• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

شائستہ صنم، بلوچستان اور شوبز کی پہچان ہیں۔نہایت مشکل، کٹھن ترین حالات میں بھی اپنے شعبے سے وابستہ رہیں، جو ان کے باہمّت اور جرأت مند ہونے کی دلیل ہے۔والدین کے انتقال کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی نگہہ داشت اور تعلیم و تربیت کی ذمّے داری بھی بطریقِ احسن پوری کی، اُنہیں کبھی ماں، باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ وہ صرف ڈراموں ہی میں نہیں، عام زندگی میں بھی ایک مثالی شخصیت کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں اُن کے فنی کیرئیر اور ذاتی زندگی پر تفصیل سے بات چیت ہوئی۔ نشست کا احوال جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنے ابتدائی حالات، خاندان اور تعلیم سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: بنیادی طور پر ہم سدو زئی پٹھان ہیں اور ہمارا تعلق کشمیر سے ہے۔ ہمارے بزرگ افغانستان سے نقل مکانی کرکے وہاں آباد ہوئے تھے، بعد میں وہ حصولِ معاش کے سلسلے میں کوئٹہ آ گئے۔ میرے والد، محمّد انور کسٹم میں ملازم تھے، جب کہ والدہ کا تعلق ژوب کے جوگیزئی خاندان سے تھا اور وہ بھی کسٹم میں ملازم تھیں۔ مَیں نے کوئٹہ میں جنم لیا۔ ماڈل اسکول چمن پھاٹک، کوئٹہ سے میٹرک، گورنمنٹ گرلز کالج، کوئٹہ سے بی اے اور بلوچستان یونی ورسٹی سے ایم اے سوشل ورک کی ڈگری حاصل کی۔ ہم چار بہن بھائی ہیں۔

س: بچپن میں کیا بننے کی خواہش تھی؟

ج: اپنی خواہش تو یاد نہیں، گھر والوں کا اصرار تھا کہ مَیں ڈاکٹر بنوں، لیکن والد کے انتقال سے سارے خواب ادھورے رہ گئے۔ مختلف پریشانیوں کے باعث تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگئی اور پھر جیسے تیسے کرکے آرٹس ہی میں تعلیم مکمل کی۔

س: فنِ اداکاری سے کیسے وابستہ ہوئیں؟

ج: مَیں تو بہت ہی سادہ اور شرمیلی سی تھی۔ اسکول میں ٹیچر سبق سُنانے کے لیے کھڑا کرتیں، تو ٹانگیں کانپنا شروع ہوجاتیں اور منہ سے آواز تک نہ نکل پاتی۔یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب مَیں کالج میں پڑھ رہی تھی۔ ٹی وی پروڈیوسر، سجّاد احمد سے ہمارے گھریلو مراسم تھے، تو ہمارے کزنز نے ایک روز اُن سے ٹی وی اسٹیشن دیکھنے کی خواہش کی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب پی ٹی وی کے ڈراموں کا بڑا چرچا تھا۔ خیر، ہم پروگرام کے مطابق اُن کے ساتھ ٹی وی اسٹیشن گئے۔

وہاں پروگرام منیجر، نواز مگسی کے کمرے میں تھے کہ اُن کی نظر بحیثیت ایک ٹیلنٹ ہنٹ پروڈیوسر مجھ پر پڑی۔ اُنہوں نے مجھے ڈراموں میں کام کرنے کی پیش کش کی،جس پر میرے منہ سے فوراً نکلا’’ نہ… با…با… نہ …!‘‘ جس پر سب نے زورداد قہقہہ لگایا۔ بہرحال، وہاں کسی ڈرامے کا ایک سین شُوٹ ہورہا تھا، جو ایک گھریلو فنکشن کا تھا۔ ہمیں بھی وہاں بیٹھنے کے لے کہا گیا،تو ہم بیٹھ گئے۔ 

ریکارڈنگ ہوگئی اور ہم گھوم گھام کے گھر آگئے۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ پروڈیوسر کی ایک چال تھی، وہ دراصل میری اپیئرینس دیکھنا چاہتے تھے۔ بعد میں اچانک ایک دن سجّاد صاحب گھر پہنچے اور امّی سے ایک ڈرامے میں میرے کردار کے متعلق بات کی، جس پر امّی نے فوراً انکار کر دیا۔تاہم، کافی بحث مباحثے کے بعد امّی مان ہی گئیں، لیکن میرا خوف باقی تھا، مگر اُنہوں نے کسی نہ کسی طرح مجھے بھی منالیا۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… ( عکّاسی:رابرٹ جیمس)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… ( عکّاسی:رابرٹ جیمس) 

