معصومیت، بےفکری،جوش و جذبہ،اُمید وجنون…یہ وہ الفاظ ہیں، جو عموماً بچپن اور نوجوانی کے ساتھ منسوب کیے جاتے ہیں، مگر اپنے اِردگرد نظر دوڑائی جائے، تو پاکستانی نسلِ نو کی ایک بڑی تعداد کا بچپن اور جوانیاں تلاشِ معاش یاروزی روٹی کی تگ و دو ہی میں گزر جاتے ہیں۔ گویا جو عُمر علم و ہنر سیکھنے، سنہرے مستقبل کے خواب بُننے کی ہے، اُس عُمر میں وہ ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جس کے شب و روز عموماً فکرِ معاش ہی میں گزرجاتے ہیں ، جب کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے، جس کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
جی ہاں، وہی نوجوان، جو مُلک کی تعمیر و ترقّی میں ایندھن کی سی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن اگر مشین ہی زنگ آلود یامشین چلانے والاہی اناڑی ہو تو ایندھن بھی بھلا کس کام کا۔ تو یہی کچھ حال وطنِ عزیز کی نسلِ نو کا بھی ہے۔ یہاں سال تو بدلتے جا رہے ہیں، لیکن نوجوانوں کے حالات کسی طور نہیں بدل رہے، بلکہ شاید ہر گزرتے سال کچھ مزید ابتر و بد تر ہی ہو رہے ہیں۔ ہرنئےبرس کی آمد پربھلائی وبہتری کی کچھ اُمیدیں وابستہ کی جاتی ہیں، لیکن سال کے اختتام پر اعداد و شمار کچھ اور ہی کہانی سُنا رہے ہوتے ہیں۔
قصّہ مختصر،سال 2022ء بھی بالخصوص نسلِ نو کے حوالے سے کچھ زیادہ اچھا ثابت نہیں ہوا۔ اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ ’’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ‘‘کے مُلک بَھر سے (اسلام آباد، سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختون خوا، گلگت بلتستان) اکٹھےکیے گئے اعدادو شمار کے مطابق سالِ گزشتہ اکتوبر تک خود کُشی کے کم و بیش 1,110 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 77 بچّے یا ٹین ایجرز شامل تھے،جب کہ 15 بچّوں/ ٹین ایجرز نے خود کُشی کی کوشش کی۔ یاد رہے، 30 سے زائد کیسز کی وجہ غربت، مالی مسائل اور بے روزگاری تھی۔
اسی طرح اکتوبر میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے ’’ورلڈ اکنامک آؤٹ لُک رپورٹ‘‘ جاری کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا کہ رواں مالی سال(2023ء-2022ء) میں ترقّی کی شرح گزشتہ برس کے مقابلے میں کم رہنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اور منہگائی میں اضافہ بھی متوقع ہے ۔آئی ایم ایف کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں بے روزگاری، منہگائی میں اضافے اور اقتصادی ترقّی میں کمی کا خدشہ ہے،جب کہ بے روزگاری کی شرح6.4 فی صد رہنے کا امکان ہے۔پھر’’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس‘‘ کی جاری کردہ رپورٹ سےانکشاف ہوا کہ’’62 فی صد پاکستانی نوجوان مُلک چھوڑنا چاہتے ہیں۔‘‘
