• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ایردوان جب سے برسر اقتدار آئے ہیں انہوں نے ترکیہ کی خارجہ پالیسی اور حکمتِ عملی میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ہے۔ ترکیہ ایردوان سے قبل ایک نام نہاد سیکولر ملک ہونے کے ناتے اسلامی ممالک، اسلامی تنظیموں اوراسلامی این جی اوز سے دور رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتا تھا۔ اس کے اسلامی ممالک میں صرف پاکستان کے ساتھ شروع دن سے بڑے گہرے سیاسی، معاشرتی اورسفارتی تعلقات قائم رہے جو آج بھی وقت کے ساتھ ساتھ فروغ پا رہے ہیں لیکن ایردوان سے قبل تک ایسا سوچنا بھی ممکن نہ تھاکیونکہ ایک سیکولر ملک ہونے کے ناتے ترکیہ میں حکمران مغرب ہی کو اپنا قبلہ سمجھتے رہے اور خاص طور پر ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد ترکیہ اسلامی ممالک سے مزید دور ہوگیا اور ایران کے ساتھ اس کے تعلقات میں بھی سرد مہری دیکھی گئی جو ایردوان دور میں اپنے اختتام کو پہنچی جب کہ ترکیہ کے عرب ممالک سے سفارتی تعلقات ہونے کے باوجود ان میں کبھی گرمجوشی نہیں دیکھی گئی۔ایردوان نے برسراقتدارآنے کے بعد سب سے پہلے اسلامی ممالک سے اپنے تعلقات پر نہ صرف نظر ثانی کی بلکہ اسلامی تعاون تنظیم جس میں ترکیہ نے کبھی کوئی فعال کردار ادا نہیں کیا تھا ایردوان دور میں اس تنظیم میں گہری دلچسپی لی جانے لگی اور اسی کے نتیجے میں 5جون 2004کو ترکیہ سے تعلق رکھنے والے اکمل الدین احسان اولو کو اسلامی تعاون تنظیم کا سیکرٹری جنرل منتخب کرلیا گیا جو 30دسمبر 2013تک اس عہدے پر فائزرہے۔ اسی دور میں ترکیہ کے اسلامی ممالک سے بڑے قریبی سفارتی، سیاسی ،اقتصادی، تجارتی اور معاشرتی تعلقات قائم ہوئے اور یوں ترکیہ مغرب پرست گروپ سے نکل کر اسلامی ممالک میں ایک رہنما ملک کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا۔ صدرایردوان نے اس دوران نہ صرف فلسطینیوں کیلئےآواز بلند کی بلکہ انہوں نے عالمی پلیٹ فارمز پربھی مسئلہ ٔکشمیر کو اٹھایا اور پھر روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اپنے وزیر خارجہ، اس وقت کے وزیر اعظم اور اپنی اہلیہ کو روہنگیا مسلمانوں کی امداد کےلئےروانہ کیا۔اس سے تمام مسلمانوں کے دلوں میں انہوں نے اپنے لئے مستقل طور پر جگہ بنالی اور آج بھی جہاں کہیں کوئی مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہوتا ہے تو سب سے پہلے ایردوان ہی ان کی مدد کو پہنچتے ہیں۔ پھر انہوں نےاپوزیشن کی سخت تنقید اور مغربی ممالک کی جانب سے شامی پناہ گزینوں کیلئے دروازے بند کئے جانے پر اپنے ملک کے دروازے ان شامی پناہ گزینوں کیلئے کھول دیے اور چار ملین کے لگ بھگ شامی پناہ گزین گزشتہ گیارہ سال سے ترکیہ میں مقیم ہیں جس کی وجہ سے دنیا کی نگاہوں میں صدر ایردوان کی قدرو منزلت میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔

صدر ایردوان نے خود کو صرف مسلمانوں ہی کی مدد کیلئے وقف نہیں کیا بلکہ انہوں نے یوکرین جنگ کے دوران جو کردار ادا کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔انہوں نے اس جنگ کی وجہ سے دنیا میں پیدا ہونے والی اناج کی قلت دور کرنے کیلئے جس طرح روس اور یوکرین کے درمیان سفارت کاری کا بیڑہ اٹھایا اور پھر دن رات کے مذاکرات کے بعد اناج راہداری کھولنے کا بندوبست کیا اس کا سو فیصد کریڈٹ ایردوان ہی کو جاتا ہے ۔ پاکستان ،جس کے ہر دور میں ترکیہ کے ساتھ بڑے گہرے اور قریبی تعلقات رہے ہیں، ترکیہ اور صدر ایردوان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کا ہمیشہ ہی معترف رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی ترکیہ کی گرینڈنیشنل اسمبلی کے اسپیکر مصطفیٰ شَن توپ نے دارالحکومت انقرہ میں پارلیمانی رپورٹروں کے ساتھ ملاقات کے موقع پر 24فروری سے جاری روس،یوکرین جنگ کے خاتمے، یوکرینی اناج کو دنیا تک پہنچانے اوراس کیلئے ترکیہ میں راہداری قائم کرنے کی کوششوں کو سراہتے ہوئے صدر ایردوان کو نوبل امن ایوارڈ کیلئے نامزد کرنے کیلئے دنیا کی مختلف ممالک کی پارلیمنٹس کے سربراہان کو خطوط روانہ کئے تو سب سے پہلے پاکستان سینیٹ کے چیئرمین محمد صادق سنجرانی نے ناروے کی نوبل کمیٹی کو خط ارسال کرتے ہوئے صدر رجب طیب ایردوان کی کوششوں کے نتیجے میں انہیں بین الاقوامی نوبل امن انعام کیلئے نامزد کرنے کی درخواست کی ، صادق سنجرانی نے کہا کہ روس یوکرین جنگ پوری دنیا کیلئے بڑی تباہی کا باعث بن سکتی تھی، ترک صدر نے فریقین کے ساتھ بروقت اور مؤثر رابطہ کاری سے دنیا کو بڑی تباہی سے بچایا ہے۔ صادق سنجرانی نے کہا کہ صدر ایردوان نہ صرف اپنے ملک بلکہ خطے اور بالعموم پوری دنیا کی بہتری اور خوشحالی کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔

یہ اعزاز صدر ایردوان ہی کو حاصل ہے کہ انہوں نے روس کے صدر پیوٹن اور یوکرین کے صدر زیلنیسکی سے مسلسل رابطہ قائم رکھا ہوا ہے اورکئی بار ان دونوں ممالک کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ اگرچہ کئی دیگر رہنمائوں نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بند کروانے کی کوششیں کی ہیں لیکن دونوں رہنمائوں کی نظر میں صدر ایردوان کو جو عزت وقار حاصل ہے وہ شاید کسی رہنما کو حاصل نہیں ۔ صدر ایردوان نے روس کی اجازت سے ترکیہ میں غلے کی راہداری کھول کر دنیا پربہت بڑا احسان کیا ہےورنہ غلے کا قحط یا قلت اور غلے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ یقینی تھا۔پاکستان پہلا ملک ہےجس نے اپنے برادر اور دوست ملک اور پاکستان کے خیر خواہ صدر رجب طیب ایردوان کو نوبل امن ایوارڈ دلوانے کیلئے بین الاقوامی سطح پر اپنی کوششوں کا آغاز کیا ہے اور صدر ایردوان کو امن کا نوبل ایوارڈ دلوانے تک اپنی کوششوں کو جاری رکھنے سے بھی آگاہ کیا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین