• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بس بہت ہوگئی۔ اب ہمیں معاف کردو۔ ہمیں پھر سے بے وقوف بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ دو ڈھائی سال کے لئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت ہمارے مسائل کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھائے گی۔ جو صاحبان ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے ذریعہ قوم کو معاشی مسائل کے حل کا خواب دکھا رہے ہیں ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ کب، کہاں اور کس نے ان کے ساتھ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے بارے میں صلاح مشورہ کیا؟ اگر اس سوال کا جواب مل جائے تو پھر اس غیر آئینی تجویز پر غور کرنے والوں سے پوچھ گچھ کی جائے کہ وہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور اگر کوئی نام نہیں بتایا جاتا تو پھر یہ شوشہ چھوڑنے والےکے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے۔ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا تصور نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ عوام دشمنی پربھی مبنی ہے۔ یہ تجویز پیش کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے بہت سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ سخت فیصلوں کا مطلب ہے کہ پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ اور منی بجٹ کے ذریعے ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافہ کر دیا جائے۔

دوسرے الفاظ میں یہ سخت فیصلے دراصل آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی شرائط ہیں جن کو فوری طور پر پورا کرنا کسی سیاسی حکومت کے بس میںنہیں ہے لہٰذا کچھ ٹیکنوکریٹس عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کےلئے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں۔ یہ صاحبان سیاستدانوں کی لڑائیوں کا فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز میں سیاسی اختلاف دراصل ذاتی دشمنیوں میں تبدیل ہو چکا ہے لیکن اہل وطن کو ان ٹیکنو کریٹس سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ یہ ہر سیاسی حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں اور پھر اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری سیاستدانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ ان ٹیکنو کریٹس کو عام طور پر امریکہ سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ اکثر امپورٹڈ وزرائے خزانہ آئی ایم ایف یا عالمی بینک سے آتے ہیں اور پھر ان کے پاس واپس چلے جاتے ہیں۔ اگر غلطی سے کوئی سیاستدان وزیر خزانہ بن جائے تو اسے چند دن یا چند ماہ میں فارغ کردیا جاتا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ موجودہ وزیر تجارت سید نوید قمر 2008ء میں صرف سات دن کے لئے وزیر خزانہ بنے اور پھر ان کی جگہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سٹی بینک کے ایک سابق ملازم شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنا دیا۔ 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اسد عمر کو وزیر خزانہ بنایاگیا۔ جب اسد عمر 2019ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے تو ایک شام اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کچھ صحافیوں کو معیشت پر گفتگو کے لئے بلایا۔ اس ملاقات میں باجوہ صاحب بار بار اسد عمر کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کر رہے تھے اور ہمیں کہہ رہے تھے کہ آپ شوکت ترین یا حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنانے کی تجویز دیں۔ میں نے ان دونوں ناموں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسد عمر کو سکون سے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کر لینے دیں لیکن باجوہ صاحب اسد عمر کو ہٹانے کی جلدی میں تھے۔ اگلے دو دن کے اندر اسد عمر فارغ ہوگئے اور حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنادیاگیا۔ یہ صاحب جنرل پرویز مشرف کی دریافت تھے۔ انہیں پہلے سندھ کا وزیر خزانہ بنایا گیا۔

پھر مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر سینیٹر بنا کر اسلام آباد لایاگیا۔ بعد ازاں انہیں پیپلز پارٹی میں شامل کرایا گیا اور جب پیپلز پارٹی شوکت ترین سے مایوس ہوگئی تو پیپلز پارٹی پر حفیظ شیخ کو بطور وزیر خزانہ مسلط کردیا گیا۔ 2018ء میں یہ صاحب مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں پہنچ گئے اور 2019ء میں وزیر خزانہ بن گئے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ پیپلز پارٹی نے بھی شوکت ترین اور حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنایا اور عمران خان نے بھی ان دونوں ٹیکنوکریٹس کی خدمات حاصل کیں۔ شوکت ترین سٹی بینک سے آئے تھے اور حفیظ شیخ کی تاریں عالمی بینک سے ملتی ہیں۔ خان صاحب کے دور میں ا سٹیٹ بینک کا گورنر رضا باقر براہ راست آئی ایم ایف سے امپورٹ کیا گیا۔ عمران خان نے چار وزرائے خزانہ اور چھ سیکریٹری خزانہ بدلے۔