س: آپ کا پہلا ڈراما کون سا تھا؟

ج: مجھے پہلی بار ڈاکٹر تاج رئیسانی کے تحریر کردہ ڈرامے’’ نا خدا‘‘ میں کاسٹ کیا گیا اور میرے مقابل مشہور اداکار، حسّام قاضی تھے۔مَیں پہلے ہی اُن کی شخصیت کے سامنے دَبی ہوئی سی تھی۔پھر جب کیمرے کے سامنے آئے، تو مجھ سے ڈائیلاگ ہی نہیں بولے جارہے تھے۔ پہلے تو سب نے سمجھایا اور پھر ڈانٹنے لگے،جس پر مَیں نے رونا شروع کردیا کہ مَیں ابّو کی بہت لاڈلی تھی۔تو پھر اُنہوں نے مجھ پر کچھ تیکنیکس استعمال کیں، اِس طرح ایک دو روز بعد مَیں نے آہستہ آہستہ خود کو اداکارہ محسوس کرنا شروع کردیا۔

س: ڈرامے کے نشر ہونے پر لوگوں کا کیا ردِ عمل تھا؟

ج: ڈراما آن ایئر ہوا، تو خاندان اور محلّے والوں نے جینا حرام کر دیا۔ آپ اندازہ کریں کہ بائیس سال پہلے ہمارا ماحول کیسا ہوگا کہ جب اکثر لوگ لڑکیوں کی تعلیم تک کو پسند نہیں کرتے تھے،کجا ڈراموں میں کام کرنا۔ اگر دیکھا جائے تو لوگوں کی مخالفت بھی بجا ہی تھی کہ اُس وقت ایسے فیصلے آسانی سے قبول نہیں کیے جاتے تھے۔

میری والدہ کو بھی کڑی مشکلات سے گزرنا پڑا، لیکن وہ بہت باہمّت ثابت ہوئیں اور میرا بھرپور ساتھ دیا۔کچھ دنوں کے بعد مَیں نے دوسرا ڈراما، پروڈیوسر ناہید حسن زیدی کے ساتھ کیا، جو کراچی سے آئی تھیں۔ ڈرامے کا نام تھا’’ کسے وکیل کریں۔‘‘ اِسی دَوران میری والدہ کا انتقال ہوگیا، تو پھر کام کرنا میری مجبوری بھی بن گیا، کیوں کہ بہن بھائی چھوٹے تھے اور مجھے اُن کی کفالت کرنی تھی۔

س: پھر تو زیادہ مسائل درپیش ہوں گے؟

ج: جی بالکل! چوں کہ ایک چیلنجنگ صُورتِ حال تھی۔مَیں نے سرکاری ملازمت اختیار کرنے کا بھی سوچا، مگر پھر ٹی وی پر مسلسل کام کر کے سرکاری ملازمت کا خیال دِل و دماغ سے اُتر گیا۔ بیش تر پروڈیوسر بہت اچھے تھے اور وہ ٹیم میں شامل افراد کا خیال رکھتے، جیسا کہ میری مجبوریوں کے پیشِ نظر میری شوٹنگ کا وقت دن میں مقرّر کیا جاتا، حالاں کہ اُن دنوں مجھے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے بیک وقت کئی کئی ڈراموں میں کام کرنا پڑ رہا تھا۔ سچ پوچھیں، تو مَیں نیند کو بھی ترستی تھی۔

س: کیا اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے ڈراموں میں بھی کام کیا ؟

ج: جی ہاں، کئی زبانوں کے ڈراموں میں کام کیا۔ہم گھر میں اُردو بولتے تھے کہ ابّو اور امّی کے درمیان رابطے کی یہی زبان تھی، لیکن جب مجھے بلوچی، پشتو اور براہوی زبان کے ڈراموں میں کاسٹ کیا جاتا، تو ڈائیلاگز رومن میں لکھ کے دئیے جاتے۔ اِن زبانوں سے میری شُد بُد تو تھی، بس صرف بولنے کا مسئلہ تھا۔ ویسے ہمارے رشتے داروں میں یہ سب زبانیں بولنے والے شامل ہیں۔

