• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2013ء میں زرداری صاحب کا دورِ حکومت ختم ہوا تو ایک کالم میں نے لکھا تھا ”آٹھ ہزار ارب روپے کہاں گئے؟“اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ شریف حکومت 16ہزار ارب کے قرض لے گی۔ یہ تو بعید از قیاس تھا کہ عمران خان بیس ہزار ارب روپے کا اضافہ کر دیں گے۔ پاکستان پچاس ہزار ارب روپے کے قرضوں تلے دب چکا۔ ایل سیز نہیں کھل رہیں۔دنیا سے لین دین متاثرہو رہا ہے۔پندرہ سال میں جس ملک کے قرضوں میں چوالیس ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ مزید قرض نہ لے بلکہ پہلے والے بھی واپس کرے۔یہ کیونکر ہوگا؟ اس سے پہلے وہ کہانیاں ہی پڑھی تھیں، جن میں مہاجن ایک غریب کسان کو قرض کے جال میں جکڑ لیتا۔ آخر میں اس کی زمین نکلوالی جاتی۔ پاکستان سے کیا نکلوانے کا منصوبہ ہے؟ قرضے دینے والے بخوبی جانتے تھے کہ قرض واپس کرنا تو درکنار وہ تو مزید قرض لینا نہیں چھوڑ سکتا۔ پاکستان کا زیادہ تر وقت اب یہ سوچنے پہ صرف ہوتا ہے کہ کس سے کتنے پیسے پکڑے جا سکتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی کابینہ کے اللے تللے البتہ ویسے ہی جاری ہیں ’’قرض کی پیتے تھے مےلیکن سمجھتے تھے کہ ہاں... رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن ‘‘یہ قرض ہی بِس کی گانٹھ ہے۔ہر حکومت پچھلے قرضوں اور ان کے سود تلے دبی ہوئی ہے۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ سالانہ بجٹ کا ایک تہائی قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے مختص ہوتا ہے۔ کوئی ملک دوسرے کو ڈالروں کے تھیلے فی سبیل اللہ نہیں پکڑا دیتا۔ کڑی شرائط ہوتی ہیں۔ ہر ملک اپنا مفاد ملحوظ رکھتاہے، سوائے پاکستان کے۔ ہمارے حکمرانوں کے اصل مفادات برطانیہ، قطر، امریکہ اور دوسرے ممالک میں مرتکز ہیں۔ اپنے اثاثوں میں سے ایک قابلِ قدر مقدار انہوں نے غیر ملکی بینکوں میں رکھ چھوڑی ہے۔پاکستان اگر ڈوبتا ہے تو انہیں کس وقت کس جہاز میں بیٹھ کر کس ملک اترنا ہے، یہ بھی طے ہو چکا۔سبکدوشی کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کاموقع ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی سرمایہ کاری سے وابستہ امیدیں پوری نہ ہو سکیں گی۔صورتِ حال یہ ہے کہ قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک میں بھی ہر سال ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل اور سرکاری کارپوریشنیں سینکڑوں ارب کا خسارہ کررہی ہیں۔ اس کے باوجود آپ ان کی نجکاری کی بات کر کے تو دیکھئے۔ پیپلزپارٹی خم ٹھونک کر میدان میں اتر ے گی۔ جلسے اور ہنگامے شروع ہو جائیں گے۔ مرتا ہوا مریض ایسے طبیبوں کے رحم وکرم پر ہے، جو نشتر لگانا تو درکنار اسے کڑوی دوا پلانے پہ بھی آمادہ نہیں۔ ایف بی آر کی تشکیلِ نو کا کہیں کوئی منصوبہ نہیں کہ اشرافیہ کے مفادات پہ زد پڑتی ہے۔ صورتِ حال یہاں تک آپہنچی کہ ڈالر اور تیل کی قیمتیں تین سو تک جا پہنچیں۔ تکنیکی طور پر ملک دیوالیہ ہوچکالیکن دوستوں کی بھیک کے طفیل باضابطہ اعلان رکا ہوا ہے۔ شاید رکا ہی رہے لیکن معاشی بحالی کا کوئی منصوبہ کہیں زیرِ غور نہیں۔ پی ڈی ایم اور تحریکِ انصاف کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری ہے۔ عمران خان الیکشن جیت کر اگر واپس اقتدار میں آجائیں تب بھی وہ کیا کر لیں گے۔ خان کے پاس اگر کوئی قابلِ عمل منصوبہ موجود ہوتا تو کیا ان کے ساڑھے تین سالہ دور میں بیس ہزار ارب روپے کے قرضوں کا اضافہ ہوتا۔ ایک ایسا ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے، جس کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ بارہ رکنی اتحاد کے تمام فریقوں کو خوش رکھنے کیلئے دنیا کی سب سے بڑی کابینہ توسیع کے مراحل سے گزرتی رہتی ہے۔ زرداری صاحب بھی حکومت کر چکے، نوا ز شریف اور عمران خان بھی۔یہ صرف تعصبات ہیں، جن کے زیرِ اثر ہم ان میں سے ایک کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت میں دلائل پیش کرتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سب کو موقع ملا اور سب ہی ناکام ہو گئے۔ ملک میں ایسے افراد یقیناً موجود ہوں گے، جو اس صورتِ حال سے نکلنے کا کوئی قابلِ عمل منصوبہ بنا سکیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اقتدار تو مل نہیں سکتا اور نہ ہی وہ سب کیلئے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔ حکومت تو ملنی ہے پیپلزپارٹی، نون لیگ یا تحریکِ انصاف کے سیاستدانوں کو۔ ان میں سے ہر ایک کا موقف یہ ہے کہ حکومت انہیں دی جائے تو وہ ملک کو بچا لیں گے؛حالانکہ ان میں سے ہر ایک یا تو حکومت کر چکا یا اس وقت بھی اقتدار میں ہے۔ عوام اپنے اپنے تعصبات کے زیرِ اثر عمران خان کے حامیوں اور مخالفین میں منقسم نعرے لگاتے پھر رہے ہیں۔ یہ ملین ڈالر کا سوا ل ہے کہ پندرہ برس میں ایسا کیا ہوا کہ ساٹھ سال کے قرضے چھ ہزار ارب روپے سے بڑھ کر پچاس ہزار تک جا پہنچے۔ ڈالر ساٹھ روپے سے تین سو تک جا پہنچا۔ کیا ایک جامع منصوبے کے تحت پچھلے پندرہ برس میں پاکستان کو اس حال تک پہنچایا گیا؟ایسا کوئی منصوبہ اگر بنایا گیا تھا تو کامیاب ہو چکا۔ جو ملک باضابطہ طور پر دیوالیہ قرار پاتے ہیں، معیشت وہاں بھی کسی نہ کسی حال میں چلتی رہتی ہے۔اناج اگتا رہتا ہے مگر ادویات سمیت بہت سی چیزوں کا بحران پیدا ہو جاتاہے۔ دنیا سے لین دین ختم ہو جاتا ہے۔معیشت تو کشمیر اور فلسطین میں بھی چلتی رہتی ہے۔ معاملہ دنیا میں عزت و احترام اور خوشحالی کی زندگی بسر کرنے کی بجائے فقط سروائیول تک جا پہنچتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین