• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچائی کی تلاش میں سرگرداں صحافیوں کو بلاشبہ پوری دنیا میں مختلف النوع مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ حکمت و احتیاط کا دامن چھوڑ دیں یا اس حوالے سے کسی کوتاہی کے مرتکب ہوں تو انہیں جان کے لالےبھی پڑ سکتے ہیں۔ بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں جہاں کے طاقتوروں نے پچھلی پون صدی میں متعدد متشدد ذہنیت کی آبیاری کی ہے۔کہنے کو یہاں صحافت پوری طرح آزاد ہے، بظاہر دِکھتا بھی ایسے ہی ہے لیکن معاملہ ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘ جیسا ہے۔ اگر سچ کہیں تو وہ یہ ہے کہ اس خطۂ ارضی میں ہمہ قسم کی جنونیت کو بے لگام کرتے ہوئے ہمارے نام نہاد نجات دہندہ ، ہماری زندگیاں اجیرن بنا گئے ہیں ، کوئی مانے نہ مانے سچائی یہی ہے کہ آج جس پڑھے لکھے باصلاحیت نوجوان کو باہر جانے کا موقع ملتا ہے وہ فوراً ملک چھوڑ جاتا ہے۔ اگر آج اس ملک کی کوئی بڑی ہستی درویش کے سامنے ہو تو وہ یہ پوچھے کہ صدیوں کی تہذیبی وانسانی بربادی کیا اس لئے کی تھی کہ ہماری نئی نسلیں کہیں اور جا بسیں۔کسی بھی نجات دہندہ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے پر ہمارے کئی روایتی فکر لوگوں کو اعتراض ہوسکتا ہے، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ صرف اتنا سوچ لیں کہ کوئی بھی شخصیت نعوذ باللہ کوئی آسمانی ہستی تو نہیں ہوتی، ہماری طرح انسان ہی ہوتی ہے جس نے اگر اچھائیاں کیں تو اس سے فروگزاشتیں سرزد ہونے کا بھی اتنا ہی احتمال تھا۔ اکیسویں صدی کے باشعور انسان کا کیا کام ہے کہ وہ خوشامدی بن کر، طاقتوروں یا جنونیوں نے جو پٹی پڑھا رکھی ہے اسی کی مطابقت میں قلمکاری کرے یا اسکرین کے سامنے بیٹھا محض اسی کی جگالی کرتا رہے؟ ہماری ہمسائیگی میں لوگ تو اپنے باپو مہاتما گاندھی کی واضح یا گنجلک فکر یا سلجھی و الجھی طرز سیاست کا نہ صرف تنقیدی جائزہ لیتے ہیں بلکہ سو قدم آگے بڑھ کر اس کے لتے لے سکتے ہیں، وہ گاندھی جس کی سحر انگیزشخصیت نے پوری مہذب دنیا کو فلسفہ عدم تشدد کے تحت آج تلک مسحور کررکھا ہے ۔ مارٹن لوتھر کنگ اور آئن اسٹائن سے لے کر باراک حسین اوباما اور نیلسن منڈیلا تک کس کس کا نام لیں جو اس بے مثال سادھوکے نام کی مالا جپتے نہیں تھکتےتھے۔اگر آج کے بھارت میں اسی مہاتما گاندھی کی شخصیت کا پوسٹ مارٹم ہندوستان بھر کے چوکوں اور چوراہوں میں ہو سکتا ہے تو پھر ہمارے خود پسند و مغرور ذہنیت کے لیڈران کے خیالات، مفادات،اغراض یا حرکات کا جائزہ پوری تہذیبی بندشوں کے ساتھ کیونکر نہیں لیا جا سکتا؟جناح اور اقبال تو خیر قومی سطح یا قد کاٹھ کی ہستیاں ہیں یہاں کوئی حافظ صاحب یا مولوی صاحب کے متعلق لب کشائی کر کے دکھائے جان کے لالے پڑ جائیں گے، ایک بائیسویں اسکیل کے باوردی ملازم کے کردار پر تنقیدی نظر ڈالیں، آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔کئی برس قبل کی بات ہے، پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد جو اس وقت نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن کے سیکرٹری تھے اور محترم ڈاکٹر جاوید اقبال کی وساطت سے درویش کا بھی ایوان کارکنان پاکستان میں آنا جانا لگا رہتا تھا، یہاں مجید نظامی صاحب اور انہی کی فکر کے دیگر بہت سے زعماءسے میل ملاقاتوں یا تبادلہ خیالات کے مواقع فراواں تھے۔سردار محمد چوہدری صاحب سے تو دوستی ہو گئی تھی، ان احباب کے اپنے ادارے کیلئے انٹرویوز بھی کئے تو ایک ایسے ہی انٹرویو کے دوران پروفیسر رفیق صاحب سے حریت فکر اور آزادی اظہار پر قدغنوں کے حوالے سے بات کی تو فرمانے لگے یار یہ آپ لبرل سیکولر لوگوں کا پھیلایا ہوا ڈھکوسلا ہے، پاکستان میں آزادی اظہار پر کہاں کوئی روک ٹوک یا بندش ہے؟ میں تو خدا کے متعلق بھی کھل کر شکوہ یا تنقیدی خیالات کا اظہار کرسکتا ہوں، کوئی ایشو نہیں ہے، ریحان صاحب آپ اس طرح کی باتوں کو خواہ مخواہ نہ بڑھایا کریں۔ عرض کی ڈاکٹر صاحب یہاں نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن میں تشریف فرما ہو کر آپ لوگ جس نوع کا چورن بیچ رہے ہیں ، بلاشبہ اس میں آپ کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے، آپ تو سماج کی غالب فکر کے حامل ہیں، خطرہ تو ان لوگوں کو آپ کے روایتی چورن سے ہے ،جس سے پنپنے والی سوچ کے پھیلاؤ کے بعد تو حریت فکرکی اس ملک میں فاتحہ پڑھی جا چکی ہے۔

تازہ ترین