سن2022ء اختتام پذیر ہوا، مگر جاتے جاتے یہ تقاضا کرگیا کہ سال بَھر کے ادب کا جائزہ لیا جائے کہ کتاب و جرائد کی اشاعت، ادبی و سماجی سرگرمیوں کی صورتِ حال اور کتابوں سے پاکستانی معاشرے کی دل چسپی کس حد تک رہی۔ اس قسم کے جائزے تحقیق و جستجو میں معاون ثابت ہوتے ہیں، تو ساتھ ہی معاشرے کی ادبی صورتِ حال، رجحانات اور مستقبل کی آہٹوں کو سمجھنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔گرچہ گلوبل وارمنگ کا شاخسانہ پاکستانی قوم کے لیے ایک نیا ہی عذاب بن کر آیا۔مُلک میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں کو متاثر کیا، وہیں ادب اور ادبی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوئیں۔
مگر سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس اندوہ ناک صورتِ حال میں ایک طرف جہاں شاعروں، ادیبوں نے اپنی تحریروں میں اس سانحے کو جگہ دی، یک جہتی کا پیغام دیتے رہے، وہیں دوسری طرف عملی طور پر بھی سیلاب زدگان کی مدد اور ان کی آبادکاری میں پیش پیش نظر آئے۔ جب کہ آرٹس کاؤنسل، کراچی نے بحیثیت ادارہ اپنی ذمّے داری سمجھتے ہوئے ادبی سرگرمیاں معطّل کرکے ان پر خرچ ہونے والی رقوم سیلاب زدگان کی مدد میں لگا دیں اور باقاعدہ ایک کیمپ گود لے لیا۔ یہ ایک مثال ہے کہ ادبی و ثقافتی ادارے بھی ایسی پریشان کُن صورتِ حال میں یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ شاعر، ادیب معاشرے سے لاتعلق طبقہ نہیں۔نیز، مُلک بَھر میں کچھ مشاعرے بھی اسی نیت سے منعقد کروائے گئے کہ اس سے حاصل ہونے والی رقم سیلاب زدگان کے نام کردی جائے۔
سیلاب کی ہنگامی صُورتِ حال سے پہلے اور بعد میں ادبی سرگرمیاں اور کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ حمد و نعت اب ادب کی ایک صنف کے طور پر تسلیم کی جاچُکی ہے اور یہ اب محض مذہبی یا عقیدتی معاملہ نہیں رہا، جب کہ رثائی ادب تو انیس اور دبیر کے دور ہی سے ادب میں شامل ہے۔ ہر سال کئی حمدیہ،نعتیہ اور رثائی مجموعوں کی اشاعت بھی عمل میں آتی ہے اور ان موضوعات پر تنقید و تحقیق کی کتابیں بھی شایع ہوتی ہیں، تو سالِ رفتہ شایع ہونے والے ان مجموعوں اور کتب میں حمد اثاثہ (حمدیہ انتخاب: محبوب ظفر) کُن فیکون (ریاض ندیم نیازی)، توفیق (احمد زوہیب)، وہ نہ ہوتے اگر (شاہد جمیل منہاس)، سعادت نامہ (سلطان فریدی)، بعداز خدا بزرگ توئی (بشریٰ فرخ)، قوسین کی حدیں (ارشاد نیازی)، مدحت کی کہکشاں (نورالحسن نور)، حمد و نعت کی تنقیدی و تحقیقی جہات (انتخابِ مضامین :ڈاکٹر عزیز احسن، مرتب: شاعر علی شاعر)، تصریحاتِ نعت (اکرم کنجاہی)، اُردو نعت میں تعظیمی بیانیہ (طارق ہاشمی)، سیرۃ نبوی اور مستثرقین (مصنف جے: ولہائوزن، عبدالعلیم احراری) اورتہنیتِ ثناء (تنقیدی مضامین: واجد امیر) شامل ہیں۔
