• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدینہ منورہ... عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک (قسط نمبر 6)

سیّدنا جابرؓ نے ایک مرتبہ اپنے دونوں بیٹوں کی موجودگی میں فرمایا ’’ہلاک اور برباد ہو وہ شخص، جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خوف زدہ کیا۔‘‘ بیٹوں نے پوچھا ’’ابّا جان!حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو وفات پاچکے ہیں۔‘‘ حضرت جابر ؓ نے فرمایا ’’مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ جس نے اہلِ مدینہ کو خوف زدہ کیا، اس نے خود مجھے خوف زدہ کیا۔‘‘(مسندِ احمد، 354/3)۔

ایک موقعے پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرامؓ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ’’روئے زمیں پر مدینۂ منوّرہ کے سوا کوئی ایسا خطّہ نہیں، جس میں مجھے دفن ہونا پسند ہو۔‘‘ (موطا امام مالک، 550/2)۔ مدینۂ منوّرہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبّت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’مدینۂ منوّرہ میری ہجرت گاہ اور آرام گاہ ہے، اور اسی خاکِ پاک سے میں قیامت کے دن اٹھایا جائوں گا، لہٰذا میری اُمت کا حق ہے کہ وہ میری ہم سائیگی اختیار کرے۔ اگر میرے پڑوس میں رہ کر گناہوں سے اجتناب کیا، تو مَیں قیامت کے دن ان کے لیے شفیع اور گواہ بنوں گا۔‘‘ (کنزالعمال،246/12)۔

شہادت کی آرزو اور مدینے میں وفات کی تمنّا: امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ ولولہ، جذبہ اورآرزو ہروقت رہتی کہ شہادت فی سبیل اللہ کا اعزاز بھی حاصل ہوجائے اور مدینۂ منوّرہ کی خاک بھی نصیب ہو۔ چناں چہ آپ ؓ کثرت سے یہ دعا فرماتے۔ ’’اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت نصیب فرمانا اور اپنے حبیب ؐ کے شہر مدینہ میں موت دے۔‘‘ (صحیح بخاری 253/1)۔ صحابہ ؓ حیران ہو کر دریافت فرماتے ’’امیرالمومنینؓ! یہ کیسے ممکن ہے کہ شہادت بھی ہو اور مدینہ میں موت بھی ہو؟‘‘ لیکن اللہ نے اپنے محبوب ؐ کے محبوب کی دعائوں کو شرفِ قبولیت بخشا۔ 26ذی الحجہ 23ہجری، نمازِ فجر کے دوران ابو لولو فیروز مجوسی نے زہر سے بُجھے خنجر سے حملہ کرکے آپؓ کو زخمی کردیا۔ 

یوں آپؐ کی مدینے میں شہادت کی آرزو پوری ہوگئی اور پھر پہلوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں دفن ہونے کی خواہش بھی اللہ نے پوری کردی۔(خلفائے راشدین، ص66)۔ مدینہ منورہ کے فضائل و مناقب کا کوئی شمار نہیں، اللہ اور اس کے محبوب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس شہرِ مقدّس کا مرتبہ بہت بلند و اعلیٰ ہے۔ یہ مسلمانوں کا دینی و روحانی مرکز اور رشد و ہدایت کا گہوارہ ہے۔ سیّدنا ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ صحابۂ کرام کا معمول تھا کہ جب موسم کا نیا پھل آتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے۔ آپ ؐ وہ پھل لے کر یوں دعا فرماتے ’’یااللہ! تُو ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما۔ 

ہمارے شہرِ مدینہ کو بابرکت بنا اور ہمارے صاع اور مد میں بھی برکت عطا فرما۔ یااللہ! ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام تیرے بندے اورنبی تھے، اورمیں بھی تیرا بندہ اور نبی ؐہوں، جس طرح انہوں نے مکّہ ٔمعظمہ کے لیے دُعا فرمائی تھی، ویسی ہی میں مدینہ طابہ کے لیے دُعا کرتا ہوں، بلکہ اس سے دو چند کی دُعا کرتا ہوں۔‘‘ (اور دُعا کے بعد آپؐ وہ پھل کسی بچّے کو عنایت فرمادیتے تھے۔) (صحیح مسلم 442/1)۔ابن ساکر ؒ نے سیّدنا ابوہریرہ ؓ سے بھی یہ روایت نقل کی کہ آپؐ کی دُعا میں یہ الفاظ بھی شامل ہوتے ’’اے اللہ! مدینے والوں کو رزق عطا فرما۔‘‘ یہ دُعا مانگتے ہوئے آپؐ مدینۂ منوّرہ کے چاروں جانب اشارہ فرماتے۔ (کنزالعمال،245/12)۔

