکیل الرحمان نے 1986ء میں لاہو کے علاقے جوہر ٹائون میں 54کنال پرائیویٹ اراضی خریدی، جسے جواز بنا کر نیب نے طلب کیا اور 12مارچ کو انکوائری کے لیے پیش ہوئے، تو اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 9نومبر 2020ء کو ضمانت منظور کی اور 31جنوری 2022ء کو ٹرائل کورٹ نے بریت کا فیصلہ سُنایا۔