• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا کو بڑھتے وفاقی قرضہ جات سے ڈیفالٹ کا خطرہ، دنیا کیلئے ٹائم بم

کراچی (نیوز ڈیسک) بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں نے ملکی معیشت کو ناہموار راستوں پر ڈال دیا ہے، اب ملک کو نہ صرف کثیر الجہتی مسائل کا سامنا ہے بلکہ 40؍ سال میں سب سے زیادہ شرح سوُد کے ساتھ زبردست مہنگائی کے جن سے بھی نمٹنے کا چیلنج بھی ہے۔ صرف یہی نہیں، ملک کو مسلسل دوسری سہ ماہ میں بھی تکنیکی کساد بازاری کا سامنا ہے جبکہ 4؍ اکتوبر سے لیکر اب تک ملک کو 31؍ ہزار کھرب (31؍ ٹریلین) ڈالرز کے وفاقی قرضہ جات کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔ ڈیفالٹ کا یہ خطرہ امریکا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک ایسا ٹائم بم ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق، تاریخ میں پہلی مرتبہ، امریکا کے سرکاری قرضہ جات 31؍ ٹریلین ڈالر سے بڑھ چکے ہیں۔ صرف گزشتہ 8؍ ماہ کے دوران ملکی قرضہ جات میں ایک ٹریلین ڈالرز کا اضافہ ہوا۔ ملکی قانون کے تحت حکومت کی جانب سے قرضے لینے کی بالائی حد 31.4؍ ٹریلین ڈالرز ہے جو کانگریس نے بائیڈن انتظامیہ کیلئے 2023ء کے اوائل میں مقرر کی تھی۔ جنوری 2009ء میں باراک اوباما کے عہدہ سنبھالنے سے لیکر اب تک امریکی حکومت کی جانب سے قرض لینے کا سلسلہ بڑھتا رہا ہے۔ 2009ء کے اوائل میں یہ قرضہ جات 10.6؍ ٹریلین ڈالرز تھا۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017ء میں عہدہ سنبھالا تھا اس وقت قرضہ جات کی یہ حد 19.9؍ ٹریلین ڈالرز تک پہنچ چکی تھی اور جب بائیڈن نے جنوری 2021ء میں عہدہ سنبھالا تو انہیں ورثے میں 27.8؍ ٹریلین ڈالرز کا قرضہ ملا۔ غالب امکان ہے کہ 2030ء تک امریکا کا قومی سطح پر قرض 50؍ ٹریلین تک جا پہنچے گا۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جاپان کی طرح امریکا تیزی سے مقروض معیشت بنتا جا رہا ہے اور ملک کا قومی قرضہ اب گزشتہ سال کی جی ڈی پی کا 140؍ فیصد ہو چکا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ امریکا بھی جاپان کی طرح دو دہائیوں تک کمزور معیشت کا سامنا کرے گا، لیکن امریکا کا اتنی تیزی سے بڑھتا سرکاری قرضہ پالیسی سازوں کیلئے یقیناً مسائل پیدا کرے گا، جبکہ عالمی سطح پر زر مبادلہ کے ذخائر میں ڈالر کی اہمیت میں کمی کی وجہ سے لامحالہ عالمی معیشت میں ڈالر کی اہمیت کو مزید کم ہوگی۔ حالات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں، مہنگائی کی شرح اب تک 8؍ فیصد ہے۔ فیڈرل یو ایس ریزرو (مرکزی بینک) نے شرح سوُد میں مزید اضافے کا عندیہ دیا ہے تاکہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اضافی شرح سوُد کا مطلب امریکی حکومت کو قرضوں کی مد میں مزید سوُد ادا کرنا ہوگا، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکا اپنے قرضہ جات اور ان کے ساتھ جڑے بھاری سوُد کی ادائیگی کر پائے گا یا نہیں۔ جیسے جیسے امریکی ٹریژری بانڈز پر سوُد بڑھے گا، امریکی حکومت کیلئے قرضہ لینے کے اخراجات (سود) میں بھی اضافہ ہوگا۔ دو سال قبل یعنی 2020ء میں دیکھا جائے تو امریکا کورونا کے دور میں سستی شرح سوُد پر قرضہ لینے میں کامیاب ہوا تھا کیونکہ اس وقت شرح سوُد تاریخی سطح پر کم ترین تھی۔ اب ٹریژری بانڈز پر شرح سوُد بڑھ کر تقریباً 4؍ فیصد ہو چکی ہے جس کا مطلب ہے کہ امریکا کو صرف رواں سال میں سوُد کی مد میں 100؍ ارب ڈالرز ادا کرنا ہیں۔ مئی میں کانگریس کے بجٹ آفس (سی بی او) نے تخمینہ لگایا تھا کہ امریکا کیلئے سوُد کی مد میں ادائیگی کے اخراجات سالانہ بنیادوں پر بڑھ کر صرف رواں سال کیلئے 399؍ ارب ڈالرز ہو جائیں گے اور 2032ء تک یہ بڑھ کر 1200؍ ارب یعنی 1.2؍ ٹریلین ڈالرز ہو جائیں گے۔ اس وقت امریکا کو درپیش طویل المدت مالی چیلنجز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 2008 اور 2009ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے امریکی حکومت نے اپنی فوج اور صحت کے شعبے پر شاہانہ اخراجات، دیکھ بھال اور سماجی بہبود کے دیگر منصوبوں اور نسبتاً تیز رفتار اقتصادی ترقی کو برقرار رکھنے کیلئے ملکی و غیر ملکی سطح پر بھاری قرضہ جات لیے۔ تاہم، کورونا کی وبا سے قبل اخراجات اور آمدنی کے درمیان ڈھانچہ جاتی سطح پر جو عدم توازن موجود تھا وہ اب شدت اختیار کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا کے وفاقی سطح پر قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔اگر امریکا کاقومی قرضہ 50 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر جاتا ہے، جب کہ اس کی جی ڈی پی تقریباً 25 ٹریلین ڈالر تک رہی تو امریکا جیسی دنیا کی سب سے بڑی معیشت واقعی ایک بڑی مصیبت میں پھنس جائے گی۔ اس سال امریکی جی ڈی پی پچھلے سال کے اعداد و شمار کے مقابلے میں مساوی رہنے کا تخمینہ ہے۔ 2023 اور 2024 میں اس میں کمی آ سکتی ہے کیونکہ اس میں مرکزی بینک کی جانب سے نافذ کی گئی بھاری شرح سوُد کے نتائج بھی شامل ہوں گے، اس کے علاوہ ٹرمپ کی چین کے ساتھ شروع کی گئی ٹیرف کی جنگ اور بائیڈن کی طرف سے چین کے ساتھ شروع کی گئی سیمی کنڈکٹرز (چپ) کی لڑائی امریکا کی معاشی ترقی کے امکانات کو مزید سست کر دے گی۔ اور، آئندہ مہینوں میں مزید قرضہ جات کے حصول کیلئے حکومت اور کانگریس کے درمیان کیپیٹول ہل میں گرما گرم بحث اور لڑائی کا امکان ہے، وفاقی حکومت دفاع، انفراسٹرکچر، تعلیم، طبی دیکھ بھال، بزرگوں کی پنشن اور دیگر اخراجات کیلئے مزید قرض لینے پر مجبور ہوگی۔ کئی برسوں سے، ریپبلکن اور ڈیموکریٹک صدور نے بجٹ کے بارے میں سخت فیصلے کرنے سے گریز اور اسے پائیداری کی جانب لیجانے میں ناکام رہے ہیں۔ قومی قرضوں بڑھتے بوجھ کا شکار معیشت کے ساتھ، امریکی پالیسی سازوں کو جلد ہی اندازہ ہو جائے گا کہ کس تیزی کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک ڈالر کو اپنے زر مبادلہ کے ذخائر میں محفوظ سمجھنے کا خیال دھندلا پڑ رہا ہے، امریکا کا بڑھتا بجٹ خسارہ فطری طور پر واشنگٹن کی قرض واپس کرنے کی صلاحیت کے بارے میں خدشات کو جنم دے گا۔ اگر امریکی حکومت مزید ٹریژری بانڈز فروخت کرتی رہتی ہے یا مزید ڈالر چھاپتی رہی تو سرمایہ کار احتیاط برتیں گے اور سرکاری بانڈز خریدنے سے گریز کریں گے۔ پچھلے کئی برسوں میں، دنیا کے مختلف ملکوں کے مرکزی بینکوں نے اپنے ذخائر میں ڈالر کی سطح کو کم کرنا شروع کر دیا ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد اگر ایک مرتبہ مجروح ہوا یا امریکی حکومت صرف ایک دن کیلئے بھی ڈیفالٹ ہوئی تو کئی ممالک اپنی معیشت سے ڈالر کو کم کرنے کی دوڑ میں شامل ہو جائیں گے۔

اہم خبریں سے مزید