جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا ہے کہ بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے کسی ملک میں نیب جیسے قوانین ہیں؟
سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت میں جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر نیب قانون اچھا ہے تو ملک کو نیب قانون سے حاصل ہونے والے فائدے پر کسی آزاد ادارے نے کوئی رپورٹ بنائی ہے؟
انہوں نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم کتنی ہی بری کیوں نا لگیں عدالت میں صرف یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ بنیادی حقوق کے خلاف ہیں یا نہیں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بنچ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا نیب ترامیم سے متعلق بھارتی قانون کا حوالہ دیں گے؟ بھارتی قانون میں احتساب کے عمل کو بنیادی انسانی حقوق سے جوڑا گیا ہے۔
انہوں نے پوچھا کہ بھارت کے مطابق قانون کی بالادستی بھی بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتی ہے۔
وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے تمام سوالات کا جواب تحقیق کر کے دوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سزا پر چھوٹ مل سکتی ہے تو کیا جرم کہ شدت بھی کم کی جا سکتی ہے؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عمران خان نے نیب قانون میں خود بھی ترامیم کیں تاہم کبھی یہ نہیں ہوا کہ ترامیم کرنے والا شخص خود بعد میں انہیں چیلنج کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے نیب ترامیم سے متعلق پارلیمنٹ میں بحث اور ووٹ میں حصہ نہیں لیا تو کیسے مفاد عامہ کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت نیب ترامیم چیلنج کر سکتے ہیں؟
وفاقی حکومت کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ اگر عوامی مفاد تھا تو عمران خان نے نیب ترامیم پر پارلیمنٹ میں کوئی بل کیوں نہیں پیش کیا؟
وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کہا کہ نیب ترامیم سے جرائم کا اثر ختم کیا گیا اور ماضی سے اطلاق غلط ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے مطابق ثبوت کا بوجھ استغاثہ پر ڈالنے سے ملزمان بری ہوں گے، اس لیے میں یہ ثابت کروں گا نیب ترامیم سے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔
نیب قانون میں دو بار ترامیم 2019، تین بار 2021 اور ایک بار 2022 میں ہوئیں. عدالت نے کیس کی مزید سماعت 23 فروری تک ملتوی کردی۔