بھارت کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت ان تمام معاشی بحرانوں سے گزر کر آج ایک مضبوط معیشت بناہے جن معاشی بحرانوں سے پاکستان گزر رہا ہے ، جی ہاں واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق 1980کی دہائی میں بھارت شدید سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار تھا ، دو سال میں تین حکومتیں تبدیل ہوچکی تھیں ،جبکہ بھارت پر عالمی مالیاتی اداروں کا ستر ارب ڈالر سے زائد کا قرض بھی چڑھا ہوا تھا ،جس کے سود کی ادائیگی کی خاطربھارت کیلئے دو اعشاریہ ایک ارب ڈالر کا بندوبست کرنا بھی مشکل ہورہا تھا لہٰذا عالمی مالیاتی اداروں کو سود کی ادائیگی کیلئے بھارت کو اپنے سونے کے ذخائر فروخت کرنا پڑرہے تھے جس سے عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ شدید متاثر ہورہی تھی ،ایسے وقت میں کانگریس کی حکومت نے مغربی ممالک سے بھارت کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئےقرض کی ری شیڈولنگ کی،ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کی ، درآمدات کو بڑی حد تک کم کیا ،ملک کی برامدآت میں خاطرخواہ اضافہ کیا اور پھر نئی معاشی پالیسیاں نافذ کیں اور بھارت کو معاشی بحران سے نکالا،آج پاکستان کی معیشت کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ڈیفالٹ کا خطرہ پاکستان پر منڈلا رہا ہے ، پاکستان پر 120ارب ڈالر کا قرض ہے اور ہمارے پا س اس قرض کے سود کی ادائیگی کے لئے بھی رقم موجود نہیں ،ملک شدید سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے ،سیاسی حکومتوں کو غیر سیاسی طریقے سے ختم کیا جارہا ہے اور ہر جانے والی حکومت منصوبہ بندی کے تحت ملک کی معیشت کو تباہی کا شکار کرکے آنے والی حکومت کے لئے مسائل پیدا کرکے جاتی ہے اور آخر میں نقصان غریب عوام اور ریاست کا ہی ہوتا ہے ،آئی ایم ایف نے ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کی قسط کے بدلے حکمرانوں سے ملک میں اتنی مہنگائی کرادی ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ کسی دن غریب عوام بھوک اور فاقوں سے تنگ آکر سڑکوں پر ہی نہ آجائیں۔بھارت نے جس طرح اپنی درآمدات کم کرنے کے لئے پالیسیاں بنائیں ان میں سے صرف ایک مثال آٹو موبائل انڈسٹری کی ہی کافی ہوگی ، بھارتی حکومت نے جاپانی گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی پر لازم کردیا کہ جب تک وہ بھارت میں گاڑی کے نوے فیصد پارٹس تیار نہیں کرے گی اسے بھارت میں دوسرا ماڈل لانے کی اجازت نہیں ہوگی جس کے بعد کئی دہائیوں تک بھارت میں ماروتی سوزوکی کے سوا دوسری کوئی گاڑی نظر نہیں آتی تھی۔ دوسری جانب پاکستان میں چالیس برس قبل جب چند غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے کی اجازت دی گئی تو ان سے یہی شرائط رکھی گئیں کہ اگلے سات سال میں آٹو موبائل کمپنی نوے فیصد پارٹس پاکستان میں ہی تیار کرے گی لیکن آج چالیس سال بعد بھی یہ آٹو موبائل کمپنیاں صرف چالیس فیصد پارٹس پاکستان میں تیار کر رہی ہیں جبکہ ساٹھ فیصد پارٹس دوسرے ملکوں سے درآمد کر رہی ہیں جس پر پاکستان کا قیمتی زرمبادلہ باہر بھیجا جارہا ہے لیکن ان کمپنیوں سے کوئی سوال کرنے والا نہیں ہے ، آج جب پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے ڈالر کی شدید قلت ہے تو ان آٹو موبائل کمپنیوں نے پاکستان میں اپنی پروڈکشن ہی بند کردی ہے ، پھر آجکل جب دنیا میں پیٹرول انتہائی مہنگا ہوچکا ہے تو ادارے بجلی اور کم فیول استعمال کرنے والی ہائبرڈ گاڑیاں تیار کررہے ہیں جبکہ پاکستان میں چین اور جنوبی کوریا کی کئی کمپنیوں کو پاکستان میں گاڑیاں اسمبل کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے یہ تمام گاڑیاں پیٹرول سے چلتی ہیں اور ایک لیٹر میں صرف چھ سے سات کلو میٹر چلتی ہیں جس سے ملک میں پیٹرول کا استعمال بڑھ گیا ہے ، صرف یہی نہیں سابقہ حکومت میں ایک کمپنی سے گاڑیاں لاکر پاکستان میں فروخت کرنے والی کمپنی کو صرف سو تیار گاڑیاں پاکستان لانے کی اجازت ملی لیکن مذکورہ کمپنی دس ہزار گاڑیاں ایل سی یعنی سرکاری ڈالرز اد ا کرکے پاکستان لاکر فروخت کررہی ہےاور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے لہٰذا جب تک قومی مفاد کے برخلاف ذاتی مفاد کے حصول کے لئے حکمرانوں اور کاروباری شخصیات میں لین دین جاری رہے گا ،اس وقت تک پاکستان کی ترقی خواب ہی رہے گی۔