س: کوئٹہ سے باہر بھی کام کیا؟

ج: فیصل بخاری کے ڈراموں’’ جلتا سمندر‘‘ اور ’’ گھرانہ ‘‘ میں کوئٹہ سے باہر کام کیا، جن میں حسّام قاضی، ایّوب کھوسہ، نشو بیگم اور عدنان صدیقی وغیرہ تھے۔اِسی طرح جیو ٹی وی کے لیے’’ دُوریاں ‘‘ ڈراما سیریل کیا، جو دبئی میں شُوٹ ہوا۔ اس میں ہمایوں سعید اور سعدیہ امام ساتھ تھے۔ ’’مَیں بنی دلہن‘‘ عابد علی کے ساتھ ایک سو اقساط کا سوپ بھی کیا۔

س: پھر ایک طویل وقفہ آگیا…کیوں؟

ج: جی، جی۔ مَیں نے شادی کرلی اور کچھ عرصے کے لیے ڈراموں سے دُور ہوگئی۔ 2007ء تک مَیں شہرت کی بلندیوں پر تھی۔ زیادہ تر ڈرامے کراچی میں ہورہے تھے، اِس لیے ہم نے وہاں ایک فلیٹ لے لیا تھا،مگر اِس دَوران گھریلو مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے۔ پاکستان سے باہر اور زیادہ ڈراموں میں کام کرنے پر اعتراضات پیدا ہوئے۔ بہت کوشش کی کہ ازدواجی زندگی متاثر نہ ہو، مگر گھر سنبھالتے سنبھالتے تھک گئی اور آخر کار علیٰحدگی ہوگئی۔

س: شوبز میں ایسے واقعات کثرت سے کیوں ہوتے ہیں؟

ج: دراصل فن کاروں کو غلط فہمیاں لے ڈوبتی ہیں، حالاں کہ اُن سے شادی کرنے والوں کو پتا ہوتا ہے کہ اِس شعبے میں کچھ زیادہ ہی مصروفیات ہوتی ہیں۔ پھر بھی نہ جانے کیوں لوگ اپنے وعدے بھول جاتے ہیں یا پھر اُنہیں آگے چل کرآنے والے چیلنجز کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ شُکر ہے، میرا کبھی کوئی اسکینڈل نہیں بنا، بس گھریلو معاملات پیچیدہ ہوگئے، جس کا واحد حل علیٰحدگی ہی تھی۔ اِس طرح میں کراچی اور اسلام آباد میں کچھ عرصہ رہنے اور کام کرنے کے بعد واپس کوئٹہ آگئی۔

س: کیا محض ڈراموں میں کام کرکے گھر کا چولھا جلتا ہے؟

ج: جو زیادہ کام کرتے ہیں یا پرائیویٹ پروڈکشنز کا حصّہ ہیں، وہ تو مالی تنگی محسوس نہیں کرتے۔ البتہ، پرائیویٹ کے مقابلے میں پی ٹی وی کا فیس اسٹرکچر بہت کم ہے، بلکہ اب تو پی ٹی وی میں کام ہی نہیں ہے۔ دو، دو سال تک اسٹوڈیوز پر تالے پڑے رہتے ہیں۔ عید تہوار یا کسی خاص موقعے پر کوئی ایک آدھ ڈراما بن جاتا ہے۔نیز، اِس وقت بھائی برسرِ روزگار ہے، اِس لیے بھی مجھے کوئی خاص مالی مسئلہ نہیں۔بس کبھی کبھار ایک آدھ ڈراما کرلیتی ہوں تاکہ اپنے اندر کے فن کار کو مرنے سے بچا سکوں۔

