• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ رشید احمد میاں محمد نواز شریف کے سب سے قریبی ساتھی تھے۔ ان کی ایک تصویر انٹرنیٹ پر موجود ہے، جس میں نواز شریف کی کسی کامیابی پر وہ ان کا منہ چوم رہے ہیں۔نواز شریف کی مدح سرائی وہ اسی طرح کیا کرتے، جس طرح اب کپتان کی کرتے نظر آتے ہیں۔ مارشل لا لگا اور نواز شریف جلاوطن ہوئے۔ شیخ صاحب نے اعلان کیا کہ راولپنڈی کی دونوں نشستیں جیت کر نواز شریف کے قدموں میں ڈال دوں گا۔ انہی دنوں عمران خان کو ناکام سیاستدان اور تانگا پارٹی چلانے کا طعنہ دیا کرتے۔ جیت چکے تو نشستیں مشرف کے قدموں میں ڈال دیں۔ پھر جس زبان سے نواز شریف کی بڑائی بیان ہوا کرتی، وہ پرویز مشرف کی مدح سرائی کرنے لگی۔ پرویز مشرف کا دور ختم ہوا تو محسوس ہوا شیخ رشید احمد کی سیاست بھی دم توڑ گئی۔ وزارتِ اطلاعات کے دنوں میں میڈیا سے گہرے تعلقات قائم ہوئے تھے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر اب مقبول بیانات داغنے لگے۔مشرف کی پالیسیوں پہ تنقید کرنے لگے۔انتہا یہ تھی کہ مشرف کے خلاف بننے والی دفاعِ پاکستان کونسل میں جنرل حمید گل کے ساتھ والی نشست پہ براجمان ہوتے۔ جس عمران خان کو ناکام سیاستدان ہونے کا طعنہ دیا کرتے، اس کے گن گانے لگے۔ شیخ صاحب آج بھی ایک مقبول سیاستدان ہیں۔ نواز شریف سے پرویز مشرف اور پرویز مشرف سے عمران خان کے در پہ جبیں سائی کو قوم نے خوش دلی سے قبول کیا۔لبِ لباب یہ ہے کہ سیاسی وفاداریاں بدلنے اور وقت پڑنے پر لڑھک کر تھالی کے دوسرے کونے کا رخ کرنے کو عوام کوئی برائی سمجھتے ہی نہیں۔ یہ تو نواز شریف تھے، جنہوں نے ان کو قبول کرنے سے انکارکر دیا ورنہ یہ زبان آج بھی شریف خاندان کا تقدس بیان کر رہی ہوتی۔ نواز شریف نے فوجی چھتری تلے سیاسی جنم لیا۔ 2008ء کے عشرے میں وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو گئے۔ 2018ء سے 2021ء کے درمیان مریم نواز اپنے خلاف کیسز پر فوج اور خفیہ اداروں کو موردِ الزام ٹھہرایا کرتیں۔ آج کی صورتِ حال آپ کے سامنے ہے۔ ایک وہ بھی زمانہ تھا، جب عمران خان نے پرویز مشرف کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش اس لئے مسترد کی کہ چوہدری برادران کو وہ کرپٹ سمجھتے تھے۔انہیں پنجاب کا سب سے بڑ اڈاکو قرار دیا کرتے۔ پھر انہی کو کپتان نے اپنا وزیرِ اعلیٰ بنایا۔ برسبیلِ تذکرہ چوہدری برادران شریفوں، زرداریوں اور عثمان بزدار کے موازنے میں سب سے بہتر ایڈمنسٹریٹر تھے۔ 2018ء میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے عمران خان نے فوج کے سامنےسرنگوں کر لیا۔ ہر کرپٹ سیاستدان کو اپنی جماعت میں قبول کیا۔ فواد چوہدری اور شیخ رشید ایسے لوگ تھے، جو کسی کے ساتھ وفادار نہ تھے۔ دونوں عمران خان کا مذاق اڑایا کرتے۔ آج دونوں کپتان کی آنکھوں کا تارا ہیں اور بابر اعوان بھی۔ یہ کتنا بڑا لطیفہ ہے کہ تین برس عمران خان کو سلیکٹڈ کہنے والے آج اسی کے نقشِ قدم پہ رواں دواں ہیں۔بے نظیر بھٹو کو آج سب سے بڑا سیاستدان قرار دیا جاتا ہے۔ پرویز مشرف جب نامقبول ہو چکے، عدلیہ بحالی مہم کے دوران ان کا اقتدار جب لڑکھڑا رہا تھا توبی بی این آر او حاصل کرنے میں مصروف تھیں۔ محترمہ کے مظلومانہ قتل نے مگر سب گناہ دھو ڈالے۔آصف علی زرداری پر بے پناہ الزامات تھے۔ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور تھے۔ خود بے نظیربھٹو نے انہیں سیاست کے کوچے سے دور رکھا ہوا تھا۔ انہیں اس قوم نے اپنا حکمراں بنایا۔ جواب میں پانچ سال ملک نے اوسطاً دو فیصدکی شرح سے ترقی کی، ملکی تاریخ میں سب سے کم۔ شیخ رشید احمد عمران خان کو خوش کرنے کیلئے بلاول بھٹو پہ آوازے کستے ہیں۔کبھی نواز شریف کو خوش کرنے کیلئے بے نظیر پہ۔وہ لوگ جو کچھ عرصہ پہلے اشتہاری تھے اور جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا استعارہ بن کے دمک رہے تھے، وہ اب حکومت میں ہیں۔ سب انہیں سلیوٹ کررہے ہیں۔ عوام کی حالت یہ ہے کہ آپ جی بھر کے وفاداریاں بدلیں، کرپشن کریں، پھر عوامی امنگوں کے مطابق درجن بھر بیانات داغ دیں تو سب گناہ معاف۔ سوشل میڈیا کی حالت یہ ہے کہ آپ نے کسی لیڈر کی حمایت کرنی ہے تو غیر مشروط اور مکمل اور اگر مخالفت کرنی ہے تو بھی غیر مشروط۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ عمران خان اچھا لیڈر ہے مگر اس میں ایک خامی بھی پائی جاتی ہے۔ ایسا جملہ سرزد ہونے کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ آپ پٹواری ہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نواز شریف ایک برا لیڈر ہے مگر اس میں ایک اچھائی بھی پائی جاتی ہے، آپ کو یوتھیا سمجھ لیا جائے گا۔ کپتان جب ملک کے طول و عرض سے فردوس عاشق اعوان جیسے لیڈر اپنی پارٹی میں بھرتی کر رہاتھا تو کہیں کوئی ذرا سا احتجاج بھی نوجوانوں نے نہیں کیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ جو شخص بھی تحریکِ انصاف میں شامل ہوجائے، اس کے تمام گناہ ایسے دھل جاتے ہیں، جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے نکلا ہو۔اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہو سکتاہے کہ جو شخص آصف علی زرداری کے دور میں معیشت کابھٹہ بٹھا کر رخصت ہوا تھا، وہی اب عمران خان کے دور میں اسے پٹڑی پہ چڑھائے گا۔ ایک میوزیکل چیئر ہے۔ گنے چنے کردار جو ماسک بدل کر اس کا طواف کرتے اور موقع ملنے پہ تخت نشین ہو جاتے ہیں۔کیسی قو م ہے کہ لیڈروں کا داغدار ماضی پلک جھپکتے بھلا دیتی ہے۔کیا یہ قوم مستحق نہیں کہ ٹھوکر پہ ٹھوکر کھاتی رہے؟ مقدر بدلناہے تو ہمیں اپنا چلن بدلنا ہوگاورنہ وہی صحرا کا سفر....ورنہ وہی سراب!

تازہ ترین