• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ سانحہ پشاور کی گونج تھمنے میں نہیں، آج IG کے پی کی پریس کانفرنس میں سانحہ پر سازشی تھیوری پھیلانے ، پولیس کو بغاوت پر اُکسانے،سوشل میڈیا مہم چلانے والوں پر غم و غصہ کا اظہار بنتا تھا ۔ عمران خان نے سانحہ کو الیکشن ملتوی کرنے کی سازش قرار دیا ۔دبے الفاظ میں اداروں پر الزام لگا یا ۔ بے شک، کاروبار سیاست میں دہشتگردی یا معاشی بحران آسودگی ہے ۔

گو’’نیا پاکستان‘‘اسٹیبلشمنٹ کااسکرپٹ، عمران خان کا مشن، پُرانے پاکستان کو مسمار کرنا تھا۔ آج جبکہ پُرانا پاکستان مسمار ہونے کو، ہر شہری سوالی، کیا ہونے ،بننے کو ہے؟عمران خان کی پچھلے سال جنوری کی تقریر،’’اقتدار سے نکالا تو میں ـ خطرناک ہو جاؤں گا‘‘۔ اِسی تگ و دو میں اپنے اقتدارکے آخری دوماہ اُکھاڑ پچھاڑ میں لگا دئیے ۔ اپنی مقبولیت کو ملکی عدم استحکام اورمعاشی ابتری سے نتھی رکھا۔ آخری دنوں IMF معاہدہ توڑنا ، پٹرول کی قیمت میں کمی کہ بارودی سُرنگ بچھ جائے۔آنے والے دنوں میں مراسلہ کے ساتھ ساتھ موصوف نے اس پر بھی کھیلنا تھا۔

2018 میں’’پروجیکٹ نیا پاکستان ‘‘نافذ ہوا تو آغاز ہی بھیانک تھا۔ پاکستان کو استحکام ، خوشحالی ، امن و آشتی کا گہوارہ بنانے والا منصوبہ سی پیک پہلے ہلے میں دفنانا پڑا۔ سی پیک رُخصت ہوا ،معلوم تھا حالات بدترہونگے۔ فوج میں نئے چیف کی تعیناتی مملکت پر ہمیشہ بھاری گزرتی ہے ۔ نواز شریف توسیع نہ دینے پر مشہور اور ہمیشہ سے یکسو ۔نوازشریف کی بیخ کنی ضروری، ملک بکھر گیا۔ عمران خان نے آخری دنوں اقتدار جاتے دیکھا تو بدلہ لینے کا منصوبہ بنایا۔ آج لانے والوں کے چاروں طبق روشن ہو چکے ۔

25 مئی دوحہ قطر میں IMF نے جیسے ہی نئی حکومت سے ابتدائی مذاکرات شروع کئے ۔ اسلام آباد پر مع 30 لاکھ نفوس یلغار کا اعلان کر دیا تاکہ IMF کے مذکرات نہ ہو پائیں۔ امن عامہ تہہ و بالا کرکے گرتی معیشت کو مزید ضعف پہنچانا مقصد تھا۔ وطنی خوش قسمتی کہ عبرت ناک ناکامی ہوئی۔ بعدازاں شوکت ترین کا پنجاب اور KPK کے وزرائے خزانہ کو فون کر کےIMF پروگرام میں روڑے اٹکانا اسی سلسلہ کی کڑی تھی۔عزم بالجزم ایک ہی، ریاست کو راندہ درگاہ بنانا تھا۔سری لنکا کے ڈیفالٹ اور دیوالیہ نے حوصلے بڑھا رکھے تھے۔ عمران خان کو معلوم تھا اور ہے، ایک دفعہ ملک دیوالیہ ہوا تو’’ محبوب ‘‘دوبارہ میرے قدموں میں ہوگا ۔ملک اندر عسکری اداروں کے خلاف دہشتگردی اور دوسرے مسائل بڑھنے لگے۔ لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثہ یا حالیہ سانحہ پشاور، کہیں بھی شہدا اور لواحقین کو نہ بخشا گیا۔ سازشی تھیوریوں اور بغاوت پر اُکسانے کیلئے اثر و رسوخ استعمال کیا۔ سوشل میڈیا پر تضحیک آمیز پوسٹس وائرل کیں۔ قانون نافذ کرنے والوں میں غم صدمہ اور غصہ پھیلا ۔اِسی سوشل میڈیانے پاکستان کے ڈیفالٹ اور گرتی معیشت پر بھی بہیمانہ پروپیگنڈہ میں وقفہ نہ رکھا۔ لوگوں کا حوصلہ پست رکھنے میں ہر حربہ استعمال ہوا۔

اصل خرابی جنرل باجوہ کی دوعملی نے پیدا کی۔ اپنی توسیع مدت ملازمت کیلئے کسی اورمار پر تھے ۔جنرل باجوہ نے29 نومبرکا دن اپنے اعصاب پر سواررکھا۔ اتحادی حکومت کو سات ماہ عمران خان کا حساب کتاب کرنے سے روکا کہ عمران خان کی غیر موجودگی اتحادی حکومت کو غیر معمولی طاقت نہ دے ،وگرنہ توسیع مدت ملازمت مشکل ہو جاتی۔

