• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج سے ساڑھے سولہ سال پہلے نئی صدی اور ہزاریہ (Millennium)کا ایک ساتھ آغاز ہو رہا تھا‘ یہ بڑا تاریخی واقعہ تھا‘ جس کے استقبال کی تیاریاں کئی برس پہلے سے شروع کر دی گئی تھیں‘ مختلف شعبہ زندگی میں پچھلی صدی اور ہزاربرس میں سب سے بڑے اور نامور افراد کیلئے سروے جاری تھے‘ آراء اکٹھی کی جا رہی تھیں‘ ان میں کھیلوں کے سارے بڑے کھلاڑیوں میں سب سے بڑے نام کے بارے میں پوچھا گیاایک سوال‘ سب براعظم کے تقریباً دو سو ملکوں میں آباد پانچ ارب انسانوں نے جس نام پر صاد کیا وہ کوئی اور نہیں ’’محبوب عالم‘‘ محمد علی تھے‘ جنہیں پچھلے ہزار برس کے سب کھیلوں اور کھلاڑیوں میں ہزار سالہ چیمپئن ہونے کا اعزاز ملا۔ محمد علی نے بڑی تیز رفتار‘ کامیاب اور حیرت انگیز زندگی بسر کر کے پچھلے جمعہ کو یعنی آج سے گیارہ دن پہلے اس جہان فانی سے کوچ کیا، باکسنگ کے سابق عالمی چیمپئن، مائیک ٹائی سن نے ان کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’اللہ ہمارے چیمپئن (محمد علی) کو خود لینے آیا۔‘‘ محمد علی نے جس زندگی کاآغاز ’’کاسیس کلے ‘‘کے نام سے کیا تھا‘ 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئے‘ اس نے آخری تیس برس ’’پارکنیسن‘‘ کے خطرناک مرض کے ساتھ گزارے ‘ وہ صدیوں پر حاوی‘ غیرمعمولی ایتھلیٹ ہی نہیں تھا‘ اس کی زندگی کا ہر لمحہ ‘ ہر رخ غیرمعمولی‘ تیز رفتار اور کامیاب تھا
ہیں ہزاروں پہلو اس کے رنگ ہر پہلو کا اور
سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں
وہ نیم غلامی‘ نسلی امتیاز کے گہرے گڑھے میں تھا‘ پھر بھی اس کی قد وقامت‘ کنارے پائے جانے والے ہجوم کے ہر شخص سے بلند و بالا دکھائی دیتی‘اس کی قامت کا صحیح اندازہ اس صورت میں ممکن ہے جب گڑھے کی گہرائی بھی اس کے ناپ میں شامل کر دی جائے۔ بہت منفی حالات (Adverse Cercumstance) تھے‘ جس میں وہ پیدا ہو کر لڑکپن تک پہنچا تھا‘ کالی رنگت کے امریکیوں کیلئے یہ بہت ہی مشکل اور مایوس کن زمانہ تھا‘ قانون کے نفاذ نے سیاہ فام لوگوں کو غلامی سے آزاد کر دیا لیکن ابھی تک سفید فام سابق آقا انہیں برابر کا انسان بلکہ پورا آدمی ماننے کو تیار نہیں تھے۔ انہیں امریکی جمہوریت نے ابھی تک ووٹ کے حق سے محروم رکھا تھا۔ ایک تو اقلیت‘ پھر ووٹ کے حق سے محروم‘ ہوٹل‘ ریستوران‘ کلب‘ بس اور ٹرین میں انہیں امریکی شہریوں کے برابر بیٹھنے کا حق حاصل نہیں تھا‘ کلبوں اور پبلک مقامات پر ان کی نشستیں الگ رکھی جاتی تھیں‘ ان کی حالت انڈیا کے ہندو معاشرے میں ’’شودر‘‘ کی طرح بلکہ بعض اوقات اس سے بھی کم تر رہی ہوگی۔ ان حالات میں سیاہ فام لوگوں کی غریب بستی میں ایک بچہ پیدا ہوا‘ اگرچہ اس کی رنگت اپنے اجداد کی طرح سیاہ تھی مگر ا س کی آنکھوں کی چمک اور جلد کے اندر سے پھوٹتی روشنی‘ اس کے الگ اور جدا مستقبل کی نشاندہی کرتی تھی۔ بچپن سے گزرکر لڑکپن میں قدم رکھا تو اس کے اندرون سے جھلملاتی روشنیاں چھن چھن کے باہر آنے لگیں‘ عزت‘ شہرت‘ ذہانت ’’پالنے ‘‘میں اس کے ساتھ ہی ہمکتی‘ جاگتی‘ سوتی رہی‘ وہ لڑکپن کے آغاز میں ہی ظاہر ہونے لگی تھی‘ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، یہ ’’کاسیس کلے‘‘ (Cassios Caly) ہی تھا‘ جو عنقریب غلامی کی کینچلی اتار کر محمد علی کے نام سے ظاہر ہو کر ہر منظر پر چھا جانے والا تھا۔
غربت، پسماندگی، نسلی امتیاز کے نامساعد حالات میں‘ نہیں معلوم کتنے برسوں کی بچتوں کو خرچ کر کے والدین نے اپنے بیٹے کیلئے ایک سائیکل خریدی تھی جو اسے گیارہویں سالگرہ کے موقع پر دی گئی‘ وہ سائیکل کو اپنی جان کی طرح عزیز رکھتا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے والدین‘ عزیز و اقارب ایسی ایک اور سائیکل خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے‘ بارہویں سالگرہ سے پہلے ہی اس کی محبوب از جان سائیکل چوری ہو چکی تھی‘ اس کے سینے میں نفرت اور غصے کا الائو بھڑک اٹھا‘ وہ بے چارگی کے ساتھ رو دینے کی بجائے پاس پڑوس میں ایک پولیس آفیسر کے پاس پہنچا‘ اسے سائیکل چوری ہونے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ’’پولیس مجھے چور کا پتہ بتائے تاکہ میں مار مار کر اس کا بھرکس نکال دوں‘‘ یہی واقعہ اور وقت اس کی زندگی بدل دینے کا لمحہ تھا‘ پولیس آفیسر نے کہا ’’تم ابھی نوعمر اور ناتواں ہو‘ اگر چور سے بدلہ لینا ہے تو پھر تمہیں باکسنگ سیکھنا ہوگی تاکہ اپنی عمر سے بڑے اور طاقتور چور کی ٹھکائی کر سکو۔‘‘ کاسیس کلے فوراً ہی باکسنگ سیکھنے پر آمادہ ہو گیا‘ مزید خوش قسمتی یہ کہ وہی پولیس والا خودبھی باکسنگ سے دلچسپی اور محلے کی نزدیک ترین باکسنگ اکیڈمی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے ’’منے کلے‘‘ کو اسی اکیڈمی میں تربیت دینا شروع کر دی‘ بارہ برس کی عمر میں وہ باکسنگ کیلئے بڑی باقاعدگی سے باکسنگ کلب آنے لگا‘ اس کی فطری ذہانت‘ لگن اور محنت نے ماحول کو متاثر کرنا شروع کر دیا‘ جلد ہی اسے بہترین ٹرینر (تربیت دینے والوں) کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ سائیکل چوری کے صر ف چھ سال بعد اوائل جوانی میں جب اس کی عمر اٹھارہ سال تھی تو وہ 1960ء میں منعقد ہونے والے اولمپک کیلئے امریکی کھلاڑیوں کی باکسنگ ٹیم میں شامل کر لیا گیا‘ روم میں منعقد ہونے والے ان اولمپک مقابلوں میں نوجوان ’’کلے‘‘ نے لائٹ ہیوی ویٹ گولڈ میڈل جیت لیا۔ یہ اس کی پہلی مگر حیران کن کامیابی تھی‘ جس نے ایک ہی دن میں اسے نامور اورامریکی قوم کا ہیرو بنا دیا، مگر اب بھی راہ کی دیواریں بلند اور سفر ناہموار تھا۔ اولمپک کے چمپئن اور اس کے دوست کو ریستوران میں ویٹر نے یہ کہہ کر کھانا دینے سے انکار کر دیا کہ یہاں صرف سفید فام شہریوں کو کھانا سرو کیا جاتا ہے‘ چند ہی دن میں اس کو دوسرا دھچکا لگا جب اس بے بدل باکسر اور اس کے دوست کو ملازمت کے حصول میں ناکام لوٹنا پڑا۔ انہیں بتایا گیا کہ تمہاری قابلیت اور میرٹ اپنی جگہ لیکن یہ ملازمت صرف سفید فام لوگوں کیلئے ہے۔ تب وہ مایوس نہیں ہوا‘ البتہ وہ غصے سے کھولنے لگا اور اس نے اپنا اولمپک میں جیتا ہوا گولڈ میڈل قریب بہنے والے دریا میں پھینک دیا۔ اب بھی اس نے خود پر قابو رکھا‘ رنج اور غصے کو بے راہ نہیں ہونے دیا بلکہ ا س نے ایک دفعہ پھر مثبت رخ پر ڈال دیا اور اپنی پوری توجہ باکسنگ کے ذریعے ’’عظیم ترین‘‘ بننے پر مرکوز کر دی۔ اب وہ کھیل کے میدان اور میدان سے باہر کسی کو خاطر میں نہ لاتا‘ گویا خوف‘ ڈر‘ جھجھک اس کی زندگی سے نکل چکے تھے۔ اس کے جارحانہ اور بے خوف طرز عمل نے سب کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی‘اب وہ پیشہ ور باکسر تھا۔ 1963ء میں سفید فام برطانوی چمپئن ’’ہنری کوپر‘‘ کو مار گرایا‘ 1964ء میں ہاتھی کی طرح مضبوط اور طاقتور ہیوی ویٹ عالمی چمپئن ’’سونی لسٹن‘‘ کو ناک آئو ٹ کر کے یہ عالمی اعزاز اپنے نام کیا‘ سونی لسٹن کی شکست کو غیرمعمولی واقعہ خیال کیا جاتا ہے‘ اب وہ خود کو ’’Greatest ‘‘ کہہ کر پکارتا اور اپنے حریف کا مذاق اڑایا کرتا۔ اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ’’وہ تتلی کی طرح فضا میں اڑتا اور شہد کی مکھی کی طرح اپنے حریف کو ڈنگ لیتا ہے‘ اسی زمانے میں اس نے کالے مسلمانوںکے ایک گروپ ’’نیشن آف اسلام‘‘ میں شمولیت اختیار کر کے دور غلامی کے ’’کاسیس کلے‘‘ کو ’’محمد علی‘‘ کے نام سے بدل لیا ‘1970ء میں صحیح العقیدہ مسلمان بنا تب سے وہ مکمل طو رپر ایک بدلا ہوا انسان تھا۔ اسلام کو اس نے اپنی عملی زندگی میں پوری طرح نافذ کر لیا او ربلندلہجے میں ویتنام جنگ کی مخالفت شروع کر دی۔ اب اس کی زندگی پھر سے ایک بڑا اوراہم موڑ لے رہی تھی۔

.
تازہ ترین