سروےکے مطابق مُلک چھوڑ کر جانے کی خواہش 15 سے 24 برس کی عُمر کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ ہے، جس کی بڑی وجہ مُلک کی معاشی و معاشرتی صورتِ حال ہے۔نیز،صنفی امتیاز اور عدم تحفظ بھی مُلک چھوڑنے کی خواہش کی اہم وجوہ ہیں، جب کہ یہ تصوّر کہ بیرونِ مُلک جانے سےعزّت و وقار میں اضافہ ہوگا، ہر عُمر ہی کے لوگوں میں بہت واضح ہے۔سندھ اور بلوچستان کے زیادہ تر نوجوان ’’عزّت دار‘‘کہلوانےکے لیے مُلک چھوڑنا چاہتے ہیں، جب کہ خیبر پختون خوا کے بیش ترنوجوانوں نے مُلک چھوڑنے کی خواہش کی بڑی وجہ عدم مساوات بتائی۔
گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے پاس تو کئی وجوہ ہیں، جن میں سرِ فہرست اعلیٰ تعلیم کا حصول ہے۔ اسی طرح ملٹی نیشنل تحقیقاتی ادارے،اِپسوس، پاکستان کی سروے رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کی قریباً نصف فی صد آبادی کا اہم ترین مسئلہ منہگائی ہے۔ ان کےگزشتہ سروے میں40 فی صد لوگوں نے منہگائی کو اہم مسئلہ قرار دیا تھا، لیکن اب یہ تعداد 49 فی صد تک جاپہنچی ہے۔اور اسی سروے رپورٹ کے مطابق بےروزگاری سے پریشان اور اس پر تشویش کا اظہا ر کرنے والے پاکستانی نوجوانوں کی شرح11 سے 18فی صد تک پہنچ گئی ہے۔
نیز، بیورو آف امیگریشن اینڈ اووَرسیز ایمپلائمنٹ (Bureau of Emigration and Overseas Employment))کے مطابق 2021ء کے مقابلے میں 2022ء میں روزگار کے حصول کے لیے بیرونِ مُلک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں قریباً تین گنا اضافہ ہوا اور سالِ گزشتہ 7 لاکھ 65 ہزار نوجوان حصولِ روزگار کے لیے مُلک چھوڑ گئے۔ یاد رہے، 2019ء میں 6 لاکھ 25 ہزار، 2020 ءمیں 2 لاکھ 25 ہزار اور 2021 ء میں 2لاکھ 88ہز ار نوجوانوں نے بیرونِ مُلک ملازمت کو ترجیح دی تھی، مگرسالِ رفتہ 92 ہزار سے زائد گریجویٹس، ساڑھے 3 لاکھ تربیت یافتہ اور 3 لاکھ سے زائد غیرتربیت یافتہ نوجوان بیرونِ مُلک سدھار گئے۔
بیرونِ مُلک جانے والوں میں5 ہز ار 534 انجینئرز، 18 ہزار ایسوسی ایٹ الیکٹریکل انجینئرز، ڈھائی ہزار ڈاکٹرز، 2 ہزار کمپیوٹر ماہرین، ساڑھے6 ہز ار سے زائد اکائونٹینٹس،2 ہزار600 زرعی ماہرین،13ہزار سپروائزر، 16ہزار مینیجرز، 900 سے زائداساتذہ، 12ہزار کمپیوٹر آپریٹرز، 1600 سے زائد نرسز،21 ہزار 517 ٹیکنیشنز، 10 ہزار 372 آپریٹرز، ساڑھے8 ہزار پینٹرز، 783 آرٹسٹس، 500سے زائد ڈیزائنرز سمیت 2 لاکھ 13 ہزار ڈرائیورز اور 3 لاکھ 28 ہزار مزدور بھی شامل ہیں۔
اِن ہی اعداد وشمار کے مطابق 7 لاکھ سے زائد نوجوان خلیجی ممالک، جب کہ 20ہزار سے زائد پاکستانی یورپی اور ایشیائی ممالک کی طرف گئے۔ ان نوجوانوں میں سے 4لاکھ 70 ہزار سعودی عرب،1 لاکھ 19 ہزار متّحدہ عرب امارات،77 ہزار عمان، 51 ہزار634 قطر، جب کہ2 ہزار نوجوان کویت کی طرف گئے۔جون 2022ء میں جاری ہونے والی ایک اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی قریباً ساڑھے بائیس کروڑ ہے،جس میں سے 8 کروڑ 28 لاکھ افراد شہری ،14 کروڑ 19 لاکھ دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔جب کہ بےروزگاری کی شرح 6.3 فی صد ہے،یعنی 45 لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔
گزشتہ برس وفاق سمیت چاروں صوبوں میں نوجوانوں کے لیے کچھ خاص اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ نہ کسی بڑی اسکیم کا آغاز ہوااور نہ ہی بجٹ میں اسکلز یا ٹریننگ پروگرامز کے لیے کوئی معقول حصّہ رکھا گیا۔ہاں البتہ، وفاقی بجٹ2023ء- 2022ء میں’’یوتھ ایمپلائمنٹ پالیسی‘‘ کے تحت 20 لاکھ نوجوانوں کی روزگار کے مواقع تک رسائی یقینی بنائے جانے کا عندیہ دیا گیااورکاروبار کے فروغ کے لیے نوجوانوں کو 5 لاکھ روپے تک بلاسود اور ڈھائی کروڑ روپے تک آسان شرائط پر قرضہ دیئے جانے کی اسکیم کے اجراکا اعلان ہوا۔
سندھ کے بجٹ میں پوزیشن ہولڈرز طلبہ کی اسکالرشپس کے لیے ایک ارب 20 کروڑ روپے مختص کیےگئے۔ نیز، محکمۂ تعلیم، سندھ میں 52ہزار بھرتیوں کا عمل مکمل ہوا (کچھ مسائل کی وجہ سے آفر لیٹرز روکے گئے، جو کاغذات کی جانچ پڑتال مکمل ہونے پر جاری کر دیئےجائیں گے) ۔علاوہ ازیں، شہرِ قائد میں سالِ رفتہ اسٹریٹ کرائمز کی 82 ہزار 713 وارداتیں ہوئیں،جن میں 100 سے زائد شہری (جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی) جاں بحق اور 419 زخمی ہوئے۔
صوبائی حکومت، خیبر پختون خوا نے نوجوانوں کو 25 ارب روپے سے زائد کے قرضہ جات فراہم کرنےکا اعلان کیا ۔نیز، کے پی کے اسمبلی نے طویل عرصے سے تاخیر کا شکار ’’صوبائی چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر (ترمیمی)بِل 2022 ء‘‘منظور کیا،جس میں بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی، پورنوگرافی، اعضا کی تجارت اور اسمگلنگ جیسے جرائم کی سزاؤں کو مزید سخت کردیاگیا ہے۔مارچ 2022 ءمیں ایوان میں پیش کیا جانے والا یہ بِل متعدّد فورمز پر زیر بحث رہا۔ترمیمی سیکشن میں کہا گیا ہے کہ جو بھی چائلڈ پورنوگرافی کا جرم کرے گا اُسے سخت قید کی سزا دی جائے گی،جو 14 سال سے کم نہیں ہوگی اور یہ سزا20 سال تک بڑھائی بھی جا سکتی ہے۔نیز،کم از کم جرمانہ 20 لاکھ روپےہوگا،جو70 لاکھ روپے تک بڑھایا جا سکےگا۔ترمیم شدہ قانون میں بچّوں کی اسمگلنگ میں ملوّث مجرم کے لیے عُمر قید کی سزا مقررکی گئی ہے،ایکٹ کے مطابق ’’جو شخص بھی پاکستان میں بچّوں کی اسمگلنگ کے معاملےمیں ملوّث ہوگا، اُسے عُمر قید یاکم از کم 14 سے 25 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔‘‘
کچھ اچھی خبروں کی بات کریں، توچار پاکستانی نوجوان فوربس’’30 انڈر 30‘‘ایشیا، 2022ء کی فہرست میں جگہ بنانے میں کام یاب ہوئے۔ بزنس میگزین میں زین احمد، درّعزیز آمنہ، محمّد سعد اور شوانہ شاہ ہیں، جنہیں ای کامرس، انٹرپرائز ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں شراکت کے سبب منتخب کیا گیا۔ فوربس کے مطابق سال 2022ء کی فہرست میں شامل ہونے کے لیے 4,000 سے زائد امیدواروں نے درخواستیں جمع کروائیں،جن میں سے 300 نوجوان گیم چینجرز کو متعدّد شعبوں میں پہچانا گیا۔زین احمد آرٹ، اسٹائل، فوڈز اینڈ ڈرنکس کے زمرے میں، محمّد سعد انڈسٹری اینڈمینوفیکچرنگ،درّ عزیز آمنہ میڈیا، مارکیٹنگ اور اشتہارات، جب کہ شوانہ شاہ سماجی اثرات کے شعبے میں نمایاں رہیں۔
