• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہاں پھینکیں وہ یادیں جو 1985 کے عام انتخابات سے جُڑی ہوئی ہیں۔ پھر77ء میں اور اس کے بعد جو ہوا وہ الگ کربناک اور شرمناک غیر جمہوری یادیں بھی پیچھا کرتے تھکتی نہیں ہیں جو کم فہم سیاسی بصیرت کے عذابوں کی پرچھائیاں بن کر آنکھوں کے سامنے ہمیشہ اندھیرا لے کر آتی ہیں۔ جتنے بھی کم سن ہوں مگر ہم جمہوریت کے رینگنے کی دوڑ سے کوئی آج ہم کلام نہیں ہو رہے، نہ ہم میڈیا متاثرین والی محبت یا نفرت کا شاہکار یا شکار ہیں۔ مزاجوں کے متعدد دشت دیکھنے اور کئی رویوں کی خاک چھاننے کے بعد بھی ہم توازن سے بغل گیر نہیں ہو سکے تو اس میں ’’ہمارا‘‘ قصور ہے کسی پہلے دس عالمی نمبروں میں موجزن یا 130ویں نمبر پر غوطہ زن ہونے والوں کا کوئی قصور نہیں !

ہچکولے کھاتی جمہوریت کی کشتی اوکھے سوکھے کنارے لگنے کے درپے ہوتی کہ اندر ہی سے کوئی سوراخ بڑے کرتا یا کشتی بان کو پیچھے سے چھرا گھونپ دیتا ہے لیکن بعض اوقات دشمن اپنی شمشیر بے نیام نہ بھی کر پائیں تو نادان دوستوں کی دانستہ و غیردانستہ نادانیاں اس قدر مہلک ہوتی ہیں کہ رہے نام اللہ کا گویا یہ سو فیصد درست ہے کہ دوست نادان مايہ رنج و زحمت است ! مسلم لیگ نواز کے حوالے سے یہ بات صداقت عامہ بن چکی کہ بابے بغیر بکریاں نہیں چرتی ہیں ،سو میاں نواز شریف کے واپس آئے بغیر اگلا الیکشن جیتنا مشکل ہی نہیں ناممکن بنتا جا رہا ہے۔ حمزہ شہباز شریف وہ خوش قسمت شخص کا نام ہے جب وہ ممبر قومی اسمبلی تھا تو تایا وزیراعظم اور جب اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ہوا تو ابا وزارتِ عظمیٰ تک جا پہنچا۔ گزشتہ دس سال سے پنجاب کے تمام نون لیگی ممبران پنجاب اسمبلی ہی نہیں اراکین قومی اسمبلی گزشتہ دس سال سے ’’بہشتی دروازہ‘‘ سمجھتے تو کبھی آرتی اتارتے، قائدین اور پارلیمنٹیرینز کیلئے شریف خاندان کا گیٹ وے گردانا جانے والا حمزہ شہباز شریف اسمبلی ٹوٹنے نہ ٹوٹنے کی کشمکش میں کہاں تھا، اور کہاں ہے؟ جب چوہدری پرویزالٰہی اعتماد کا ووٹ لے رہے تھے اپوزیشن لیڈر دنیا کے کس کونے میں تھا اور کیا کر رہا تھا ؟ ایوان میں ممبران اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر یا پارلیمانی لیڈر میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کون نہیں جانتا عطاء اللہ تارڑ جیسے ہوم ڈیلیوری لیڈر پر ایک اچھے اسٹاف افسر کی حد تک تو تکیہ کیا جاسکتا ہے، چلئے ایک سیاسی رابطہ کار یا ٹیکنوکریٹ کہہ لیجئے مگر اسے سیاسی کارکن یا لیڈر سمجھنا درست نہیں۔ دو دن یا چار دن کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران کیا کیا ؟ جبکہ پرویزالٰہی نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے گجرات اور گرد و نواح کو بالخصوص اور پورے پنجاب کو بالعموم ترقیاتی و سیاسی دوربین اور خوردبین کے نیچے رکھا۔ پنجاب بھی دیکھتے ہیں پہلے اس گجرات پر ایک نظر جو چوہدریوں کا سیاسی گڑھ اور سیاسی کیمسٹری کا مسکن ہے، جہاں میاں نواز شریف نے ایک متوسط طبقے کی علامت حاجی ناصر پر دست شفقت رکھ کر اُسے ایسا سُپر مین بنادیا جو چوہدریوں کو اس یونین کونسل سے نہ جیتنے دیتا، جو ظہور پیلس کے سائے تلے آباد ہے، خود ایم پی اے رہا، بھتیجا ایم پی اے رہا، چوہدری پرویز الٰہی سے چوہدریوں کے خدمت گزار میاں عمران مسعود تک کو براہ راست شکست دی، پھر شہر میں چوہدریوں کو مئیر تک نہ بننے دیا۔حمزہ شہباز کو یاد ہوگا گجرات ہی کے لالہ موسیٰ شہر سے پیپلزپارٹی کے سیاسی پنڈت قمر زمان کائرہ کے مقابلہ پر چوہدری جعفر اقبال کو میاں نواز شریف نے ایسی سیاسی آکسیجن سے نوازا کہ ایک عام کارکن ناصرف ممبر قومی اسمبلی بنا بلکہ وزیرِ مملکت بھی ہوا۔ وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد اپنے مقابل اور خاندان کے روایتی سیاسی حریف چوہدری پرویز الٰہی کی نیندیں حرام کرنے والے متذکرہ افراد سے میل ملاقاتیں کتنی تھیں، علاوہ ازیں پنجاب اسمبلی کشمکش میں کتنے ممبران پنجاب اسمبلی کو اپنی جانب راغب کرنے کی کامیاب و ناکام کوشش کی ؟ جو گورنر پنجاب تجویز ہی حمزہ سیاست کو مد نظر رکھ کر کئے گئے ان سے سیاسی و آئینی کتنی ملاقاتیں کیں؟

