اسیری کی صعوبتوں، جہد مسلسل اور جبر کے ماحول میں زندگی کا طویل حصہ گزارنے والے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے علمبردار سید علی گیلانی یکم ستمبر کو 92 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 12 سال تنہائی، نظربندی اور سفاک دشمن کی اسیری میں گزار دیئے۔ ’’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے‘‘ کا نعرہ مستانہ لگانے والے سید علی گیلانی نے اس نعرے کو اپنی شناخت، جذبوں کا اظہار اور آزادی کا استعارہ بنا دیا تھا اور یہ جذبہ آج بھی حریت فکری کی شکل میں پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہے۔ عظیم کشمیری راہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے 5 فروری کے موقعہ پر ان کی ایک یادگار تحریر۔
ریاست جموں وکشمیر سات دہائیوں سے ایک جیل کا روپ دھار چکی ہے ۔ باہر کی دنیا سے رابطہ کرنا تو مشکل ہے ہی ،کسی ادارے یا فرد کا ادھر آنا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے ۔ ہم بند پنجرے میں برسوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ چھ لاکھ افراد شہید کرنے کے بعد بھی دنیا کی نام نہاد’’ جمہوریت ‘‘ کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ قصور صرف یہ ہے کہ ہم اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی آرزو کر رہے ہیں ۔ ہم اس جمہوریت کو اس کے وعدے یا د دلا رہے ہیں اور ان وعدوں کی تکمیل پر اصرار کرتے ہیں۔
اس جرم کی پاداش میں لاکھوں شہید، ہزاروں معذور کر دیے گئے ۔ عفت مآب خواتین کی بے حرمتی کی گئی ، مال و متاع لوٹا گیا ، لاکھوں شہریوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا گیا ،کتنے ایسے ہیں جو جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں ، آزادی کا خواب دیکھنے والی آنکھوں کو بے نور کر دیا گیا ، بے شمار ایسے ہیں جو جرم بے گناہی میں تختہ دار تک پہنچائے گئے مختصراً یہ کہ ریاستی جبر کے ذریعے ہمارے جینے کے تمام راستے بند کر دیے گئے ۔ آپ کے ذرائع ابلاغ میں جو پیش کیا جا رہا ہے یہ اس ظلم کا عشر عشیر بھی نہیں جو اس جنت نظیر خطے کے باسیوں پر ہورہا ہے۔
اس جور کو سب نے دیکھ لیا جو تم نے سر بازار کیا
اس ظلم کو دنیا کیا جانے جو تم نے پس دیوار کیا
تقریباً چھ ماہ تک ہم بد ترین کرفیو کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے گئے اور اب اس ظلم نے صرف شکل بدلی ہے ،بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور جبر تلے زندگی گھٹ کر رہ گئی ہے ۔ ہمارے نوجوان، بچوں ، بوڑھوں اور عفت مآب خواتین نے اس جبر کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیاہے ۔ ہمارے قائدین عقوبت خانوں کی بد ترین صعوبتوں کے باوجود حق خود ارادیت کے لیے ہر قربانی کے لیے ہر دم تیار ہیں۔
بھارتی حکمران اپنے چند درندہ صفت فوجیوں کی ہلاکت کوبھولنے کے لیے تیار نہیں تو جموں وکشمیر کے باغیرت ، با ہمت اور وفا شعار لوگ اپنے چھ لاکھ شہیدوں کے لہو کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ جادو وہ ہو جو سرچڑھ کر بولے کے مصداق سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا کی رپورٹ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ بھارتی ظلم و جبر نے ریاستی عوام سے بالعموم اور نوجوانوں کے دلوں سے بالخصوص موت کا خوف نکال دیا ہے ،ان کا عزم جواں ہے ۔
کٹتے بھی چلو ، بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
ہمارے اوپر بیتنے والے ظلم پر صدائے احتجاج بلند کرنا اگرچہ آپ کا فرض ہے لیکن مجھے امید ہے کہ آپ ہماری آواز کو آزاد دنیا تک پہنچانے میں مزید تعاون کریں گے۔ ہمارے ہاتھ پائوں بندھے ہیں لیکن ہماری زبانیں کوئی بند نہیں کر سکتا۔ ہمارے دلوں سے آزادی کی آرزو کوئی بھی کھرچ نہیں سکتا۔ ہم حق پر ہیں اور یقیناً اﷲ حق والوں کے ساتھ ہے۔ میری آپ سے بھی درخواست ہے کہ آپ حق کا ساتھ دیجیے۔ ہمیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ہماری زندگیوں میں اس خطے کو آزادی ملتی ہے یا نہیں بس اتنا یقین ضرور ہے کہ ایک روز آزادی کا سورج طلوع ہو کر رہے گا۔
ستر سال گزرگئے مزید ستر بھی گزر جائیں تو ہماری نسلیں بھارت کے جبر سے تب بھی بر سر پیکار رہیں گی۔ ہم مسئلہ کشمیر کا پر امن حل چاہتے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ بھارت’’ اٹوٹ انگ ‘‘ کی رٹ چھوڑ دے ، جموں وکشمیر سے فوجی انخلاء اور اقوام متحدہ کی حق خود ارادیت سے متعلق قراردادوں کے نفاذ کے لیے سہ فریقی مذاکرا ت پر آمادگی کا اظہار کرے اور ساز گار ماحول پیدا کرنے کے لیے کالے قوانین کا خاتمہ اورقیدیوں کی رہائی عمل میں لائے۔
بھارت مسلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کے بجائے کشمیریوں کو تحریک کچلنے کے لیے نئے نئے منصوبے بنا رہا ہے۔ ایسے منصوبے ماضی میں بھی ناکام ہوئے اور آئندہ بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ بھارت نے اب کی بار ریاست جموں وکشمیر کا مسلم اکثریتی تشخص ختم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ کشمیری پنڈتوں کے لیے الگ سے ٹاون شپ منصوبہ کشمیریوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کا حربہ ہے ۔مغربی پاکستان سے آئے ہندو شرناتھیوں کو ریاست میں بسانے اور ان کو ریاستی شہریت دینے کا فیصلہ ریاست کے مسلم اکثریتی تشخص پر ایک بڑا حملہ ہے۔
کشمیریوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے اور پنڈتوں کو سماج سے الگ تھلگ کرنے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی۔ پنڈت کشمیری سماج کا حصہ ہیں ،پنڈت برادری کشمیر واپس آئے اور ہمارے ساتھ رہے ، ہم خیر مقدم کریں گے ۔کوئی بھی فرد یا گروہ پنڈتوں کی واپسی کا مخالف نہیں ہے۔ وہ اپنے گھروں کو لوٹ آئیں۔
جموں کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرانے اور مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ اسرائیلی طرز کا ہے۔ جس طرح فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کر کے قبضہ کیا گیا ایسا ہی طریقہ کار بھارت کشمیر میں اپنا رہا ہے ۔ بھارت کے پالیسی سازوں کا اصل ہدف کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی ہے اور وہ ہر ممکن طریقے سے اس کو ناکام بنانے کی کوششیں کررہا ہے ۔ آبادی کے تناسب کو تبدیل کرانے کے منصوبے میں اس لیے جلدی کی جارہی ہے کہ مبادا عالمی برادری کے دباو میں کبھی یہاں رائے شماری کا انعقاد عمل میں لانا پڑے۔
بھارت کے ان منصوبوں کا توڑ کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو کشمیری اپنی سرزمین میں رہ کر بھی اجنبی بن جائیں گے اور ان کے جان ومال کے ساتھ ساتھ ان کی عزت اور شناخت بھی گم ہوکررہ جائے گی۔اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم بھارت کی اس جارحیت کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کریں گے ۔ بھارت اور اس کے حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ جموں وکشمیر نہ کل ان کا حصہ تھا نہ مستقبل میں وہ اس کو ہڑپ کر سکیں گے۔جموں وکشمیر کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے ان کی مرضی اور خواہش کے علی الرغم جو بھی حل تھوپا گیا اسے کبھی ماضی میں قبول کیا نہ آئندہ کریں گے۔
میں اس وقت بھی نظر بندی کی زندگی گزار رہا ہوں ، میں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بھارتی جیلوں اور تعذیب کدوں میں گزارا ، برسوں کا ظلم ہمیں اپنے موقف سے ایک انچ بھی نہیں ہٹا سکا ، ہمارا عہد ہے کہ جب تک ہمارے سر گردنوں پر باقی ہیں ، ہمارا ایک بھی فرد زندہ ہے ہم ہر حال میں جدوجہد جاری رکھیں گے۔ چاہے اس کے لیے ہمیں مزید کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ آپ سے ہم توقع رکھتے ہیں کہ آپ اسی طرح ہماری حمایت جاری رکھیں گے اور پاکستان اور پاکستان سے باہر ذرائع ابلاغ کو اس کھلے ظلم کی جانب متوجہ کرتے رہیں گے۔
پاکستان ہمارے لیے بہت اہم ہے،ہمارے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں، پاکستان کی کسی بھی میدان میں کامیابی پر ہم خوش ہوتے ہیں اور جب پاکستانی قوم مشکل میں ہوتی ہے یا دہشت گردی کا شکار ہوتی ہے ہم رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ ریاست پاکستان کے عوام اور حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر کے مظلوم عوام سے یک جہتی اور حمایت سے ہمارے حوصلے بڑھتے ہیں۔ پاکستانی ملت ہر سال 5 فروری کوجموں وکشمیر کے مظلوم عوام سے یک جہتی کا دن مناتی ہے ۔ ہم ملت پاکستان کے شکرگرزار ہیں۔ ماہ فروری میں پاکستان کے عوام ، اداروں اور حکومت کا ریاست جموں وکشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار خوش آئند ہے ، لیکن ایک واضح موقف ، یکسوئی ، یک رنگی اور تسلسل کو اس یکجہتی کا طرئہ امتیاز ہونا چاہیے ۔
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی