• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم جو کسی کو چُنتے ہیں وہ کم اہم نہیں ہوتا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا چناؤ بھی کتنا پائیدار اور کتنا وسعتِ نظر والا ہوتا ہے۔ معاملہ، کس قدرپسند ناپسند والا ہوتا ہے، سوچ گہری ہے یا سطحی۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہر تحریک ایک تاریخ بھی بنتی ہے۔ اور اس تاریخ کے جنم لینے اور تعمیر کا بھی بہرحال ایک معیار ہوتا ہے جس کو نیچر اس کی تعمیر سازی کے عناصر اور وراثتی عوامل کے لحاظ سے مد نظر رکھتی ہے ، یوں تاریخ کے ہاتھ میں پایا جانے والاپیمانہ مجموعی، زمانوی اور ماضی و مستقبل و حال کے چیلنجز کو ناپتا ہے، پھر وہ فیصلہ قابلِ قبول ہوتا ہے۔گویا ہرتحریک یا تاریخ کے ارتقائی پس منظر میں مخصوص جنسیات و نفسیات اور ماحولیات و سماجیات کار فرما ہوتی ہیں!

کچھ پیارے دانشور اور کچھ کرم فرما لمحہ بھر کی تحقیق کے بغیر کچھ شخصیات کو تاریخ ساز قرار دے دیتے ہیں ، چلیں یہ تو شاید صفِ اول کا نام اکرام نہ رکھتے ہوں، رکھتے بھی ہوں تو کبھی بھول چوک ہو جاتی ہو مگر ہمارے کچھ سقہ بند فلسفی اور دانشور فرطِ جذبات میں تحقیق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، فیشن ہمارے ہاں یہ ہے کہ فلاں قائدِ اعظم ثانی ہے ، اور فلاں ذوالفقار علی بھٹو کی سطح کا لیڈر۔ یہ ’’تشبیہ اور استعارے‘‘ قائدِ اعظم کے بعد اور قائدِ عوام کے بعد جلد ہی شروع ہوگئے تھے۔ اب آپ اسے مبصر کی ’’محبت‘‘ سمجھئے یا کسی لیڈر کو کسی کے نام کا محتاج تاہم یہ سب باتیں خاکسار کے ذہن میں اس وقت آئیں جب تین پروفیسرز اور ایک انجینئر، اور سبھی امریکی و برطانیہ سے ڈگری یافتہ اکٹھے بیٹھے عمران خان کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے ، ان میں سے ایک صاحب تیسری بار وائس چانسلر کی مسند پر براجمان تھے، جب ان سے ایک سوال کیا گیا کہ، آپ عمران خان پر کس لئے فریفتہ ہیں ، کوئی دلیل یا کوئی وجہ تو ہو گی، ان کا جواب تھا کہ وہ اس قدر مقبول ہیں کہ میری بیٹی دیارِ غیر میں سٹڈیز سےہٹی اور مجھ سے کرایہ لے کر عمران خان کو ووٹ کاسٹ کرنے آئی۔ جی ٹھیک ہوگیا ، اور خان صاحب نے دورانِ حکومت کوئی بڑا کام آئینی ، ترقیاتی، انقلابی یا اصلاحاتی کیا ہو ؟ نہیں، وہ کوئی کام تو نہیں کر سکے مگر پاکستان کے واحد لیڈر ہیں جو بین الاقوامی سطح پر بہت مشہور ہیں۔ چلئے یہ بھی مان لیا۔ کوئی کام ؟ نہیں، میرا تو جی ان سے بھر گیا تھا مگر جب اس کی حکومت تحریکِ عدم اعتماد سے ختم کی گئی تو چھوڑا چھوڑا عمران خان میرے دل نے پھر پکڑ لیا۔ کیا عدم اعتماد غیر آئینی تھا ؟ نہیں مگر سازش تھی۔ کس نے کی یہ سازش ؟ اس کا جواب امریکی خط نے تو نہ دیا تاہم اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار قرار دے دیا جسے ہم لانے کا ذمہ دار قرار دیتے نہیں تھکتے۔

