• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طلب کے مطابق رسد نہ ہونے، تقسیم کے انفراسٹرکچر کی خامیوں، متعلقہ حکام کی غفلت ، عملے کی نااہلی، بدنظمی، ایڈہاک ازم اور غیر پیشہ ورانہ طرز عمل کے باعث پیر کو صبح بجلی کا بدترین بریک ڈائون اس ملک میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پچھلے 3 سال میں وقوع پذیر ہونے والا یہ 19 واں تعطل ہے جس سے کم و بیش 16گھنٹے تک ملک تاریکی میں ڈوبا رہا۔ بینک ، ہسپتال، صنعتیں ، موبائل فون سروسز، پٹرول پمپس، چھوٹے بڑے کاروباری ادارے، سکول، عدالتیں ، بالخصوص گھریلو زندگی بری طرح متاثر ہوئی ، اربوں روپے کا نقصان ہو گیا۔صرف ٹیکسٹائل سیکٹر میں 7کروڑ ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو ملک کے موجودہ معاشی بحران کے پس منظر میں ناقابل تلافی ہے۔ بریک ڈائون صبح 7 بجکر 34منٹ پر ہوا جو رات گئے تک جاری رہا۔ اس دوران بحالی کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور ماضی اور حال کی حکومتوں کے یہ بلند و بانگ دعوے غلط ثابت ہوئے کہ بجلی کی پیداوار یت اور تقسیم کے سارے نظام کے حفاظتی انتظامات تکنیکی معاملات اور عملی اقدامات اتنے مکمل ہیں کہ کسی تعطل کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کچھ ہوا بھی تو اس کے اثرات متعلقہ علاقے تک محدود ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق پیر کو ہونے والا بریک ڈائون اور وولٹیج، لوڈ ویری ایشن اور فریکوینسی میں خلل کے باعث پیش آیا۔ بجلی کے تعطل کا آغاز گڈو اسٹیشن سے ہوا جہاں پاور لائن ٹرپ کر گئی جس سے نیشنل گرڈکی فریکوینسی متاثر ہوئی۔ ہائیڈل سسٹم کو چلانے میں الگ مشکلات پیش آئیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تین رکنی قائم کر دی ہےجو معاملے کی تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا تعین کرے گی۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اتنا بڑا تعطل بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ صبح سات بجے حب پاور چلانے اور 6گرڈ بند کرنے کا پیغام دیا گیا تھا جس پر بروقت عمل نہیں ہوا۔ اس میں عملے کی غفلت کارفرما تھی پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے جس پر ذمہ دار افراد کو جرمانے بھی کئے گئے مگرخرابیوں کا سدباب پھر بھی نہ ہو سکا۔ اس بار بھی ملک کے جنوبی حصے میں دادو اور جام شورو کے درمیان کہیں جنریشن یونٹ ایک ایک کر کے بند ہوتے رہے مگر ٹیکنیشن نقص پر قابو نہ پا سکے۔ یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ حکومتیں آبادی میں اضافے اور نئی نئی آبادیاں، صنعتیں اور تعمیراتی کام ہونے سے بجلی کی طلب بڑھ جانے کے باعث اس کی پیداوار میں اضافے کی کوششیں کرتی رہی ہیں مگرتقسیم کے نظام پر پوری طرح توجہ نہیں دی گئی۔ ٹرانسمیشن لائنیں فرسودہ اور ازکار رفتہ ہیں جب تک انہیں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نہیں بنایا جاتا اس طرح کے حادثوں کی روک تھام ممکن نہیں۔ وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر خان نے دعویٰ کیا ہے کہ قومی گرڈ خوش قسمتی سے محفوظ رہا۔ وولٹیج میں کمی بیشی سے بجلی کا تعطل ہوا مگر کوئی نقصان نہیں ہوا۔ وہ درست کہتے ہوں گے مگر اس کی کیا تاویل پیش کی جائے گی کہ صرف لاہور میں ساڑھے پانچ سو ٹیوب ویل بجلی نہ ہونے سے بند ہو گئے اور شہر کو پانی نہیں مل سکا پھر یہ صرف لاہور شہر کی بات نہیں کراچی ، حیدر آباد، راولپنڈی ، پشاور ، کوئٹہ اور سیکڑوں دوسرے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کا بھی المیہ ہے جہاں زندگی کے دوسرے کاروبار معطل ہونے کے علاوہ لوگ پینے کے پانی سے بھی محروم ہو گئے ۔ بجلی کی تقسیم کا نظام درست نہ ہونے کے سبب پاور بریک ڈائون بار بار ہو رہے ہیں بجلی کا شعبہ گردشی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ طلب بڑھ رہی ہے جبکہ رسد کم ہونے سے لوڈشیڈنگ کا عذاب جاری ہے۔ حکام ان مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم کی مقرر کردہ کمیٹی پیر کے بریک ڈائون کی تحقیقات سے آگے بڑھ کر پورے نظام کا جائزہ لے۔

تازہ ترین