س: آپ نے اداکاروں، فن کاروں کی ایک تنظیم بھی تو بنا رکھی ہے؟

ج: انصاف آرٹسٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نام سے تنظیم بنائی ہے، جس کی مَیں چیئر پرسن ہوں۔فن کاروں کو در بدر کی ٹھوکریں کھاتے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ ٹی وی، ریڈیو پر کام نہیں۔ کورونا وَبا نے بھی بے شمار مسائل جنم دئیے۔فن کاروں کے لیے آنے والے فنڈز کی تقسیم میں طرح طرح کی رکاوٹیں تھیں۔ باقی صوبوں کے فن کاروں نے تو کورونا کے دنوں میں اپنے حصّے کی امداد وصول کرلی، لیکن کوئٹہ کے فن کاروں کو یہ رقم دینے میں لیت و لعل سے کام لیا جارہا تھا، جب کہ امداد کا سُن کر غیر فن کار بھی فہرستوں میں شامل ہوگئے تھے۔ بات عدالت تک گئی اور پھر بڑی مشکل سے امدادی رقم تقسیم ہوئی۔ اس کے بعد صوبائی حکومت نے فن کاروں کے لیے ماہانہ اعزازیہ مقرّر کیا، مگر اس میں بھی مشکلات پیدا کی گئیں۔ہم نے بار ہا محکمۂ ثقافت، حکومتِ بلوچستان سے گزارش کی کہ فن کاروں کے لیے باعزّت کام کے مواقع پیدا کیے جائیں اور اُنہیں مناسب معاوضہ دیا جائے تاکہ اُن کی عزّتِ نفس مجروح نہ ہو، لیکن حکومت اور محکمۂ ثقافت کی جانب سے اِس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی۔

س: اِن سرگرمیوں کے سبب کچھ مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہوگا اور آپ کے مطالبات کیا ہیں؟

ج: ہاں کئی لوگ ناراض ہوئے اور اُن میں زیادہ تر وہی تھے، جو خود کو زبردستی فن کاروں کی صف میں شامل کروانا چاہتے تھے۔پھر جب محکمۂ ثقافت کے افسران کو ان کی ذمّے داریوں کا احساس دِلاتے ہیں، تو وہ بھی بُرا مان جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں۔کبھی بولان کی پہاڑیوں کی طرف جائیں، تو بے شمار خود رو پھول نظر آئیں گے، اِسی طرح یہاں کے فن کار بھی خود رَو ہیں۔ اُنھیں صرف تعاون اور ساز گار ماحول چاہیے۔

اِس ضمن میں بلوچستان آرٹس کاؤنسل کی فعالیت بے حد ضروری ہے ۔ اِس مقصد کے لیے قائم آڈیٹوریمز میں پروگرام منعقد ہوں۔ ریڈیو، ٹی وی سے سیاسی دبائو کا خاتمہ کیا جائے۔ معاشی استحکام کی راہیں کھولنے کے لیے تخلیقی ہنر مندوں کو یک جا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اِس وقت بھی کوئٹہ کے بے شمار آرٹسٹ کراچی اور دیگر شہروں میں قابلِ قدر کام کر رہے ہیں، تو آخر وہ دوسرے شہروں میں کب تک مشکلات سہتے رہیں گے۔

س: کبھی کوئی کردار نبھاتے ہوئے مشکل پیش آئی؟

ج: خالد احمد کی ایک ٹیلی فلم تھی، جسے ڈاکٹر شرجیل نے لکھا تھا۔ اُس میں ایک نابینا ہندو لڑکی کا کردار تھا اور مجھے پوری فلم کی تیاری کے دوران بس یہی غم کھائے جا رہا تھا کہ کسی سے اگر اُس کی بصارت اچانک چھین لی جائے، تو اُسے کیسا لگے گا۔ اِسی طرح ایک ڈرامے میں مجھے رونا تھا اور مجھ سے رویا نہیں جا رہا تھا، تو کسی نے آواز دی’’ ابّو کی لاڈلی‘‘ اور مجھے فوراً ابّو یاد آگئے، بس اس کے بعد تو میری ہچکیاں بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔

س: کس اداکار یا اداکارہ سے متاثر ہیں؟

ج: جیو کے ایک ڈرامے’’ محبّت خواب کی صُورت ‘‘ میں، جسے امجد اسلام امجد نے تحریر کیا تھا، بھارتی اداکارہ، پونم ڈھلون نے میری ساس کا کردار کیا تھا۔ وہ ایسی شفیق، پیاری اداکارہ ہیں کہ اُن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُسی ڈرامے میں ہماری اپنی ایک اداکارہ کا بھی کردار تھا، مگر اُن سے بات تک کرنا مشکل تھا،وہ بہت ہی مغرور، گھمنڈی ہیں۔ دوسری بڑی اداکارہ عظمیٰ گیلانی ہیں، اُن کے ساتھ کام کرتے ہوئے احساس ہوا کہ کلچرڈ خواتین کیسی ہوتی ہیں۔ اُن سے بھی مَیں نے بہت کچھ سیکھا۔