نیز، ستمبر میں پاکستانی وزیرِ خارجہ، بلاول بھٹّو زرداری کی زیرِ صدارت نوجوان وزرائے خارجہ کانفرنس میں دنیا کے 11نوجوان وزرائے خارجہ شریک ہوئےاور نیویارک میں اقلیتوں کے حقوق کے ڈیکلیئریشن پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’’بھارت میں اقلیتوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے اور دنیا خاموش ہے، مَیں عالمی برادری سے سوال کرتا ہوں کہ بھارت میں اقلیتوں کے قتلِ عام پر وہ کیا کر رہی ہے؟‘‘اس موقعے پر غیر ملکی وزرائے خارجہ نےبلاول بھٹّوکی تخلیقی سفارت کاری کی پُرزور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’نوجوان نسل عالمی مسائل کے حل کے لیے روایتی ڈپلومیسی کے برعکس سفارت کاری اور ڈائیلاگز پر زیادہ یقین رکھتی ہے، لہٰذا ہم پاکستانی وزیرِ خارجہ کی ’’عالمی قائدین کے رابطے اور ڈائیلاگ‘‘ کی تجویز کا نہ صرف خیر مقدم کرتے ہیں، بلکہ آئندہ برسوں میں بھی ایسی کانفرنسز اور رابطوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘
برطانوی تعلیمی ادارے، آکسفورڈ یونی وَرسٹی کے انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کی تیار کردہ آئی لیبر انڈیکس رپورٹ کے مطابق ’’پاکستان آئی ٹی فری لانسرز کے حوالے سے دنیا کا چوتھا بڑا مُلک ہے۔پاکستانی آئی ٹی فرِی لانسرز غیر ملکی کلائنٹس کو سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ، کری ایٹیو اینڈ ملٹی میڈیا،اسکرپٹ رائیٹنگ اور ترجمے کی خدمات پیش کرتے ہیں۔‘‘سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت لگ بھگ 10 لاکھ آئی ٹی فری لانسرز کام کر رہےہیں، جنہوں نےجولائی 2021ءسے 2022ء تک20 کروڑ امریکی ڈالرز سے زاید زرِ مبادلہ کمایا۔ نیز، نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کے مطابق 62 فی صد پاکستانی آئی ٹی فرِی لانسرزشمالی امریکا کی کمپنیز کے لیے کام کررہے ہیں، جب کہ کئی ایک یورپی منڈیوں سے بھی کاروبار حاصل کر رہے ہیں۔
اسی طرح چالیس پاکستانی طلبہ نے ناسا کے تحت منعقدہ ’’سٹیزن سائنس انگیجمنٹ پروگرام‘‘ میں 14 ممکنہ سیارچے ،جو مریخ اور مشتری کے درمیان واقع ایسٹی رائڈ بیلٹ میں مسلسل گردش کر رہے ہیں دریافت کر کے مُلک کا نام روشن کردیا۔ یاد رہے، ناسا ہر برس ’’انٹر نیشنل ایسٹرانامیکل سرچ کولیبریشن ‘‘ کے تعاون سے عام شہریوں کی فلکیاتی تحقیق میں شمولیت کے لیے یہ ایونٹ منعقد کرواتا ہےاور اکتوبر 2022ء میں پہلی بار 40 پاکستانی طلبہ نے اس پروگرام میں حصّہ لیا۔
بچّوں کےضمن میں بات کریں، تو ستمبر 2022ء میں انکشاف ہوا کہ ’’گلوبل چلڈرن رائٹس انڈیکس ‘‘میں پاکستان 148ویں نمبر پرہے ۔ وفاقی محتسب نے بچّوں کے استحصال سے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں بتایا کہ’’گلوبل چلڈرن رائٹس انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن مزید خراب ہوئی ہےاور بچّوں کے استحصال کے حوالے سےاسلام آباد تیسرا بڑا شہر بن گیاہے، اسلام آباد پولیس کے پاس اسٹریٹ چلڈرن کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔ نیز، شہر کی پولیس بھی گداگروںکی سرپرستی کررہی ہے۔‘‘
