• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

ہمارے ملک کے بیش تر سرکاری اداروں کی کارکردگی یا عملے کی خدمات کے حوالے سے عموماً لوگوں کا تاثر منفی ہی ہے۔ بہت سے ادارے تو ایسے بھی ہیں، جو آج تک لوگوں پر اپنا اعتماد ہی بحال نہیں کرسکے، یہی وجہ ہے کہ عوام میں اُن کا تاثر مثبت نہیں ہوپاتا۔ 

تاہم، یہ بات بھی درست نہیں کہ سرکاری محکموں کے تمام ہی افراد کرپشن میں ملوّث ہیں۔ چند لوگوں کی غفلت، ناروا سلوک یا نامناسب رویّوں کی وجہ سے پورے محکمے کو قصور وار ٹھہرانا درست نہیں۔ میرا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے کہ لوگ جن اداروں کو عموماً بُرا تصوّر کرتے ہیں، اُن ہی میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں، جو احساسِ ذمّے داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ 

ماضی میں وقتاً فوقتاً میرا بھی کچھ ایسے ہی محکموں سے واسطہ پڑا، جن کے عملے کے حُسنِ سلوک نے مجھے کافی متاثر کیا۔ اُن میں سے بطورِ خاص 4سرکاری محکموں کے ایمان دار، فرض شناس اور با اخلاق ملازمین کے عمدہ رویّے اور عوامی خدمات کے دوران عملے کے تعاون کے ضمن میں کچھ واقعات قلم بند کررہا ہوں۔

1997ء میں ہم گلستانِ جوہر کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھے۔ سستا زمانہ تھا، اُس وقت عموماً بجلی کا بِل پانچ چھے سو روپے سے زیادہ نہیں آتا تھا۔ ایک دن میں اپنا بِل یونین آفس میں تلاش کررہا تھا کہ ایک بِل پر نظر پڑی، تو چونک کر رہ گیا۔ وہ تقریباً 3000/- کا تھا۔ اس پر نام دیکھا، تو مزید حیرت ہوئی کہ وہ میرے پڑوسی رسول بخش بلوچ کا تھا، جو مہینے میں تقریباً 15دن اپنے گھر پر اور 15دن اپنے گائوں میں گزارتے تھے۔ اُن کی فیملی بھی مختصر تھی، یعنی میاں بیوی اور ایک بیٹی۔ رسول بخش انتہائی شریف النفس، مذہبی عقائد پر کاربند اور تجارت پیشہ بزرگ شخص تھے۔ بلوچستان کے علاقے گوادر، پسنی اور تربت وغیرہ میں اُن کا لانچوں کا کاروبار تھا، جس کے باعث اکثر مع فیملی ان علاقوں میں اُن کا آنا جانا رہتا تھا۔ پڑوسی ہونے کے ناتے میری اُن سے علیک سلیک تھی، وہ بھی میری بڑی عزّت کرتے تھے۔ 

مَیں نے وہ بِل اٹھالیا اور شام کو اُن کے پاس چلا گیا، سلام دُعا کے بعد بِل سے متعلق استفسار کیا کہ آپ کا بل تو بہت زیادہ آیا ہے، تو انھوں نے افسردگی سے جواب دیا، ’’جناب! مَیں جب سے یہاں آیا ہوں، ہر ماہ لگ بھگ اتنا ہی بل آتا ہے، جو جمع کروادیتا ہوں۔‘‘ مَیں نے پھر سوال کیا ’’حالاں کہ آپ تو بہت کم بجلی استعمال کرتے ہیں، کبھی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اتنا زیادہ بل کیوں آتا ہے؟‘‘ کہنے لگے ’’میری ہمّت نہیں ہوتی، اس عُمر میں دھکے کھائوں، اور پھر ان محکموں میں کون سننے والا ہوتا ہے۔‘‘ اُن کی بے چارگی دیکھ کر مَیں نے اُن سے بل لے لیا اور کہا کہ ’’بلوچ صاحب! مَیں آپ کے اس مسئلے کو حل کروانے کی کوشش کرتا ہوں، آپ دُعا کریں۔‘‘

جن دنوں مَیں نیوی میں ملازمت کرتا تھا، وہاں میرے ایک آفس کولیگ واحد خان سے میری بہت اچھی دوستی تھی۔ 1975ء میں، مَیں استعفیٰ دے کر سوئی گیس کمپنی چلا گیا، تو کچھ عرصے بعد واحد خان نے بھی کے ای ایس سی (موجودہ کے۔الیکٹرک) جوائن کرلی۔ وہ انتہائی خشک مزاج انسان تھا، سوائے میرے، کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ آئے روز افسران سے لڑائی جھگڑا اُس کا معمول تھا۔ بہرحال بلوچ صاحب کا بجلی کا بل لے کر مَیں اُس کے آفس سوک سینٹر چلا گیا۔ 

مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوااور خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد آنے کی وجہ پوچھی، تو میں نے کہا ’’واحد! میرا کوئی ذاتی کام نہیں ہے، مَیں ایک ایسے انسان کا مسئلہ لے کر آیا ہوں، جسے میں اپنے باپ کی طرح سمجھتا ہوں۔ ہوسکے تو اُن کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے اُن کا مسئلہ حل کردینا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اُسے بل تھمادیا۔ 

اُس نے بل کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد کہا ’’اُن سے کہیں، کل گھر پر موجود رہیں، مَیں انسپکٹر بھیج دوں گا۔‘‘ دوسرے روز وعدے کے مطابق محکمے کا انسپکٹر وقت پر آگیا اور میری اور بلوچ صاحب کی موجودگی میں میٹر نکال کر لے جاتے ہوئے کہنے لگا، ’’اسے ہم اپنی لیب میں بھیجیں گے، چند دن کے بعد واحد صاحب سے معلوم کرلیجیے گا۔‘‘ المختصر یہ کہ جانچ کے بعد پتا چلا کہ میٹر میں خرابی تھی، لہٰذا نیا میٹر لگادیا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ میٹر کی خرابی کے باعث اب تک جتنے زائد پیسے دیئے ہیں، انہیں ایڈجسٹ کردیا جائے گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مَیں ستمبر 99ء تک اُس فلیٹ میں مقیم رہا، اُس وقت تک اُن کا بل زیرو آتا رہا۔ 

اس کے بعد معلوم نہیں کب تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اُن ہی دنوں ایک روز میں واحد کے پاس شکریہ ادا کرنے گیا، تو اُس نے صرف ایک بات کہی، ’’بزرگ سے کہنا دُعا کریں، میری بیٹیوں کا رشتہ شریف لوگوں میں ہو۔‘‘ واحد کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ مَیں ستمبر99ء میں بلوچ صاحب کی دُعائیں لے کر گلشنِ اقبال شفٹ ہوگیا۔ واقعی، بلوچ صاحب نے دل سے دُعا دی ہوگی کہ واحد کی تینوں بیٹیوں کا انتہائی اچھے اور شریف گھرانوں میں رشتہ طے ہوا۔

دوسرا واقعہ پی ٹی سی ایل سے متعلق ہے۔ہم گلشنِ اقبال شفٹ ہوئے، تو ٹیلی فون کے حصول کا مسئلہ درپیش ہوا۔ اُس وقت تک موبائل فون عام نہیں تھا اور لینڈ لائن فون آسانی سے نہیں لگتا تھا۔ بہرحال، ایک دن مَیں ہمّت کرکے گلشنِ اقبال ایکسچینج چلا گیا کہ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ نائب قاصد نے گیٹ پر روکا، تو مَیں نے کہا ’’آپ کے صاحب سے ملنا ہے۔‘‘ کہنے لگا ’’صاحب بہت مصروف ہیں، انتظار کرنا ہوگا۔‘‘ مَیں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ اندر بھجوادیا۔ 

چند منٹ بعد ہی غیر متوقع طور پر مجھے اندر بلوالیا گیا۔ اندر کافی لوگ بیٹھے تھے۔ مَیں ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا، تھوڑی دیر بعد اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد اس افسر نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا ’’کیسے آنا ہوا؟ بتائیں کیا خدمت کریں، آپ کے محکمے سے تو ہم ویسے ہی بہت متاثر ہیں۔ (میرا کارڈ اُن کے ہاتھ میں تھا) آپ لوگ واقعی بہت اچھا کام کررہے ہیں۔‘‘ (واضح رہے اُس وقت SSGC کا معیار واقعی بہت اعلیٰ تھا، ہر شخص اس ادارے کی تعریف کرتا تھا) میں نے کہا ’’میری پوسٹنگ اس وقت سوئی، بلوچستان میں ہے اور زیادہ تر فیلڈ میں رہنے کی وجہ سے گھر والوں سے رابطے کا واحد ذریعہ فون ہی ہے، جو میرے یہاں نہیں ہے۔‘‘ میری بات اطمینان سے سننے کے بعد کہنے لگے۔ ’’آپ صرف ایک کام کریں، اپنی کمپنی سے ایک Priority Letter لے آئیں۔ آپ کا کام جلد ہوجائے گا۔‘‘ میں نے دوسرے ہی دن مطلوبہ لیٹر اُن کے حوالے کیا تو کہنے لگے۔ ’’کل آکر چالان لے جائیں اور جمع کروانے کے بعد میرے پاس آجائیں۔‘‘ مَیں نے بالکل ایسا ہی کیا اور چار روز بعد ہی میرے گھر لگ گیا۔ آس پاس کے سب لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ اتنی جلدی فون کیسے لگ گیا۔ یاد رہے، اُن آفیسر کا نام محمد صالح تھا، جن سے میں پہلی بار ملا تھا۔