جب دلیل کی صحت منڈھے چڑھتی نہ پائی تو عزت مآب فرمانے لگے ، وہ جی فلاں ملک کی فلاں یونیورسٹی کے ریکٹر نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا تھا،’’عالم اسلام کے لیڈر کو آپ لوگوں نے خواہ مخواہ گھر بھیج دیا ! ‘‘موصوف سے جب کچھ نہ بن پڑا تو اپنی بحث اور تحقیق پر تکیہ کرنے کے بجائے دور کی کوڑی لائے ۔ خاکسار نے عرض کیا ، آپ تیسری بار کے وی سی ہیں اور ایک باہر کے وی سی کا سہارا لے رہے ہیں، بہتر ہوتا آپ اس دلیل اور بات کا بوجھ خود اٹھاتے ، اور اعتماد سے ہمیں کہتے کہ ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے، تو ایکسیلینسی ہم آپ کی بات کو من و عن ماننے کیلئے تیار تھے۔ خیر جب ہم نے دیکھا کہ ہمارے سر تسلیم خم نہ ہونے کے باوجود وہ جذبات میں تھے اور وضعداری کی پیشانی پر ایک شکن نہ تھی، تو پھر ہم نے چپ سادھ لی ’’صائب الرائے‘‘ بڑوں کا بھرم بھی ضروری ہے۔

29 جولائی 2019کو سابق امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اسلام آباد آئے تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور فرمایا ،’’میں محسوس کر رہا ہوں کہ میں ورلڈ کپ جیت کر آیاہوں۔‘‘ جب عدم اعتماد ہوا تو ورلڈ کپ چھن گیا اور امریکی خط لہرا دیا جو ثابت کر سکے نہ سمجھا سکے۔ قومی اور بین الااقوامی مبصرین نے بھی اسے جھوٹ اور سیاسی پروپیگنڈہ قرار دے دیا۔اتنے بین الاقوامی لیڈر تھے مگر مہاتیر محمد کو اپنا گُرو قرار دیتے مگر سعودیہ سے ڈرتے ہوئے اچانک ملائشیا کا دورہ ملتوی کردیا۔ کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے پاکستان آکر ہامی بھری کہ میں پاکستان کا سفیر ہوں لیکن عمرانی طرز سیاست سے اس قدر نالاں ہوئے کہ عمران خان جب امریکہ سے واپس آرہے تھے تو خود دورے کے استعمال میں دیا گیا طیارہ واپس منگوا لیا اور اس وقت کے وزیراعظم کو اپنا بندو بست کرکے واپس لوٹنا پڑا۔حضرت کبھی ریاست مدینہ تو کبھی چائنہ ماڈل تک کو لانے کا کہتے رہے لیکن چائنہ سے بھی تقریباً ناراضی ہی رہی اور گوادر پروجیکٹ تک ٹھپ رہا۔ پہلی تقریر کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامیت پر یو ٹرن لینے پڑے، ورلڈ بینک، فیٹف ، آئی ایم ایف تک نالاں ہوئے، اس وقت تک پاکستان کے کل قرض کا 78فیصد لینےکاخود مانے۔ خود ساختہ افغان امور کے ماہر بن بیٹھے حتیٰ کہ پولیس لائن بم دھماکہ پشاور پر مصلحت اور سر جوڑنے کو فوقیت دینےکے بجائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ شروع کردی، راقم بار ہا لکھ چکا کہ پاکستان میں مقیم قانونی و غیر قانونی افغان خان کے ’’سپاہی‘‘ ہیں ، اور کچھ نہیں کہنا۔ رشین دورے کے وقت پر پورے عالم نے تنقید کی جب کہ خان اس پر پوائنٹ اسکورنگ کیلئے کہتے رہے ’’غلام‘‘ نہیں۔ سلیبرٹی اور کھلاڑی ہونا اور بات ہے ، ہاں یہ مشہور ہے کہ آج جن ’’محسنین‘‘ کے خلاف ہیں کل ان کے ریفرنڈم کو چاہنے والے ہی تو تھے! خارجی و داخلی و سیاسی لیڈرشپ ہونا الگ قصہ اور مختلف موازنہ ہوتا ہے پھر جاکر تاریخ کسی کو چُنتی ہے، قائدِاعظم اور بھٹو کو تاریخ نے چُنا اور وہ تاریخ میں ہنوز زندہ ہیں، کسی کو ہم نے قائدِ اعظم ثانی اور بھٹو کہا مگر وہ سطحی تحریک کے سبب دو دن کی تاریخ رہے۔ ہمارا مفکر اور سیانا گرگلوبل ولیج اور حقائق و تحقیق سے بالاتر ہوکرسوچتا ہے تو پھر ہمیں خان کی آج کی تحریک اور مستقبل کی تاریخ محض شیروانی کی متلاشی ہی دکھائی دیتی ہے!

تازہ ترین