• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سیاست کا محور عوام کے بنیادی مسائل کے حل کی بجائے حصولِ اقتدار ہی رہا ہے اور یوں سیاست ارتقا پذیر ہونے کی بجائے مسلسل ایک گول دائرے میں ہی گھوم رہی ہے۔ سیاست دان ہمہ وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ بن جائیں اور کسی نہ کسی طرح الیکشن جیت جائیں حالانکہ جنرل باجوہ نے واضح طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے دوری اختیار کر لی ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان نے شکایت کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کو متحد کر رہی ہے اور ’’باپ‘‘ کے سر پر ہاتھ رکھ کر اب اس کو پیپلز پارٹی میں شامل کروایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف نواز شریف نے بیان دیا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پنجاب میں تحریک انصاف کے ناراض صوبائی اسمبلی اراکین کو عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا اور اب ایم کیو ایم کو پی ڈی ایم سے علیحدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔سیاسی مبصرین نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل یہ اسٹیبلشمنٹ کی ایک ٹیکٹیکل موو ہے تاکہ وہ اپنی ساکھ بحال کر سکے اور اسی وجہ سے تحریک انصاف کی بھی مدد کی جا رہی ہے تاکہ ان کی تنقید میں کمی واقع ہو۔عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اتنے سخت بیانات بھی اسی وجہ سے دے رہے ہیں تاکہ وہ ایک دفعہ پھر ان کی بھرپور مدد کرنے پر تیار ہو جائے لیکن شکایات کی یہ طویل فہرست بناتے ہوئے وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا یہ رویہ قیام پاکستان سے ہی جاری ہے جو 2017میں اپنایا گیاتھا جب بلوچستان کے تما م سرداروں کو اکٹھا کر کے بلوچستان میں نہ صرف باپ پارٹی بنائی گئی بلکہ اس کو راتوں رات تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا گیا اور پلک جھپکتے ہی بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو گرا دیا گیا۔عمران خان کے بھول پن کا کیا کہنا کہ یہ فہرست بناتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سینیٹ چیئر مین کے الیکشن کی قرارداد کے وقت ان کے پاس 37سینیٹرز تھے جبکہ 64سینیٹرز نے ہاتھ کھڑے کر کے نیشنل پارٹی کے صدرمرحوم میر حاصل بزنجو کے حق میں قراردادپاس کی تھی تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ 37ووٹ لینے والے سینیٹر صادق سنجرانی آج بھی سینٹ کے چیئر مین ہیں۔اس سے پہلے 2018ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے کئی امیدواروں نے شکایت کی تھی کہ ان کے نام کے گردریڈ لائن لگا دی گئی ہے لیکن اب عمران خان بھی اسی ریڈ لائن کا ذکر کر رہے ہیں ۔مشہور کہاوت ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھروگے۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی الیکشن بھی اس کی منہ بولتی تصویر ہیں اور 2018ء کے الیکشن کے نتائج کے برخلاف تحریک انصاف تیسرے نمبر پر آئی ہے،حالانکہ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ ایک طرف تو ایم کیو ایم کو متحد کیا جارہاہے لیکن دوسری طرف اسے الیکشن لڑنے سے باز رکھاگیا ہے۔ اگر قرون وسطیٰ کے یورپ اور آج کے پاکستانی معاشرے کا تقابلی جائزہ لیں تواس میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ہمارے ہاں بھی جاگیردار، سردار، سرمایہ داراور سجادہ نشین اسٹیبلشمنٹ سے مل کر اسی قسم کی اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہیں جس کا خمیازہ پاکستانی قوم پچھلے 75سال سے بھگت رہی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کوآج اپنی غلطی کا احساس ضرور ہوگا کیونکہ عمران خان کو بغیر سیاسی تربیت دیے ان کا ایک ہیرو کلٹ بنادیا گیا جو کہ دراصل سیاسی ارتقا پذیری کی مکمل نفی ہے۔اس طرح ادارے اور مثبت سیاسی روایات نہ تو پیدا ہوتی ہیں اور نہ ہی سماج آگے بڑھ سکتا ہے۔رمیز راجا کہتے ہیں کہ جب عمران خان پاکستانی ٹیم کے کپتان ہوتے تھے تو وہ بیک وقت چیف سلیکٹر، بورڈ کے چیئر مین اور ٹیم کے منیجر کے فرائض انجام دیتے تھے۔صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک خود پسند شخص کی خصوصیات ہی ہو سکتی ہیں جو ایک سیاسی لیڈر نہیں بن سکتا کیونکہ سیاسی لیڈر کیلئے ضروری ہے کہ وہ دوسری جماعتوں سے مل کر مختلف مسائل کا ایسا حل نکالے جس میں کچھ لو اور کچھ دو کی خصوصیات شامل ہوں۔عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنی خود پسندی سے باہر نکلیں، ہیرو کلٹ کو خدا حافظ کہیں اور پاکستان میں ادارہ سازی کی روایات قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوں کیونکہ اس سماج میں جمہوری روایات اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتیں جب تک سیاسی پارٹیاں شخصیات کی گرفت سے باہر نہیں نکل جاتیں۔عمران خان آج بھی نو آبادیاتی طرز کے سیاسی رہنما بننا چاہتے ہیں ۔ہندوستان میں بھی سیاسی پارٹیاں ایسا ہی طرز عمل لئے ہوئے ہیں لیکن حال ہی میں وہاں کانگریس پارٹی نے نہرو خاندان سے ہٹ کر ایک عام آدمی کوپارٹی کا سربراہ بنا یا ہے۔آج پاکستان کی بقا کا تقاضا ہے کہ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف اپنے تمام سیاسی اختلاف ایک طرف رکھ کر یہ معاہدہ کریں کہ آئندہ وہ کبھی اسٹیبلشمنٹ کی مدد نہیں لیں گے اور جو بھی پارٹی اس کی مدد سے جیتے گی ، اسے حکومت بنانے سے باز رکھیں گے اور یہ کہ وہ اپنی سیاست کا محور غریب عوام کے مسائل کو بنائیں گے اور محکوم قوموں اور گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے سیاسی اقدامات پر زور دیں گے تاکہ پاکستان میں جمہوری تسلسل اور وفاقیت جڑیں پکڑ سکے۔آج بھی اگر عقل کے ناخن نہ لئے گئے تو خدانخواستہ پاکستانی سماج ایسی دلدل میں پھنس جائے گا جس سے باہر نکلنا ناممکن ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین