قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے غذائی تحفظ میں وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ آٹے اور گندم کا وفاقی حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں۔
چیئرمین راؤ محمد اجمل نے اپنی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے غذائی تحفظ کے اجلاس میں کہا ہے کہ فی الحال 30 نومبر والے اجلاس کے منٹس کی منظوری نہیں دے رہے، سرکاری افسران کا شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کا رویہ درست نہیں، افسران کو کسی شخص کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی، ہماری سفارشات پر عمل درآمد ہونا چاہیے تھا۔
کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ افسران کی معافی کو طے شدہ طریقہ کار کے مطابق دیکھا جائے گا، افسران نے معافی مانگ لی، درست کیا، مگر اجلاس میں ان کا رویہ قابلِ قبول نہ تھا، سیکریٹری غذائی تحفظ! آپ کو جو ہدایت کی گئی ہے اس پر عمل درآمد کریں۔
سیکریٹری غذائی تحفظ نے اجلاس کو بتایا کہ حکومتی سطح پر زیادہ گندم روس سے خریدی گئی، وفاقی حکومت 11 محکموں اور علاقوں کے لیے گندم کا کوٹہ مقرر کرتی ہے، سیلاب کے بعد صوبوں کی گندم کی ضرورت بڑھ گئی، اس سال پنجاب کو 10 لاکھ ٹن اضافی درآمدی گندم فراہم کریں گے، پاکستان کی گندم کی مجموعی ضرورت 3 کروڑ ٹن ہے۔
تحریکِ انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی سردار ریاض مزاری نے سوال کیا کہ ہم گندم میں خود کفیل تھے، گندم کہاں جا رہی ہے؟ یہ بھارت اور افغانستان تو جا نہیں سکتی، تو کہاں جا رہی ہے؟
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ زراعت کبھی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی، بارہویں آئینی ترمیم کے بعد زراعت کا بجٹ بہت کم ہو گیا ہے، سندھ حکومت نے گندم کی 4 ہزار روپے فی من امدادی قیمت مقرر کر دی، 3 ہزار روپے من پر کسان کو 1 ایکڑ سے 1 لاکھ 20 ہزار روپے حاصل ہوتے ہیں، زمین کا اوسط ٹھیکہ 50 ہزار روپے فی ایکڑ ہے، اِن پٹس ڈال کر کسان کو اس ریٹ پر کچھ آمدن ہو گی، سندھ کے زیادہ ریٹ کے باعث پنجاب کی گندم سندھ میں جائے گی، وزیرِاعظم شہباز شریف سے کسان پیکیج کا اعلان کرادیا گیا، مگر وزارتِ خزانہ نے مراعات پر کام ہی نہیں کیا۔
سیکریٹری غذائی تحفظ نے بتایا کہ وفاقی حکومت صوبوں کے درمیان ہم آہنگی چاہتی ہے، قیمتوں کا تعین صوبائی حکومتیں کرتی ہیں۔
طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ملاقات ہو گی، اس دن گندم کی قیمت کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