س: آپ کا یاد گار ڈراما کون سا ہے؟

ج: ’’ سمو بیلی۔‘‘یہ دراصل ایک رومانی داستان ہے، جسے آصف جہانگیر نے ڈرامے کے قالب میں ڈھالا اور عطاء اللہ بلوچ اُس کے پروڈیوسر تھے۔ سمو کا کردار انتہائی مشکل تھا، جس کے لیے مجھے بہت محنت کرنی پڑی،مگر لوگوں نے یہ کردار بے حد پسند بھی کیا۔

س: کوئی ایسا واقعہ، جو بُھلائے نہیں بُھولتا ہو؟

ج: ہم گوادر میں ڈراما’’آئی گئی بہار‘‘ شُوٹ کر رہے تھے۔ مجھے گہرے پانی میں کھڑے بحری جہاز میں رسیوں کے سہارے پہنچنا تھا، مگر پائوں ٹھیک سے نہ ٹِکنے پر مَیں سمندر میں گر گئی۔ پھر کیمرا مین، احمد حسین نے کمال مہارت سے مجھے چُٹیا سے پکڑ کر پانی سے نکالا۔ یوں سمجھیں کہ مَیں نے موت انتہائی قریب سے دیکھی تھی۔ اُس واقعے کے بعد پانی سے بہت ڈرتی ہوں۔

س: آج کل کیا مصروفیات ہیں؟

ج: اِن دنوں پی ٹی وی کوئٹہ مرکز سے دو سیریلز میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہوں۔ براہوی سیریل’’ شینک‘‘ کے پروڈیوسر لیاقت بادینی ہیں، جب کہ بلوچی سیریل’’ صبا‘‘ جاوید شاہ پروڈیوس کر رہے ہیں۔’’ صبا‘‘ کی ریکارڈنگ بلوچستان کے کئی مقامات پر ہو رہی ہے، جب کہ آخری قسط کی ریکارڈنگ کراچی میں ہوگی۔ اس میں ایّوب کھوسہ بھی ہوں گے، جو کافی عرصے بعد کسی بلوچی سیریل میں کام کررہے ہیں۔ یہ گھر سے بھاگی ہوئی ایک لڑکی کی کہانی ہے، جو پناہ کے لیے شہر شہر، گائوں گائوں جاتی ہے۔

س: خود کو فِٹ رکھنے کے لیے کیا کرتی ہیں؟

ج: مَیں جِم جاتی ہوں، نہ پارلر اور نہ ہی ڈائٹنگ وغیرہ کے جھنجٹ میں پڑتی ہوں۔ بس زیادہ سے زیادہ خوش رہنے کی کوشش کرتی ہوں اور روز مرّہ مصروفیات بھی ایسی رکھی ہیں، جن سے خوش رہوں۔ مثلاً کتابیں پڑھتی ہوں، لیپ ٹاپ پر اچھی فلمز دیکھتی ہوں، بہن بھائیوں سے ہنسی مذاق کرتی ہوں، اچھے لوگوں کی آپ بیتیاں پڑھتی ہوں اور دوستوں کے قریب رہتی ہوں۔ سب سے بڑی بات، گھریلو ذمّے داریوں کا بھرپور خیال رکھتی ہوں۔

س: کھانے میں کیا پسند ہے؟

ج: کوئٹہ والوں کی طرح گوشت خور ہوں۔ ویسے گھر کے پکے سب ہی کھانے شوق سے کھاتی ہوں۔

س: کس خوش بُو اور رنگ سے دوستی ہے ؟

ج: زیادہ خوش بُو لگانے سے سَر میں درد ہو جاتا ہے،ہلکی پُھلکی خُوش بُو لگا لیتی ہوں۔اور رنگ نہ جانے کیوں مجھے سیاہ بہت پسند ہے۔ ویسے لوگ بھی کہتے ہیں کہ’’ سیاہ رنگ میں آپ کی شخصیت زیادہ اُبھرتی ہے۔‘‘

س: کل اور آج کے ماحول میں کیا فرق محسوس کرتی ہیں؟

ج: آج تو بھئی مَیں گاڑی ڈرائیو کرتی ہوں۔ اب تو کوئٹہ کا ماحول بھی خاصا ماڈرن ہوگیا ہے۔ آج بھی ہر شخص اپنی روایات کے مطابق خواتین کا احترام کرتا ہے تو اللہ کا شکر ہے، اب شوبز انڈسٹری سے وابستگی کو بُرا نہیں سمجھا جاتا۔