تیسرا واقعہ، ڈرائیونگ لائسینس ڈیپارٹمنٹ (ٹریفک) سے متعلق ہے۔میری بیٹی لرننگ لائسینس پر کافی عرصے سے گاڑی چلا رہی تھی۔ وہ صرف یونی ورسٹی جاتی، یونی ورسٹی سے گھر کا فاصلہ اگرچہ انتہائی کم تھا،لیکن اس کے باوجود میں نے سوچا کہ مستقل لائسینس بنوالینا چاہیے۔ معلومات کرکے ناظم آباد برانچ گئے، وہاں ہدایات کے مطابق تمام کارروائی پوری کردی تو ٹیسٹ کے لیے بلوایا گیا۔ گرائونڈ میں ٹیسٹ لینے والے حضرات تھے، بیٹی کچھ نروس ہوگئی اور اسے فیل کردیا گیا۔ ہم بددل ہوکر واپس آگئے۔ کچھ عرصے بعد مَیں دوبارہ اُسے ٹیسٹ کے لیے لے گیا، لیکن پھر وہی ہوا۔ 

وہاں سے مایوسی کے عالم میں واپس آنے کے بعد اُس نے دو ٹوک انداز میں اپنا فیصلہ سُنادیا کہ ’’اب مَیں ڈرائیونگ لائسینس کے حصول کے لیے کوئی ٹیسٹ وغیرہ نہیں دوں گی۔‘‘ حالاں کہ وہ بہت اعتماد کے ساتھ کافی عرصے سے گاڑی چلا رہی تھی۔ مجھے فکر لاحق ہوگئی، کیوں کہ مستقل لائسینس کا حصول بہت ضروری تھا۔ مَیں نے پھر ایک کوشش کی اور اُسے جانے پر راضی کرلیا۔ اس بار لائسینس ڈیپارٹمنٹ گئے، تو مَیں نےدوسرا طریقہ اختیار کیا اور بیٹی کو ایک جگہ بٹھا کر سیدھا ڈی ایس پی آفس چلا گیا۔ نائب قاصد کو اپنا کارڈ دیتے ہوئے ڈی ایس پی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ نائب قاصد کارڈ لے کر اندر چلا گیا۔10منٹ بعد ہی مجھے اندر بلا لیا گیا۔ 

ڈی ایس پی معصومہ چنگیزی ایک انتہائی بارُعب خاتون تھیں، لیکن مجھ سے بہت اخلاق اور رحم دلی کے ساتھ پیش آئیں۔ اُن کے سامنے میز پر کچھ ادویہ رکھی تھیں۔ مجھ سے پوچھنے لگیں ’’کیا مسئلہ ہے؟‘‘ میں نے پوری بات تفصیل بتادیں، تو پوچھنے لگیں ’’آپ کیا کرتے ہیں، کیا مصروفیات ہیں آپ کی؟‘‘ مَیں نے کہا ’’مَیں اپنے محکمے سے چند ماہ میں ریٹائر ہونے والا ہوں۔ شام کو ذاتی پریکٹس کے لیے ایک ہومیو کلینک میں کچھ دیر کے لیے چلا جاتا ہوں۔‘‘ کہنے لگیں ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی ہیں۔ پھر اِدھر اُدھر نظریں گھما کر دیکھا اور کہا ’’آپ کی بیٹی اس وقت کہاں ہے؟‘‘ مَیں نے کہا ’’ساتھ ہی آئی ہے، باہر بیٹھی ہے۔‘‘ کہنے لگیں ’’انھیں اندر بلالیں۔‘‘ 

میں فوراً اسے لے کر ان کے کمرے میں دوبارہ گیا، وہ اپنی کرسی سے اٹھیں، کیپ سنبھالتے ہوئے بیٹی کو تقریباً لپٹاتے ہوئے خود اُسے ساتھ لے کر ٹیسٹنگ گرائونڈ تک لے گئیں۔ تمام عملہ حیران تھا۔ انہوں نے سب کچھ رکواکر بیٹی سے کہا ’’چلائیں گاڑی‘‘ بیٹی کا بھی کچھ حوصلہ بڑھا۔ دو تین بار مختلف زاویئے سے گاڑی چلوائی، ریورس کروایا، جو اس نے صحیح طور پر کرلیا۔ کہنے لگیں ’’بس آجائو۔‘‘ پھر اپنے آفس میں آکر کہا ’’آپ کی بیٹی ڈرائیونگ ٹیسٹ میں کام یاب ہوگئی ہے، میرے خیال میں یہ وہاں جاکر کچھ گھبرا جاتی ہوگی۔‘‘ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اللہ نے میری لاج رکھ لی تھی۔

پھر مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگیں ’’مجھے کافی عرصے سے شوگر ہے، آپ مجھے کوئی اچھی سی دوا لکھ کر دے سکتے ہیں؟‘‘ میں نے اسی وقت دوا تجویز کردی اور کہا کہ ’’میں کل خود آپ کو پہنچادوں گا۔‘‘ دوسرے دن حسبِ وعدہ دوا پہنچادی، تو بہت ممنون ہوئیں، کہنے لگیں، ’’بس اب آپ آئندہ تکلیف مت کیجیے گا، ختم ہونے کے بعد مَیں خود ہی منگوالوں گی۔‘‘ یہ تھی اُس نیک، ہم درد اور شفیق خاتون کی کارکردگی اور حُسن سلوک۔ انھوں نے جو عزّت احترام مجھے اور میری بیٹی کو دیا، اُسے تازیست نہیں بھول سکتا۔

چوتھا اور آخری واقعہ قومی احتساب بیورو (نیب) سے متعلق ہے۔ میرے ایک دوست نعیم صاحب نے اسلام آباد کے ایک پراجیکٹ میں250گز کا پلاٹ بُک کروایا۔ وہ اکثر پراجیکٹ کے آفس، اسلام آباد جاتے رہتے تھے۔ انھوں نے مجھے بھی پلاٹ بُک کروانے کی صلاح دی، تو میں نے بغیر کسی تصدیق اور چھان بین کے ایک پلاٹ بُک کروالیا۔ ابھی چار اقساط ہی جمع کروائی تھیں کہ اس کے جعلی اور فراڈ ہونے کا انکشاف ہوا۔ 

اس طرح ہم دونوں کے پیسے ڈوب گئے۔ بعد میں اس ہائوسنگ پراجیکٹ میں چھاپے وغیرہ بھی پڑے اور اس کے مالک سمیت کچھ لوگ پکڑے بھی گئے، لیکن متاثرین کی کوئی داد رسَی نہ ہوئی اور اس طرح دس سال بیت گئے۔ ہم دونوں بالکل مایوس ہوکر اپنے اپنے پلاٹس کو بُھول بھال چُکے تھے۔ ایک دن مجھے صبح اچانک ایک کال موصول ہوئی۔ فون ریسیو کیا، تو ایک صاحب انتہائی مہذّبانہ اور شائستہ انداز میں گویا ہوئے ’’آپ نے فلاں پراجیکٹ میں جو پلاٹ بُک کروایا تھا، اور اس کی جتنی قسطیں آپ دے چکے ہیں، اُس کا چیک تیار ہے، آپ اصل ڈاکیومینٹس لے کر آجائیں اور اپنا چیک لے جائیں۔‘‘ 

فون پر تفصیل بتانے والے سلمان اکبر ڈائریکٹر انویسٹی گیشن تھے۔ہم نے اُن کی ہدایت کے مطابق ڈاکومینٹس بھیج دیے، جس کے بعد ہمیں ہماری ڈوبی ہوئی رقم مل گئی۔اگرچہ یہ مستحسن اقدام نیب کا ہے، تاہم اس میں ایک کردار اخبار جنگ کا بھی ہے کہ اُس روز مَیں حسبِ معمول سرسری طور پر درمیانی صفحات پر نظر دوڑا رہا تھا کہ انگریزی میں نیب کا ایک کافی بڑا اشتہار نظر سے گزرا، جس میں اُس پراجیکٹ کے متاثرین سے ڈاکومینٹس کی فوٹو اسٹیٹ کاپیز مانگی گئی تھیں، جو مَیں نے بذریعہ ڈاک فوراً بھجوا دی تھی۔ اس کے علاوہ ہم نے کوئی کوشش وغیرہ نہیں کی تھی، بس مایوس ہوکر صبر کرکے بیٹھ گئے تھے۔ اب مَیں سوچتا ہوں اگر جنگ اخبار میں شایع ہونے والا وہ اشتہار میری نظروں سے نہ گزرتا، تو میں اپنی اتنی بڑی رقم سے اب تک محروم ہی رہتا۔ (ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید، کراچی)