مدینۂ منوّرہ کااحترام:ڈاکٹر مفتی نظام الدین شامزیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت امام مالک ؒ مدینہ میں کسی سواری پرسوارنہیں ہوتے تھے۔ کسی نے اُن سے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ ’’مَیں سواری پرسوار ہو کرزمین کے اس حصّے کو پامال نہیں کرسکتا، جس پر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چلے ہوں۔‘‘ اسی طرح منقول ہے کہ امام مالکؒ قضائے حاجت کے لیے مدینۂ منوّرہ سے بہت دُور اورحدودِ حرم سے باہر جایا کرتے تھے۔ اسی طرح مسجد نبویؐ میں کبھی بھی اونچی آواز سے بات نہیں کیا کرتے تھے۔ 

فرمایا کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حُرمت و کرامت زندگی میں اورانتقال فرمانے کے بعد برابرہے۔ چناں چہ اس جلیل القدر امام کے اعمال واقوال سے ہر مقیمِ مدینہ کو سوچنا چاہیے کہ مدینۂ منوّرہ کی عزّت و تکریم کاکیا مقام ہے۔‘‘ (فضائلِ مدینۂ منوّرہ، صفحہ 42)۔ حضرت مفتی شامزیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ’’مدینۂ منوّرہ کے نوّے سے زیادہ نام، احادیث وآثار اورتاریخ کی کتابوں میں منقول ہیں۔ ان ناموں میں سے ہرنام اس شہر کی صفتِ ایمانی کا حامل اور شرف و عزّت پر دلالت کرتاہے۔ یہ شہراللہ کے نورِ ہدایت اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت سے روشن و منور ہے۔ اس لیے اسے مدینۃ المنورہ کہا جاتا ہے۔‘‘ (فضائلِ مدینۂ منوّرہ، صفحہ 16)۔

عہدِ قدیم کا شہر ِبیمار ...... مشرف بہ اسلام ہوگیا

جزائرِ عرب کا سرسبز و شاداب ’’شہرِ بیمار‘‘ یہودیوں کی اُمیدوں کا مرکز، اوس و خزرج کا مسکن، رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کے خوابوں، خیالوں کی ریاست ’’یثرب‘‘ اب مشرف بہ اسلام ہوکر ’’مدینہ طیّبہ‘‘ میں تبدیل ہوچکی تھی۔ مسلمانوں کی پہلی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہرِ جاناں میں تشریف فرما تھے۔ اہلِ مدینہ کے چہرے خوشی سے گُل نار تھے۔ چہار سُو رنگ و نُور کی برسات تھی۔ مدینے کی فضائیں خوشبوئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے مہک رہی تھیں، شہرِخوباں کے گلی کوچے تقدیس و تحمید کے کلمات سے گونج رہے تھے۔

انصار کے وفود دُور دراز علاقوں سے جوق دَر جوق آتے اور جوشِ عقیدت کے ساتھ سلام کرتے۔ رُخِ انورؐ کی زیارت کرتے اور وعظ و نصیحت کی باتیں سُنتے۔ اُن ہی میں ایک قوم ایسی بھی تھی، جو برس ہا برس سے نبی آخرالزماںؐ کی منتظر تھی، لیکن اب اس کی تمام تر اُمیدوں پر پانی پھر چکا تھا۔ اہلِ یہود کا غرور و تکبّر اور شدید یہودی عصبیت یہ حقیقت تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں تھی کہ نبی آخرالزماںؐ بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیلؑ پر مبعوث فرمائے گئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر بے شمار انبیاء و رُسل مبعوث فرمائے۔ 

حضرت آدم علیہ السلام کے بعد صرف دس نبی ایسے ہیں، جو بنی اسرائیل میں پید انہیں ہوئے، جن کے نام شیث علیہ السلام، ادریس علیہ السلام، نوح علیہ السلام، ہود علیہ السلام، صالح علیہ السلام، لوط علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام اور نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل بنی اسرائیل کہلائی۔ دُنیا میں ان دس کے علاوہ جتنے بھی انبیاء و رُسل علیہم السلام تشریف لائے، اُن کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا۔ (معارف القرآن جلد 1 صفحہ 353)۔

یہودیوں کے سب سے بڑے عالم کا قبول اسلام: یثرب کے یہودیوں کی دُشمنی، مخالفت، غم و غصّہ اور عناد اُن کی فطرتِ ثانیہ اور خباثتِ باطنی کا غماز تھا۔ یوں تو نافرمانی، منافقت، بدعہدی، دھوکا دہی، فریب، حسد و فساد اُن کی سرشت میں شامل تھا اور اپنی ان ہی صفات کی بِنا پر دُنیا بھر میں ذلیل و خوار ہوتے پھر رہے تھے، لیکن اس کے باوجود اُن کے تعفّن زدہ لاشے میں خیر کی چنگاری اور نُور کی کرن اپنی جھلک دکھا دیتی تھی۔ ان ہی چند لوگوں میں ایک نام حضرت عبداللہ بن سلام کا ہے، جو اُس زمانے میں یہودیوں کے سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے مذہبی پیشوا تھے۔ اِسلام قبول کرنے سے پہلے اُن کا نام ’’الحصین بن سلام بن الحارث‘‘ تھا۔ 

عبداللہ بن سلام بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں اپنے باغ میں کھجور کے درختوں کی کاٹ چھانٹ میں مصروف تھا کہ اچانک شور کی آواز آئی۔ اس کے ساتھ ہی کسی نے کہا کہ اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ہیں اور قباء بستی میں بنو عمرو بن عوف کے محلّے میں تشریف فرما ہیں۔ میں نے فرطِ مسرّت سے مغلوب ہوکر بے اختیار نعرۂ تکبیر بُلند کر دیا۔ اسی درخت کے نیچے میری پھوپھی خالدہ بنتِ حارث بیٹھی تھیں۔ انھوں نے جو یہ نعرہ سُنا، تو حیرت اور غصّے سے بولیں۔ ’’اللہ تجھے غارت کرے، خدا کی قسم اگر موسیٰ بن عمران تشریف لاتے، تو کیا تُو اتناہی خوش ہوتا؟‘‘ میں نے کہا ’’پھوپھی جان! یہ بھی موسیٰ بن عمران کے بھائی اور اُن ہی کی طرح اللہ کے رسولؐ ہیں۔‘‘ اس پر میری پھوپھی بولیں ’’اے میرے بھتیجے! کیا یہ وہی نبیؐ ہیں، جن کے بارے میں ہم سُنتے تھے کہ وہ قیامت سے قبل ظہور پذیر ہوں گے؟‘‘ میں نے کہا ’’جی ہاں! خدا کی قسم، یہ وہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘ 

انھوں نے کہا ’’اچھا اگر یہ بات ہے، تو ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مکمل تحقیق کی ہوئی تھی، میرا یقین تھا کہ یہی نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، لیکن مَیں نے اس بات کو خفیہ رکھا ہوا تھا۔ یہودیوں سمیت کسی ایک شخص کو بھی میری اندرونی کیفیت کا علم نہ تھا، چناں چہ جب میں نے اُن کی آمد کی خبر سُنی، تو تیار ہوکر خدمتِ اقدسؐ میں حاضر ہوگیا۔‘‘

جب چہرئہ انور پر پہلی نظر پڑی:حضرت عبداللہؓ بن سلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب میں اس مقدّس محفل میں گیا، جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرمارہے تھے۔ میری نظر جب آپؐ کے چہرئہ انورؐ پر پڑی تو بے اختیار دِل نے کہا کہ یہ نورانی چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہوسکتا۔ مَیں محفل میں ایک طرف بیٹھ گیا۔ آپؐ فرما رہے تھے کہ ’’اے لوگو! آپس میں ایک دُوسرے کو سلام کیا کرو۔ غریبوں، مسکینوں، محتاجوں، یتیموں اور مسافروں کو کھانا کھلایا کرو، صلۂ رحمی کیا کرو اور تہجّد کی نماز پڑھا کرو، جس کے انعام کے طور پر تم سب جنّت میں داخل ہوجائوگے۔‘‘ 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو اختتام پذیر ہوئی تو مَیں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اپنا تعارف کروا کر عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہود بدکردار اور پست اخلاق قوم ہیں۔ مَیں ابھی اپنے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کرتا۔ آپؐ یہودیوں کے سرداروں، علما اور مذہبی لوگوں کو بُلالیں اور پھر اُن سے میرے بارے میں رائے معلوم کریں۔ میں اس دوران پردے کے پیچھے چُھپ جائوں گا۔‘‘ آپؐ نے ایسا ہی کیا اور جب یہود رؤساء سردار آگئے، تو آپؐ نے ان لوگوں سے دریافت فرمایا کہ ’’الحصین بن سلام کے بارے میں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟‘‘ ان سب نے متفقہ طور پر کہا،’’وہ ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں، وہ بہت بڑے مذہبی رہنما اور بہت بڑے عالم ہیں۔‘‘ جب وہ سب یہودی گواہی دے چکے، تو میں پردے کے پیچھے سے نکل آیا اور کہا۔ ’’اے قومِ یہود کے رہنمائوں! اللہ سے ڈرو! تم سب بہت اچھی طرح سے جانتے ہو کہ یہ اللہ کے سچّے رسول ہیں۔ تم ان کا ذکر توریت میں بھی پڑھتے ہو۔ خدا کی قسم میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کےرسولؐ ہیں۔ میں ان پر ایمان لاتا ہوں۔ ان کی تصدیق کرتا ہوں، اس لیے کہ میں انھیں اچھی طرح سے پہچانتا ہوں۔‘‘ 