پنجاب اسمبلی میں نون لیگ کی شکست سے نون لیگ کے کارکنان کے حوصلے پست ہوئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے بلند ۔ یہ خفگی اور زوال رانا ثنا اللہ یا عطا تارڑ کا نہیں نون لیگ مائنڈ سیٹ کا ہے۔ رانا تنویر سے خواجہ آصف کی کارکردگی کیا ہے؟ مانا کہ پارٹی اکثریت شریف اور بھٹو خاندانوں ہی کی شمعوں کی پروانہ ہوتی ہےلیکن پیپلزپارٹی تو ممتاز بھٹو کے تجربے کے بعد سندھ کی وزارتِ اعلیٰ بھٹو خاندان سے باہر رکھتی ہے اور دسترس بہترین۔ کیا شریف خاندان کیلئے ایسی گرِپ ممکن نہیں؟

وزیراعظم شہباز شریف کو یہ یقیناً معلوم ہوگیا ہو گاکہ صوبہ تو آئی جی، چیف سیکرٹری، اضلاع کی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز ، ہوم سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ، سیکرٹری تعلیم اور ڈی سیز و ایس پیز سے چل سکتا ہے تاہم مرکز چلانے کیلئے مرکزی کابینہ، انہوں نے صاحبزادے کو کیوں نہ بتایا کہ وزیر اعلیٰ چار دن کا ہو یا سدا بہار، لیفٹ رائٹ کےڈیلی ویجرزکی جانب سے کوٹ اور رنگ و روپ کی تعریفوں سے فقط نرگسیت کی تسکین ممکن ہے مگر پنجاب بھر کی کارکنیت اور قیادت کو قیمتی وقت میں سے انمول لمحے اور مکالمے کا ماحول خشوع و خضوع کے سنگ فراہم کرنا فرض ہوتا ہے جو سیاسیات کو روحانیات میں بدل دے ! چلئے حمزہ میاں تو دو لفظوں کی کہانی ہیں لیکن میاں شہباز شریف تو ایک مکمل جامع سیاسی مضمون ہیں، حمزہ شہباز نے تو نہیں کیا ابو حمزہ نے غور کیا کہ چوہدریوں کے پاس سوائے گجرات اور کچھ دیرینہ تعلقات کے سوا ہے ہی کیا؟ پس گجرات سے اٹک اور رحیم یار خان تک کیا کیا؟ معلوم ہی ہوگا کہ پیپلزپارٹی کے وزراء کی کارکردگی کمال ہے، اڑتی ہوئی ملی ہے خبر بزم ناز سے کہ مشیر امور کشمیر نے گجرات کیلئے 8 ارب کے (PSDP ) لئے ہیں، 3 ارب روپے شافع حسین نے اور نون لیگ نے بارہویں کھلاڑی لیول حمزہ جی کو شہرہ آفاق کپتان کے مقابلہ میں کھڑا کردیا، یہ کیا گیم ہوئی کہ پنجاب اسمبلی نہ سنبھال سکے ؟ میاں صاحب ! مزاجوں کے متعدد دشت دیکھنے اور ماضی کے کئی رویوں کی خاک چھاننے کے تجربہ کا فائدہ ؟

تازہ ترین