Gastroesophageal Reflux Disease یعنی گرڈ ’’GERD‘‘ معدے کی ایک عام بیماری ہے، جس میں تیزاب، صفرا یعنی پت غذا کی نالی (ESOPHAGUS) میں دوبارہ داخل ہو جاتے ہیں۔ دراصل، خوراک کی نالی کے آخری سرے پر موجود’’Lower esophageal sphincter‘‘میں، جو خوراک کو معدے سے غذا کی نالی میں داخل ہونے سے روکتا ہے، کسی وجہ سے نقص پیدا ہوجاتا ہے، جس کے سبب یہ کم زور اور نرم پڑ جاتا ہے، نتیجتاًSPHINCTER کا سوراخ کُھل جاتا ہے اور خوراک معدے سے دوبارہ غذا کی نالی میں داخل ہوجاتی ہے۔
اِس بیماری کی بنیادی وجوہ میں تمباکو نوشی، شراب نوشی، موٹاپا، ذہنی دباؤ، غیر صحت مندانہ طرزِ حیات، پیٹ بَھر کر کھانا، چٹ پٹے، تیز مرچ مسالے دار کھانے، مرغّن غذائیں، آلودہ پانی، درد کُش ادویہ (NSAID)کا استعمال، ٹماٹر، پیاز، چاکلیٹ اور کافی وغیرہ کا استعمال سرِ فہرست ہیں،جب کہ حاملہ خواتین بھی اِس سے متاثر ہوتی ہیں۔ اِس مرض میں مبتلا افراد کو بد ہضمی، سینے میں جلن، منہ میں کڑوا پانی آنا، کھانے کے بعد اپھارہ محسوس ہونا، کھٹّی ڈکاریں آنا، جی مالش ہونا، پیٹ میں درد، کھانے پینے میں دشواری، دانتوں کی تکلیف، آواز کا بھاری ہوجانا اور کھانسی اور دمے کی شکایت ہو سکتی ہے۔
بعض اوقات رات میں سوتے ہوئے اچانک آنکھ کُھل جاتی ہے، سینے میں درد یا بھاری پَن محسوس ہونے لگتا ہے اور گمان گزرتا ہے کہ کہیں ہارٹ اٹیک تو نہیں ہو رہا۔لہٰذا، گرڈ کی علامات ہرگز نظر انداز نہیں کرنی چاہئیں۔ گھریلو ٹوٹکوں اور چورن وغیرہ سے علاج کی کوششوں کی بجائے کسی مستند گیسٹرو انٹرولوجسٹ سے رابطہ کرنا چاہیے۔ یاد رہے! اگر گرڈ کی شکایت مستقل رہنے لگے، تو اس کے سبب غذائی نالی میں سوزش، نالی کا سکڑنا اور سرطان جیسی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ زیادہ تر بڑی عُمر کے افراد اِس مرض کا نشانہ بنتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں 40سال سے زائد عُمر کے افراد میں یہ ایک عام مرض ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق،پاکستان کی تقریباً 22سے24فی صد آبادی اِس مرض میں مبتلا ہے، جو کہ خاصی تشویش ناک بات ہے۔
اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عوام میں شعور وآگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ تمباکو، شراب نوشی، تیز مرچ مسالوں، چکنائی سے بھرپور خوراک، فاسٹ فوڈز اور آلودہ پانی کا استعمال ترک کرکے اس مرض کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ رہ سکیں۔ نیز، اس سے بچاؤ کے لیے رات کا کھانا سونے سے دو گھنٹے قبل کھالینا چاہیے اور کھانے کے بعد ہلکی پُھلکی چہل قدمی بھی ضروری ہے، جب کہ سوتے وقت تکیہ تھوڑا سا اونچا رکھیں۔
گرڈ کی تشخیص مریض کی مکمل میڈیکل ہسٹری، مینو میٹری (MANOMETRY) اور چوبیس گھنٹے غذا کی نالی کی پی ایچ (PH) مانیٹرنگ سے کی جاتی ہے، جب کہ ماہرین اینڈو اسکوپی کو بھی تشخیص کے لیے ایک بہترین آپشن قرار دیتے ہیں۔ اِس بیماری میں پرہیز کے ساتھ علاج کی بھی بہت اہمیت ہے۔ اگر علاج کی بات کریں، تو اِس ضمن میں (ANTACID)، PPI یعنی ’’PROTON PUMPINHIBITOR)۔(H-BLOCKERS) میڈیسن استعمال کی جاتی ہیں۔ تاہم، اگر مرض شدید نوعیت کا ہو، تو پھر ANTI-REFLUX SURGERY کا آپشن بھی موجود ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر اِس مرض کو بہت معمولی سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا پھر گھریلو ٹوٹکوں کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ ایک خطرناک طرزِ عمل ہے،جس سے گریز ضروری ہے کہ یہ مرض سرطان سمیت بہت سی پیچیدگیوں کا بھی سبب بن سکتا ہے۔
( مضمون نگار ،لیاقت یونی ورسٹی اسپتال،حیدرآباد کے شعبہ گیسٹرو انٹرولوجی میں سینئر میڈیکل آفیسر ہیں)