اردو میں شاعری کی خاص اہمیت ہے کہ یہ ہمارے اجتماعی مزاج اور تہذیب سے ہم آہنگ ہے۔یہی وجہ ہے کہ سالِ گزشتہ بھی کئی شعری مجموعے منظرِعام پر آئے۔ کچھ کلاسیکی شعرا کا کلام دوبارہ شایع کیا گیا، جب کہ عصرِ حاضر کے شعرا کے شعری مجموعے بھی آتے رہے۔ ان میں منتخب کلامِ سودا (ترتیب و انتخاب:محبوب ظفر)، نشاطِ رفتہ (عندلیب شادانی)، سخنِ افتخار (افتخار عارف۔ کلیات)، کلیاتِ اسلم انصاری، مذہبِ عشق (صابر ظفر۔ کلیات، جلد دوم) املتاس کے پھول، چراغِ شکستہ (فراست رضوی)، مرمّت کون کرتا ہے (ڈاکٹر وحید احمد)، سخن آباد (فیصل عجمی)، رنگِ جیدی (اطہر شاہ خان جیدی)، گریز پا موسموں کی خُوش بُو (عرفان صدّیقی)، آئینے میں جنم لیتا آدمی (مسعود قمر)، کلیاتِ صفدر سلیم سیال (ترتیب و تدوین: ڈاکٹر عمران ظفر، معاون: علی آفتاب سیال)، درد کی آغوش واہے (عزیز احسن)، کچھ عشق کیا(محسن شکیل)، شہر میں گائوں کے پرندے (اسحاق وردک)، املاک (سحر تاب رومانی)، محبت استعارہ ہے(عامر بیگ)، جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے (احمد سلمان)، گُلِ سیمیا (غلام حُسین ساجد)، عمود (ضمیر متین)، رمز (عقیل شاہ)، شاہ دریا (احمد جہاں گیر)، حقیقت سرا (اورنگ زیب)، سب خیال ہے(احسان عباس)، ہم تِری آنکھ سے ہجرت نہیں کرنے والے (شبّیر نازش)، یہاں بگولے بھی آتے ہیں(محمّد سلیم یاور)، دھیان کے دریچے (رخسانہ افضل)، میری شاعری گنگناکر تو دیکھو (شگفتہ شفیق)، آدمی (گُل جان)، ساتھ چلو تو اچھا ہوگا(اشرف کمال)، چند خواب (اقبال طارق)، ستارے دیکھتے رہنا (انجینئر ظفر محی الدّین)، خواب کا خمیازہ(ارشاد نیازی)، سناٹے کی پرچھائیں (عادل رضا منصوری)، دوریاں اور دھڑکنیں (شکیل احمد شکیل)، لڑکیاں بند کتابوں جیسی (بشریٰ فرّخ)، اپنا لہجہ ، اپنا رنگ(منیر صابری کنجاہی)، تاب دان (نوید ملک) شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ان مجموعوں میں غزل، نظم، رباعی اور نثری نظم کے مجموعے شامل ہیں، جو اس بات کے غمّاز ہیں کہ پاکستان میں تمام شعری اصناف میں لکھا جارہا ہے، جب کہ غیر شعری اصناف میں سب سے مقبول صنف افسانہ ہے۔
اس صنف کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہر سال افسانوں کے کئی مجموعے شایع ہوتے ہیں۔گزشتہ سال شایع ہونے والے مجموعوں میں نیلاہٹیں(نیلم احمد بشیر)، گندم کی مہک (محمّد حمید شاہد)، ابلاغِ ادب: باقیاتِ خیام(مضامین، افسانے اور ڈراما اے خیام۔ مرتّب:زاہد رشید)،میٹھے نلکے (نجیبہ عارف)، سعید نقوی کے منتخب افسانے (علی اکبر ناطق)، رنگ ریز (صوفیہ بیدار)، سناٹوں کی گونج (قیصر نذیر خاور)، مونتاژ (فارحہ ارشد)، دیواروں کے راز (خالد فتح محمّد)، آب مِرگ (احسان اللہ لاشاری)،کلیاتِ اسلم انصاری:شعری کلیات(اسلم انصاری)، تتلیوں کا جہاں (سحر نصیر)، خواب ایک حقیقت (احسان فیصل کنجاہی)، ہم مہرباں (اختر شہاب) اورطلوعِ مہر تو ہوگا(سعید پرویز) وغیرہ شامل ہیں۔
اُردو میں دیگر اصنافِ ادب کے ساتھ ناول بھی مروّج ہے،جو ہمارے سماجی مسائل اور زندگی کی حقیقتیں پیش کرتا ہے۔ تاہم، اچھے ناولز کی کم یابی ایک اہم مسئلہ ہے، لیکن چند قابلِ ذکر ناول ایسے ہیں ،جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ صنف مشکل ضرور ہے، مگر اچھا لکھنے والوں نے اس مشکل کو آسان بنالیا ہے۔ 2022ء میں شایع ہونے والے ناولز میں مٹّی آدم کھاتی ہے(محمّد حمید شاہد)، دُکھیارے(انیس اشفاق)، جندر (اختر رضا سلیمی)،وفور(خالد معین)، ہری یُوپیا(حنا جمشید)، اِک چاند دیر و حرم کا(محمّد وسیم شاہد)، اَدھ کُھلے دریچے(قیصر نذیر خاور۔ ناولٹ)، کہروڑ پکا کی نیلماں(محمّد اقبال دیوان)اور کُکڑی (ابو علیحہ) اہم ہیں۔
تراجم آج کے گلوبل ویلیج میں مختلف تہذیبی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو ایک دوسرے سے متعارف کروانے کا اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب ہر سال بڑی تعداد میں تراجم شایع ہوتے ہیں۔ سالِ رفتہ شایع ہونے والے چند اہم تراجم میں اینیمل فارم(جارج آر ویل۔ مترجّم:ڈاکٹر جمیل جالبی، مرتّب: سید کاشف رضا)، دریا کنارے (ہرمن ہسیے۔ عطیہ سید)، ریت سمادھی (گیتا نجلی شری۔ انور سِن رائے)، محبّت کی سو نظمیں(پابلو نرودا۔ رحمان فاروق)، زندہ زبانوں کا ادب (ناصر بغدادی)، جدید ناول کا فن(اورحان یامک۔ ڈاکٹر نعمت الحق)، بندہ بشر(یووال نوح حراری۔ سعید نقوی)، پاسپورٹ (ہیرٹا مولر۔ خالد فتح محمّد)، جینے کے لیے (یو ہوا۔ سجاد بلوچ)، جہنم جاگتا ہے(سلیم اختر ڈھیرہ)اورخون بیچنے والے کی سرگزشت (یو ہوا۔ عنبریں صلاح الدّین) شامل ہیں۔ نیز، عنبریں صلاح الدّین نے منشا یاد کے اردو ناول ’’راہیں‘‘ کا انگریزی ترجمہ’’Cross Roads‘‘کے نام سے کیا، جو ایک خوش آئند بات ہے، کیوں کہ بیرونِ مُلک فِکشن کے بڑے اعزازات حاصل کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اردو فکشن کا ترجمہ انگریزی میں کیا جائے۔
ادب میں تخلیق کے ساتھ تنقید کی بھی خاصی اہمیت ہے۔ یہ تنقید ہی ہے کہ جس کے لیے ٹی ایس ایلیٹ نے کہا کہ ’’تنقید ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیر ہے، جتنی سانس۔‘‘ تنقید اور تخلیق میں بڑا گہرا تعلق ہے اور معیاری تنقید ہی تخلیق کار کو بہتر لکھنے کی تحریک دیتی ہے۔تنقیدی کتب میں ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کی کتاب ’’یہ قصّہ کیا ہے معنی کا‘‘ دل چسپی کا محور بنی رہی۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیّر جدید تنقیدی تھیوریز اور مابعد نو آبادیات کے اردو ادب پر اطلاق و تفہیم میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں اور ان کے کام کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، لہٰذا اس کتاب پر بھی مباحث سال بھر جاری رہے۔ علاوہ ازیں، تنقید و تحقیق اور دیگر موضوعات پر بڑی اہم کتابیں شایع ہوئیں، جن میں کچھ نئے ایڈیشن بھی شامل ہیں، جیسے جدیدیت و مابعد جدیدیت کا دوسرا رُخ(ضمیر علی بدایونی)، مسلم نشاۃ الثانیہ کے عناصرِخمسہ(مسلم شمیم)، تحقیق کی روشنی میں(ڈاکٹر عندلیب شادانی۔ ترتیب و جدید حواشی:خالد علیم)، افہام و تفہیم (اکرم کنجاہی)، جدیدیت اور غزل (معید رشیدی)، اردو ناول اور عصریت(ڈاکٹر کامران عباس کاظمی)، قمر جمیل:ایک عہد ساز شخصیت (مرتّبین: ڈاکٹر فاطمہ حسن، عامر بشیر)، عاشق مست جلالی(محمّد اظہار الحق)،شوکت حُسین شورو: ایک عہد ساز افسانہ نگار (نیاز پنہور)، تنقیدی ہالے (شاعر علی شاعر)، انتظار حُسین اور محمّد عمر میمن(ترتیب:مشتاق احمد)،دفتر کُھلا (ڈاکٹر یونس حسنی، کالمز)، توصیف تبسّم:شخصیت اور فن (ڈاکٹر شیر علی)، اردو فلمی شاعری کا عروضی تجزیہ (آفتاب خان)، ادب، سماج، انسانیت (مرتّب: شہزاد افق)، چودھویں عالمی اُردو کانفرنس ،مقالات و روداد، کلیلہ ودِمنہ (تالیف: بیدیا فیلسوف۔ ڈاکٹر حنا جمشید)، کوچۂ دانش(گُل بانو)،اردو شاعرات اور نسائی شعور:سو برس کا سفر( ڈاکٹر فاطمہ حسن)اورپرائمری سطح پر تدریسِ اردو کے مسائل(حرا شبیر) شامل ہیں۔
سفر ناموں، خود نوشت اور مکاتیب کے ضمن میں شایع ہونے والی اہم کتب میں خطباتِ کربلا اور سفرِ قافلۂ حُسینی ازکوفہ تا دمشق (رئیس عباس زیدی)، عشق آوارگی (ناہید سلطان مرزا)،سری لنکا کی کہانی (اختر اخلاق)، سوادیکا (اختر اخلاق)، زرد موسم کی یادداشت(ارشد رضوی۔ علامتی خود نوشت)،علی منزل: یادیں اور باتیں(شاکر حُسین شاکر)، دامِ خیال(طارق محمود)، مشاہیر کے خطوط بنام عطا الحق قاسمی، قاصد کے آتے آتے(امجد اسلام امجد۔ مجموعہ مکاتیب)، صرف تمہارا(انور مسعود)اور امریکامیں دائمی دھرنا (جمال محسن، فکاہیہ کالم) شامل ہیں۔
سالِ گزشتہ ایک خوش آئند بات یہ ہوئی کہ’’آس پبلی کیشنز‘‘ کے نام سے ایک نیا ادارہ سامنے آیا، جس نے ادبی کتب میں بچّوں کے ادب پر مشتمل کتابوں کی اشاعت کو خصوصی اہمیت دی،جب کہ اکادمی ادبیات نے پاکستان کے75ویںسالِ آزادی کو منفرد انداز میں منایا اور پاکستانی افسانوں، ناولز، بچّوں کے ادب، بیرونِ مُلک مقیم پاکستانیوں کے ادب اور نثری نظم کے وقیع تحقیقی انتخاب شایع کیے ۔ نیز، ’’زندہ کتابوں‘‘ کےزیرِ عنوان بھی ہر سال کی طرح کئی کتب شایع ہوئیں۔جرائد، ادب کی تازہ ترین صورتِ حال سمجھنے میں بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے قریباً تمام چھوٹے، بڑے شہروں سے ادبی پرچے شایع ہورہے ہیں۔
ان شماروں میں کچھ باقاعدگی سے اور کچھ تعطّل سے شائع ہوئے، جب کہ کچھ نے خاص نمبرز بھی شایع کیے۔ ’’سائبان‘‘ کے نام سے حُسین مجروح کی ادارت میں پرچے کا اجرا ہوا، جب کہ ’’ادبیت‘‘ کا ازسرنو اجرا ہوا۔ دیگر شماروں میں دستک (معاصر ناول نمبر)، قومی زبان (اقبال نمبر)، وَرثہ (گوپی چند نارنگ نمبر)، رنگِ ادب (غلام محمّد قاصر نمبر)، رنگِ ادب (اکرم کنجاہی نمبر)، ماہِ نو (جون ایلیا نمبر)، لوحِ ادب(جشنِ سیمیں نمبر)، ارقم (کشمیر نمبر)،نعت رنگ، جہانِ حمد، رثائی ادب، آثارِ سیرت، مکالمہ، بنیاد، آج الحمد، تسطیر، بنیاد، کولاژ، بیاض، ارتعاش، ادراک، ارژنگ (لاہور) آثار، غنیمت، ادبیات، اردو، عکّاس، ادبِ لطیف، فنون، اسپوتنک، اجرا، نقاط، تلازمہ، نزول، تحقیق، معیار، راوی، قرطاس، الزبیر، عمارت کار، صحیفہ، بیلاگ، الماس، قلم قبیلہ، انگارے، فکر و نظر، سیماب، زبان و ادب، نمود، تخلیق، چہار سو، الحمرا، آہنگ، نیرنگ خیال، زیست، عالمی رنگِ ادب، دُنیائے ادب، ارتقا، کاغذی پیرہن، تحقیقی زاویے، عبارت، بنیاد، الایّام، سنگت، کہانی گھر، پاکستان شناسی، پیام اردو، امتزاج، ارتفاع، ثالث، سوچ، جمالیات، تفہیم، الاقربا، آہنگ، اخبار اردو، ابجد، نوارد، بیاض، تہذیب، انہماک، دھنک، اردو کالم، تعبیر، پیامِ آشنا، پیام رومی، دریافت، ارقم، ادب و کتب خانہ، فن زاداور انشا وغیرہ شامل ہیں۔
2022ء میں ادب کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ادبی سرگرمیوں میں اضافہ اور ان کا بڑے مراکز سے دوسرے شہروں تک پھیلائو رہا۔ لہٰذا پورے سال، کانفرنسز، سیمینارز، جشن، بک فیئرز، ادبی فیسٹیولز، ورک شاپس، مشاعرے اور نشستیں منعقد ہوتی رہیں۔جن میں سب سے زیادہ فعال آرٹس کاؤنسل کراچی، اکادمی ادیبات، اسلام آباد اور حلقہ اربابِ ذوق رہے۔ سال کی سب سے بڑی تقریب آرٹس کاؤنسل، کراچی کی چار روزہ ’’عالمی اُردو کانفرنس‘‘ تھی۔ یاد رہے، اس برس اردو کانفرنس نے تسلسل اور نہایت کام یابی کے ساتھ اپنے پندرہ سال مکمل کرلیے۔
اکادمی ادبیات، اسلام آباد نے پہلی بار بچّوں کے ادب پر دو روزہ کانفرنس کرواکے تاریخ رقم کی۔علاوہ ازیں،مُلک بَھر میں دیال سنگھ لٹریری فیسٹیول، فیصل آباد لٹریری فیسٹیول،کراچی لٹریری فیسٹیول،ایک روزہ وفاقی اُردو یونی وَرسٹی، کراچی، شعبۂ اردو، ایک روزہ عالمی سیمینار جناح یونی وَرسٹی برائے خواتین، راول پنڈی شعبۂ اردو، دو روزہ لٹریچر فیسٹیول، ساہی وال ادبی و ثقافتی کانفرنس، پاکستان اردو فائونڈیشن دو روزہ لٹریچر فیسٹیول، سترواں کتاب میلہ، ایکسپو سینٹر، کراچی، اردو نعت بورڈ کانفرنس، انجمن ترقیِ اُردو کانفرنس، پشاور کتاب میلہ، ادبی میلہ، کراچی، فیض ادبی میلہ، اسلامیہ یونی وَرسٹی بہاول پور شعبۂ اردو، ایک روزہ چاک ایونٹ، اُردو افسانہ کانفرنس، ادب فیسٹیول، ایک روزہ اقبال سیمینار (مجلسِ فکر و دانش)اور بین الاقوامی کانفرنس: ترجمہ اور بین الثقافتی مطالعات، بہاء الدین زکریا یونی وَرسٹی، منعقد کیے گئے، جب کہ جامعات کی ادبی سرگرمیوں میں شمولیت اطمینان کا باعث رہی۔
سالِ رفتہ ادب کی دنیا کے جو اہم نام ہم سے بچھڑگئے اُن میں سمیع آہوجا، اختر شمار، شمیم بازل، امداد حُسینی، ظفر اقبال شاہین، قاسم گورایہ، ارشاد شاکر اعوان، کمیل کاظمی، ادیب جون پوری، ابو الحسن نغمی، احمدعلی برقی اعظمی، محمّد وسیم انور، میم شین عالم، سائرہ ہاشمی، سردار علی، نصیر الدّین نصیر بدایونی، ڈاکٹر ایوب صابر، مسعود خان ارحم، تنویر ظہور، عبداللہ نظامی، اشرف یوسفی، رشید تبسّم، قیوم ناصر، شمشاد احمد، علی میمن، رشید اثر، عبدالعزیز چشتی، جمیل احمد ناز، حنیف نازش قادری، انوار عزیز عزمی، علی مطہر اشعر، قائم نقوی اور عین شین،بشریٰ رحمان، شیما مجید، قیصر نذیر خاور،عفرہ بخاری کے نام شامل ہیں۔