حیرت کہ بالآخر عمران خان بھی جنرل باجوہ کو توسیع دینے پر آمادہ ہو گیا۔ وطنی تاریخ گواہ اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لینے والوں نے رفعتیں پائیں ۔ عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ نے اُسکو چار چاند لگانے تھے ، وطنی سیاست گرفت میں آگئی۔

10 اپریل کے فوراً بعد تادیبی اقدامات ہوتے تو شاید عمران کی سیاست بِن کھلے مرجھا جاتی۔ پچھلے سال عمران خان کے بیانیہ پر ISPR کی پریس کانفرنس ہوئی ۔ اگرچہ آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ ، الیکشن کمیشن میں مقدمات ، دوسری عدالتوں میں کچھ مقدمات، مگر یہ سب کچھ بہت تھوڑا اورہمیشہ تاخیر سے تھا۔

عمران خان کا کاروبارصداقت اور امانت پر استوار ہوا۔’’صاف چلی شفاف چلی، تحریک انصاف چلی‘‘ ، دو دن پہلے ہی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے کچا چھٹا کھول دیا ۔ 2021 اختتام پر 28 پوائنٹس کے ساتھ کرپشن اور بد انتظامی میں ریکارڈ بنایا ۔مسلم لیگ ن نے 2013 میں حکومت سنبھالی توکرپشن انڈیکس پر پاکستان 139 نمبر پر ،4 سال میں 116 پوائنٹ پر لے آئے ۔عمران خان کی صداقت اور امانت اِسے ریکارڈ 144 پوائنٹ پر پہنچا گئی۔نعرہ تھا کیا؟،’’عمران خان حکومت آئے گی کرپشن کا 200 ارب ڈالر واپس لائے گی۔100 ارب ڈالرقرضہ اُتارے گی اور 100 ارب ڈالر معیشت میں ڈالے گی‘‘۔ عمران خان کی حکومت آئی 100 ارب ڈالر قرضہ بڑھا گئی ، چار سال میں 100اربخوردبردکر گئی۔ بد ترین کرپشن ، مثالی نااہلی ، سفارتی تنہائی ، معاشرتی بے راہ روی ، معاشی بد حالی میں عمران خان حکومت نے ہر حد ٹاپ لی ۔ تین دن پہلے پشاور واقعہ پر انصاف حکومت کے اپنے لگائے گئے IG نے پشاور میں حفاظتی اقدامات ، سیف سٹی اور فرانزک لیب کی غیر موجودگی ، پولیس کی حالت زارپر غم و غصہ کا اظہارکیا۔ شہباز شریف نے کل ہی انکشاف کیا کہ صرف دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے 417 ارب روپے انصاف حکومت کو ملے ، اس پیسے کا حساب نہیں مل رہا۔لگتا ہے سارا مال صاف شفاف کھا گئی۔

کیسے مان لوں کہ پاکستان کے ساتھ زیادتی کرنے والے مثال نہ بنیں۔ مجھے نہیں معلوم نواز شریف کی نااہلی ، سزا ، قیدوبند ماضی کی وہ کونسی غلطیاں جس کا2018 میں کفارہ ادا ہوا۔ عمران خان کا کاروبار سیاست کل ہی کی بات ، جو کچھ نواز شریف اور ساتھیوں کے بارے میں تجویز کیا ، جو جو انتقامی کارروائیاں ہوئیں، جس چکی کے دو پاٹوں سے نوازشریف کو گزرنا پڑا، آج موصوف اُسی چکی میں خود پسنے کو ۔ مقدمات ، نااہلی ،قیدوبند اور پارٹی سے محرومی سب کچھ عمران خان کے دروازے پر دستک دے ر ہے ہیں۔ مکافات عمل! نوازشریف پر بیتی آج عمران خان کی بیتی ہے۔مکافات عمل اوربھی، اسٹیبلشمنٹ نے جس طرح پاکستانی سیاسی جماعتوں کو بد نام کرنے اور ختم کرنے کیلئے ایک فرینکسٹائن تشکیل دیا ۔ جس طرح عمران خان کو وسائل مہیا رکھے ۔ عمران خان اُسی میڈیا اور سوشل میڈیاکے اسلحہ بارود( ففتھ جنریشن وار فیئر) اور اُنہی کے من پسند صحافیوں کے ذریعہ اپنے لا نے والوں پر حملہ آور ہیں۔ماضی میں ادارے نے جب سارے وسائل عمران خان کو منتقل کئے تو اپنا منظم سوشل میڈیااور اپنے من پسند صحافی بھی حوالے کر دئیے۔ آج بہیمانہ طریقہ سے اُنہی کے اپنے خلاف استعمال میں ۔

مکافات عمل یہ بھی بحیثیت قوم ہمارے اعمال کی سزا کہ ایسے سیاستدان، جرنیل، جج ہمارا مقدر اور نصیب بنے۔ اللہ کی بے آواز لاٹھی بہت ساروں کے خلاف حرکت میں ہے۔ اِس جنگ و جدل میں پاکستان کا مستقبل؟ اللہ ہی جانے، اللہ کو کیا منظور۔

تازہ ترین