یاد رہے، مُلک میں 28فی صد اسٹریٹ چلڈرن جسمانی تشدّد اور 4 فی صد جنسی تشدّد کا شکار ہورہے ہیں۔ جب کہ سندھ میں گزشتہ برس بھی خواتین وبچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں کمی نہ آسکی کہ ماہِ اکتوبر میں خواتین اور بچّوں سے زیادتی کے238 سے زائد کیسز اور 55سے زائد اجتماعی زیادتی کے کیسزرپورٹ ہوئے۔ صرف کراچی میں زیادتی کے200 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، جب کہ اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعات کی تعداد 48 سے زائد ہے۔ علاوہ ازیں، سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او)اور سینٹر فار ریسرچ ڈیولپمنٹ اینڈ کمیونی کیشن(سی آر ڈی سی) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس صرف ماہِ جولائی کے دوران پاکستان بھر میں کم از کم 108 بچّوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
جن میں سے 42 کا تعلق پنجاب سے،32 کا تعلق خیبر پختون خوا سے،21 کا تعلق سندھ سے ،10 کا تعلق اسلام آباد سےاور 3 کابلوچستان سےتھا۔ جسمانی تشدّدکے نتیجے میں کم از کم 22 بچّوں کو قتل کیا گیا، جن میں سے 10کا تعلق پنجاب، پانچ کا سندھ اورتین کا خیبر پختون خواسے تھا، جب کہ بلوچستان اور اسلام آباد سےدو، دوکیسز رپورٹ ہوئے۔ پنجاب اور سندھ میں کم عُمر بچّوں کی شادیوں کےتین، تین کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ پنجاب میں چائلڈ لیبر کے 8 اور خیبرپختون خوا میں ایک کیس درج ہوا۔
یاد رہے، یہ اعداد و شمار صرف ایک ماہ کےرپورٹڈکیسز کے ہیں، اب ذرا سوچیں کہ سال ختم ہوچُکا ہے، تو اب تک اس نوعیت کےکتنے واقعات پیش آچُکے ہوں گے۔نیز، سالِ گزشتہ پاکستان آنے والی یونیسیف کی چائلڈ پروٹیکشن کی چیف، ڈینیلا لوسیانی نےچائلڈ لیبر اور بچّوں پر تشدّد کے حوالے سے ایک سروے رپورٹ کے نتائج بتاتے ہوئے کہا کہ’’پاکستان میں 12.5 ملین سے زاید بچّے(جو بچوں کی آبادی کا قریباً 16 فی صدہے) چائلڈ لیبرسے وابستہ ہیں،جن میں سے 13سے 14 فی صد بچّوں کی عُمریں5 سے 17 سال کے درمیان ہیںاور ان میں سے81 فی صد پنجاب میں،80فی صدسندھ میں اور 82 فی صد کے پی میں کسی نہ کسی قسم کے تشدّد کا شکار ہوتے ہیں۔‘‘
دوسری جانب، پاکستان میں گزشتہ سال مون سون میں شدید بارشوں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے متاثر ہونے والوں میں ایک کروڑ 60 لاکھ کے لگ بھگ بچّے بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے یونیسیف نے خبردار کیا کہ ’’پاکستان میں حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے تیس لاکھ سے زاید بچّے پانی سے پیدا ہونے والے امراض بیماریوں، ڈوبنے اور غذائی قلّت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہیں اور انہیں فوری انسانی امداد کی اشدضرورت ہے۔‘‘