• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی،پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیوں سے استعفے اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کو از خود تحلیل کر کے عمران خان پچھتا رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو عمران خان کی ساری سیاست انا پرستی، تکبر اور پچھتاوے پر مبنی ہے۔ سیاسی مخالفین کو سیاسی کم اور ذاتی مخالف زیادہ سمجھتے ہیں۔ وہ کسی بھی ادارے اور شخصیت کو اس وقت تک دوست کہتے ہیں جب تک وہ ان کی مرضی پر چلتے ہوں اور ان کے سیاسی مفادات و خواہشات کو پورا کرنے میں معاون ہوں۔ ورنہ وہ کردار کشی اور الزامات لگانے میں دیر نہیں لگاتے۔ ان کی سوشل میڈیا ٹیم اس معاملے میں ان سے زیادہ متحرک اور پرجوش ہے۔ عمران خان کو اس بات کا احساس ہوتا ہے نہ ہی شرمندگی کہ میں نے کل جو بات کی تھی آج اسی بات سے منکر ہو کر بالکل متضاد بات کیسے کر سکتا ہوں؟ ہم عام لوگ جب کوئی بات کرتے ہیں تو پھر اس بات سے منکر ہونامشکل ہوجاتا ہے۔ وہ تو اپنے آپ کو قومی رہنما سمجھتے اور کہلواتے ہیں۔ ہمارے معاشرےمیں اپنی بات سے منکر ہونے والے کو جھوٹا کہا اور سمجھا جاتا تھا اب نئی اور انگریزی اصطلاح میں اس کو یوٹرن کہتے ہیں۔ خدا جانے یہ کیسی سیاست ہے اور وہ کیسے لوگ ہیں جو یوٹرن کو درست سمجھتے ہیں۔

عمران خان کو حادثاتی طور پرملنے والے اقتدار کے خاتمے کی بنیاد ایک سائفر کو سمجھا گیا اور اقتدار کے خاتمے کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا گیا۔ پھر بہت سے یوٹرن لئے گئے مگر اب سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کواپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ آگے کون ذمہ دار سامنے آئے گا یہ تو خدا جانتا ہے یا عمران خان ۔ موجودہ حکومت کو امپورٹڈ حکومت اس لئے کہا جا رہا تھا کہ یہ حکومت امریکی سازش کی وجہ سے بنی ہے۔ اور امریکہ ہی عمران حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ہے۔ ’’ہم کوئی غلام ہیں؟‘‘ اور ’’ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ والے نعرے تو سادہ لوح اور سحر ِعمران میں مبتلا کارکنوں نے اپنی گاڑیوں کے پیچھے بھی لکھوائے تھے۔ یہ معلوم نہیں کہ ان کارکنان کے پاس اب گلی محلے والوں کے مذاق کا کیا جواب ہوگا؟ بہرحال وہ ایک زیرک سیاست دان ہیں۔ ملک و قوم کے اتنے ہمدرد ہیں کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کی وجہ سے بہت پریشان ہیں ،اس لئے وہ ضمنی انتخابات کرانے پر زور دے رہے ہیں۔ ان کی نظر میں فوری ضمنی الیکشن ہی ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کا واحدحل ہیں۔

سازش کی کہانی کے کچھ ہی مہینوں یا ہفتوں کے بعد عمران خان نے ملک میں فوری عام انتخابات کرانے کا نیا واویلا شروع کیا، جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جلد ہی ان کو معلوم ہوا کہ یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں ہے تو سیاسی عدم استحکام کو مزید ہوا دینے کیلئے پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیوں کو از خود تحلیل کرایا۔ حالانکہ اس سے کئی ماہ قبل انہوں نے اپنی جماعت کے کئی اراکین قومی اسمبلی سے استعفے دلوائے تھے، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہواتھا اور پھر یوٹرن لے کر انہی اراکین، جن کے استعفے منظور کئے گئے تھے ،کوعدالت بھیجا کہ ان کے استعفے کیوں منظور کئے گئے؟ ان غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے اپنی ان دو حکومتوں کا از خود خاتمہ کیا۔ اب وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ان مستعفی ارکان کی نشستوں پر فوری ضمنی الیکشن کرائے جائیں۔ جس کیلئے وہ عدالت بھی گئے اور لاہور ہائیکورٹ نے ان کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے نوے دن کے اندر ان نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانے کا حکم صادر فرمایا ہے۔

حیرت ہے کہ اب تک کسی نے نہ تو اس پر غور کیا نہ ہی یہ پوچھا گیا کہ جب دوبارہ ا نہی نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانے کا شور مچایا جا رہا ہے تو پھر استعفے کیوں دیے گئے تھے؟ کیا اس کا مقصد یہ تونہیں کہ قوم کا پیسہ اور وقت ضائع کیا جائےجب کہ ملک سخت ترین معاشی بحران سے دوچار ہے اور ان ضمنی انتخابات پر اربوں روپے کا خرچ آتا ہے جس کا ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتابلکہ بہت زیادہ نقصان ہوتاہے۔ اگر غور کریں تو اس سارے ڈرامے کے تین مقاصد نظر آتے ہیں۔ پہلا مقصد یہ کہ انہیں اپنی نااہلی اور گرفتاری کا یقین ہوگیا ہے اور اس سے بچنے کے لئے وہ یہ کوشش کر رہے ہیںکہ ضمنی الیکشن کا سرکس لگایا جائے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھایا جائے۔ تیسرا مقصد یہ ہے کہ اس بے مقصد کام پر قوم کے اربوں روپے اور وقت ضائع کرا کے عوام کی معاشی مشکلات میں اضافہ اور ملک کے معاشی بحران کو مزید بڑھایا جائے۔ اس صورتحال پر متعلقہ اداروں، حکومت اور سیاست دانوں کو غور کرنا چاہئے۔ خدارا اس ملک کو مزید معاشی تباہی سے بچائیں۔

اگر پھر بھی حکومت، الیکشن کمیشن اور متعلقہ اداروں کی ایسی مجبوری ہے کہ’’ جیب وچ نئیں دھیلہ تے کردی میلہ میلہ ‘‘کے مصداق ہر صورت عمران خان کی یہ خواہش پوری کرنی ہی ہے تو پھر ضمنی الیکشن قومی و صوبائی نشستوں پر ایک ہی دن کرائے جائیں۔ یہ تو سب متعلقہ لوگ جانتے ہیں کہ اس بے مقصد مشق پر ویسے بھی اربوں روپے ضائع ہوتے ہیں تو پھر الگ الگ دنوں میں یہ الیکشن کرانے سے دگنا خرچہ ہوگا۔ خدارا اس مفلوک الحال قوم پر کچھ تو رحم کیا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین