• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

44سال قبل 4 اپریل 1979ءکو ذوالفقار علی بھٹو کو ایک غیر منصفانہ مقدمے کے نتیجے میں پھانسی دے دی گئی۔ آج اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان کے مقبول ترین رہنما کا ایک فوجی آمر کے حکم پر عدالتی قتل کیا گیا۔ بھٹو نے آخر تک جنرل ضیا الحق کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا۔ اس نے اس جرم کیلئے رحم کی بھیک مانگنے سے انکار کر دیا جو اس نے کبھی نہیں کیا۔ اپنی سزائے موت کے بارے میں سننے کے بعد، اس نے کہا،’’میں موت سے نہیں ڈرتا ہوں۔ مسلمان کی تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کا سامنا کر سکتا ہوں اور اسے بتا سکتا ہوں کہ میں نے اس کی اسلامی ریاست پاکستان کو راکھ سے ایک باعزت قوم میں دوبارہ تعمیر کیا۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی دو دن بعد سالگرہ ہے، میں سوچ رہا ہوں کہ بھٹو شہید زندہ ہوتے توآج پاکستان دنیا کا نقشے پر کیسا ہوتا، ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو یہ ملک دولخت ہوچکا تھا، معیشت تباہ تھی، بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے، پھر ایسا کیا ہوا کہ 43 سال پہلے عدالتی قتل کا نشانہ بن جانے کے باوجود آج بھی بھٹو زندہ ہے؟ آج بھی بھٹو شہید کے نام پر پی پی پی کو ووٹ پڑ رہا ہے؟ ایسا کیا کر گیا ہے شہید بھٹو کہ اس کے بعد آنے والی تیسری نسل بھی جیےبھٹو کا نعرہ لگا رہی ہے؟ اپنے دور اقتدار کے اوائل میں ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ ان کی زرعی اصلاحات پاکستان کے عام لوگوں کی زندگیوں کو ان کی واضح طور پر سوشلسٹ اور پاپولسٹ حکومت کے زیر غور کسی بھی دوسرے قدم سے زیادہ متاثر کریں گی۔ عام لوگوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر قابل احترام، بھٹو، ان کے نزدیک، ایک عالمی سیاستدان تھے جنہوں نے پاکستان کو اعتماد اور عزت بخشی، ایک ایسا شخص جس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جب وہ بولیں، دوسرے سیاستدان سنیں۔ بھٹو کے دور میں کی جانے والی اصلاحات کا سب سے زیادہ فائدہ تو اس طبقے کو ہوا جس کی پاکستان میں کوئی شنوائی نہ تھی، بھٹو شہید کے دور میں کارخانوں میں جہاں مزدوروں کو حقوق ملے تو بے زمین ہاریوں کو بھی زمین مل گئی، وہ ایک ایسے سیاست دان تھے جنہوں نے دولت مند جاگیرداروں اور بیوروکریٹس کی نرم مزاجی سے کنارہ کشی اختیار کر لی ،جنہوں نے پہلے فوجی آمریتوں کے درمیان پاکستان پر حکومت کی تھی۔ بھٹو نے مغربی انداز میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے عوام کو اقتدار دلایا۔ اس نے خوراک، لباس اور رہائش کا وعدہ کیا۔ وہ بازاروں اور دور دراز کے علاقوں میں انتخابی مہم چلاتے تھے جہاں کبھی ان سے پہلے ان کے حریف جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، بھٹو ان کچی بستیوں اور جھونپڑیوں میں بھی کھڑے نظر آتے۔ بھٹو کے ناقدین ان پر ہر طرح کا الزام لگاتے آئے ہیں لیکن ان پر ایک دھیلے کی کرپشن کا بھی کوئی الزام نہ لگا سکا۔ وہ وزیر اعظم بننے سے قبل بھی مختلف عہدوں پر رہے اور جس عہدے کو سنبھالا اسے شاندار بنا گئے۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے اس دور کی جھلکیوں میں چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا آغاز اور سوویت بلاک کے ممالک کو سرمایہ کاری اور تجارت پر راغب کرنا بھی ان کی کامیابیوں میں شامل ہے۔ بھٹو کا سوشلسٹ نظریے کی طرف ذاتی جھکاؤ اور ایک عوام نواز سیاست دان کے طور پر دیکھے جانے کی ان کی خواہش نے انہیں پاکستان اور چین کے تعلقات کا معمار بننے میں مدد دی جو آج تک فروغ پا رہے ہیں، انہوں نے پاکستان کو غیروابستہ تحریک کا ایک نمایاں رکن بھی بنایا، عرب قوم پرست اور سوشلسٹ پارٹیوں سے قریبی سفارتی تعلقات استوارکئے اور لاطینی امریکہ، ایشیا اور افریقہ میں قومی آزادی اور ترقی پسند تبدیلی کی تحریکوں کی حمایت کی۔ سرد جنگ کے دور کی انتہائی پولرائزڈ دنیا میں نئے نئے معرض وجود میں آنے والے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے یہ قابل ذکر کامیابیاں تھیں، بھٹو نے سیکھنے اور ثقافت کے ادارے بنائے، اسکولوں کے نیٹ ورک میں سرمایہ کاری کی جسے کچی آبادیوں اور چھوٹے دیہات تک لے جایا گیا، صحت کی بنیادی سہو لتیں دیہی علاقوں میں فراہم کیں، بے زمین کسانوں میں زمین تقسیم کی، ہاؤسنگ اور انفراسٹرکچر کی اسکیمیں شروع کیں اور صنعتوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کیا۔ انہوں نے پاکستان کی غریب اور پسماندہ آبادی کو وقار اور فخر کا احساس دلایا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ انکے خلاف ہو گئی اور انکی آنیوالی نسلیںتک انکی سخت مخالف ہیں۔ بھٹو آج زندہ ہوتے تو افغانستان کا مسئلہ حل ہوچکا ہوتا، پاکستان کی معیشت جس زبوں حالی کا شکار ہے، اس سے اگر ہمیں کوئی نکال سکتا ہے تو وہ و ہی شخص ہوگا ،جس کے پاس بھٹو کا ویژن ہو ۔

تازہ ترین