امریکہ سے وزیر خزانہ امپورٹ کرنے کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ سب سے پہلے سیدامجد علی کو 1955ء میں امریکہ سے لاکر وزیر خزانہ بنایاگیا۔ کئی سال کے بعد ان کے بھائی سید بابر علی 1993ء میں پاکستان کے نگران وزیر خزانہ بنے۔ امریکہ سے امپورٹڈ ٹیکنو کریٹس کو وزیر خزانہ بنانے کی روایت کو جنرل ایوب خان نے مزید آگے بڑھایا۔ انہوں نے 1958ء میں عالمی بینک کے ایک ملازم محمد شعیب کو پاکستان کا وزیر خزانہ بنایا۔ موصوف 1966ء تک وزیر خزانہ رہے اور پھر واپس عالمی بینک میں چلے گئے۔ جنرل یحییٰ خان نے وزارت خزانہ نیوی کے ایک سینئر افسر ایس ایم احسن کے حوالے کر دی۔ جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں مارشل لاء لگایا تو ایک سابق بیورو کریٹ غلام اسحاق خان کو وزیر خزانہ بنا دیا۔ آٹھ سال بعد ان کی جگہ عالمی بینک سے امپورٹڈ ڈاکٹر محبوب الحق کو وزیر خزانہ بنادیا۔ سرتاج عزیز بھی جنرل ضیاء الحق کی دریافت تھے جو بعد میں بار بار وزیر خزانہ بنے ۔1993ء میں معین قریشی کو امریکہ سے بلا کر وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ موصوف کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ بھی نہیں تھا۔ معین قریشی پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے تو انہوں نے پاکستان کا شناختی کارڈ بھی بنوا لیا۔ پھر جنرل مشرف کے دور میں شوکت عزیزکو امریکہ سے لا کر پہلے وزیر خزانہ اور پھر وزیراعظم بنا دیاگیا۔ شوکت عزیز کو شارٹ کٹ عزیز بھی کہا جاتا تھا۔ وہ بھی شوکت ترین کی طرح سٹی بینک سے وابستہ تھے اور جب وزارت عظمیٰ سے نکلے تو واپس امریکہ چلے گئے۔ یہ ٹیکنو کریٹس جب بھی کسی سیاسی حکومت یا نگراں حکومت میں شامل ہوئے تو انہوں نے پاکستانی عوام کی بجائے ان اداروں کے مفادات کا زیادہ خیال رکھا جہاں سے ان کو لایا گیا تھا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے کئی گورنر بھی امپورٹڈ تھے۔ رضا باقر کے علاوہ ڈاکٹر محمد یعقوب اور اشرف محمود واتھرآئی ایم ایف سے آئے۔ شمشاد اختر اور ڈاکٹر عشرت حسین عالمی بینک سے اور سید سلیم رضا سٹی بینک سے آئے۔ ان سب ٹیکنوکریٹس نے مل کر ہماری معیشت تباہ کی۔

اس کالم کا دامن بہت تنگ ہے۔ عرض یہ کرنا ہے کہ معیشت کو سدھارنے کے لئے واقعی سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ قوم کو قربانی ضرور دینی چاہئے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے لئے نہیں، آئی ایم ایف سے آزادی کے لئے قربانی دی جانی چاہئے۔

سب سے پہلے حکمراں طبقہ خود قربانی دے۔ اپنے اخراجات کم کریں۔ شہباز شریف اتنی بڑی جہازی سائز کی کابینہ کو چھوٹا کریں پھر ہم سے قربانی مانگیں بصورت دیگر ان میں اور عمران خان میں کیا فرق ہے؟ آخر میں عرض ہے۔

میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

تازہ ترین