یہ سُننا تھا کہ وہ سب یک زبان ہو کر بولے۔ ’’تم جھوٹے ابنِ جھوٹے، رذیل ابنِ رذیل ہو۔‘‘ اور جتنا مجھے بُرا بھلا کہہ سکتے تھے کہا اور چلے گئے۔ مَیں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہود بہت گھٹیا، منافق، دوغلے، سرکش اور نافرمان ہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے الحصین بن سلام کے اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا نام ’’عبداللہ‘‘ رکھا۔ عبداللہؓ بن سلام کہتے ہیں کہ ’’اسلام قبول کرنے کے بعد میں گھر گیا اور اہلِ خانہ کو جمع کر کے دین کی دعوت دی، لہٰذا پھوپھی سمیت سب نے اسلام قبول کرلیا۔‘‘ (سیرت ابنِ ہشام، 135,137/2)۔ 

بنی اسرائیل کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کے اسلام قبول کر لینے سے یہودیوں میں صفِ ماتم بچھ گئی، چناں چہ مسلمانوں سے نفرت اور غم و غصّے میں مزید اضافہ ہوگیا۔ یہودی، منافق اور سازشی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت بزدل اور ڈرپوک ہیں۔ یہ پوری زندگی دُوسری قوموں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو کر دَر بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ چناں چہ مدینے میں بھی انھوں نے کُھل کر آنحضرتؐ اور مسلمانوں کی مخالفت سے گریز کیا۔ اسی لیے یہ لاکھ دُشمنی کے باوجود میثاقِ مدینہ میں شامل ہوگئے۔

ہجرت کے بعد تین اوّلین کام

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ پہنچتے ہی جن تین اوّلین کاموں پر سب سے پہلے توجّہ دی، وہ یہ تھے۔ (1) مسجدِ نبویؐ کی تعمیر۔ (2) مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات۔ (3) امن و امان کا قیام۔

مسجد نبویؐ کی تعمیر:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُونٹنی قصویٰ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے جس جگہ آکر بیٹھی تھی، وہ جگہ خاندانِ بنو نجار کے دو یتیم بچّوں سہل اور سہیل کی تھی، جن کے سرپرست حضرت اسعد بن زرارہؓ تھے۔ آپؐ نے اس جگہ کو مسجد کے لیے پسند فرماتے ہوئے دونوں بچّوں کو بلا بھیجا اور زمین کی فروخت کے بارے میں دریافت فرمایا۔ 

دونوں بچّوں نے کہا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم دونوں بھائی بخوشی اسے ہبہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ آپؐ نے اسے گوارہ نہیں فرمایا اور بچّوں کو زمین کی قیمت ادا فرمائی۔ (صحیح بخاری حدیث، 3906)۔ چناں چہ زمین کی قیمت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ یا حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے بچّوں کو ادا کی۔ اس جگہ ہجرت سے پہلے مسلمان حضرت اسعد بن زرارہؓ کی امامت میں نماز ادا کیا کرتے تھے۔ یہاں پرکچھ قبریں اور چند کھجور کے درخت تھے۔ 

صحابہؓ نے قبریں اُکھاڑ کر زمین ہم وار کی اور سب نے مل کر مسجد کی تعمیر شروع کردی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفسِ نفیس تعمیر کے کام میں شامل رہے۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد 3 صفحہ 194)۔ آپؐ پتھر اور اینٹیں ڈھوتے۔ صحابہؓ کہتے، ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے ماں، باپ آپ ؐ پر قربان، آپؐ پتھر نہ اُٹھائیں۔‘‘ حضورؐ اُن کے منع کرنے پر وہ پتھر چھوڑ دیتے، لیکن پھر دُوسرا پتھر اُٹھا لاتے۔ (سیرت النبی ؐ ،175/1)۔ اس موقعے پر آپؐ یہ دُعا فرماتے ’’اے اللہ! کام یابی تو بس آخرت کی کام یابی ہے۔ پس تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث،3932 )۔