• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم نے وطن عزیز میں سیاست کے کئی دور اور اونچ نیچ دیکھی ہے۔ سیاسی اختلافات اور اقتدار کی کرسی کے لئے جوڑ توڑ بھی دیکھے ہیں۔ سیاسی حریف اور حلیف بھی دیکھے ہیں۔ کئی نئی بنتی اور ختم ہوتی جماعتیں بھی دیکھی ہیں۔ لیکن ان تمام ادوار اور سیاسی اختلافات میں اخلاقیات کی ایسی گراوٹ کبھی نہیں دیکھی جو کچھ عرصہ سے نظر آرہی ہے۔ نہ ہی سیاست میں ایسے یوٹرن دیکھے جو کچھ عرصہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے یہ بھی کبھی نہیں دیکھا کہ ملک و قوم کے بجائے سیاسی مفادات اور حصول اقتدار کو اس حد تک ترجیح دی گئی ہو۔ ویسے تو سیاست ہمارے ہاں ذاتی مفادات اور خواہشات و اقتدار کے حصول کے لئے کی جاتی ہے لیکن اس کے لئے ہماری سماجی اور اخلاقی شائستگی و روایات کو اس حد پامال تک ہوتے نہیں دیکھا جو کچھ عرصہ سے ہوتا نظر آرہا ہے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ سیاستدان سوچ سمجھ کر بولتے تھے۔ اور ایسی کوئی بات نہیں کرتے تھے جس سے کل ان کو یوٹرن لینا پڑے کیونکہ وہ یہ سوچتے تھے کہ اپنی بات سے یوٹرن لے کر کل وہ کس طرح عوام بالخصوص اپنے حلقے کے لوگوں کاسامنا کریں گے۔ ان سب خرافات، یوٹرنز اور واہیات کے علاوہ اہم ترین بات جو نہایت افسوسناک ہے وہ حصول اقتدار کے لئے ملک کو معاشی طورپر برباد کرنے اور عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں ہیں۔ اور دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کے لئے نرم گوشتہ رکھنے کے بیانات اور اقدامات کرنے کی ناکام کوششیں ہیں۔ آج ملک جن معاشی مشکلات سے دوچار ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ کوئی بھی موجودہ کمر توڑ مہنگائی سے انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ بھی تو دیکھنا ضروری ہے کہ اس تمام صورتحال کی بنیاد کس نے رکھی۔ کس نے دوسابق صوبائی وزرائے خزانہ کو فون کرکے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے پر زور دیا تھا؟ وہ کون تھے جنہوں نے موجودہ کڑی شرائط پر پہلے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور جب اقتدار کا خاتمہ محسوس ہوا تو معاہدہ توڑ کر ملک کے لئے معاشی مشکلات میں اضافے کی بنیاد رکھی۔ وہ کون تھے جنہوں نے اپنے دور حکومت میں اپنے لوگوں کو نوازنے کے لئے پہلے گندم اور چینی برآمد کرنے کی اجازت دی اور بعد میں ان چیزوں کی قلت پیدا کرکے درآمد کرنے کی منظوری دی؟ اس طرح ان کے منظور نظر لوگوں نے دگنا منافع کمایا لیکن قوم کو کئی گنا مشکلات اور مہنگائی کے بھنور میں پھنسایا۔ یہ بھی وہی تھے جنہوں نےا پنے دورا قتدار میں اپنے سیاسی حریفوں اور صحافت سے وابستہ کئی افراد کو بدترین انتقام کا نشانہ بنایا، ان کو جیلوں میں ڈالا۔ سیاسی مخالفت اور سچ لکھنے اور بولنے پر بعض اخبارات اور ٹی وی چینلز پر مخصوص پابندیاں لگوائیں۔ ان کے اشتہارا ت بند کروائے۔ جیلوں میں ڈالا۔ کئی صحافیوں کو ملازمتوں سے فارغ کرایا۔ ان میں کئی صحافی شدید مالی مشکلات سے دوچار رہے۔ آج وہی صحافتی آزادی اور صحافیوں کے حقوق کے نام نہاد علمبردار بننےکی کوشش میں ہیں۔ یہ کیسی سیاست ہے؟ ان کے دور اقتدارمیں وزرا پیٹرول کی قیمت تین سو روپے لیٹر تک پہنچانے کی باتیں کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کررہے تھے۔ وہی تھے جو لوگوں کو ایک روٹی کھانے کی ترغیب دیتے تھے آج وہی لوگ مہنگائی کا واویلا کررہے ہیں۔

ان ہی کے ایک وفاقی وزیر نے بیان دیا تھا کہ صوبہ کے پی کے میں کوئی کچا گھر نہیں ہے۔ کوئی سواری کے بغیرنہیں ہے۔ کوئی بے روزگار نہیں ہے۔ حالانکہ نو سالہ دور حکومت میں اس بدنصیب صوبہ میں وہاں کے عوام کے لئے نہ کوئی منصوبہ بنا نہ کسی کو کوئی بنیادی سہولت حاصل ہوئی۔پورے ملک میں کوئی ایسا منصوبہ اور کارنامہ نہیں ہے جس کا سابقہ حکومت اپنی تقاریر اور بیانات میں ذکر کرسکے سوائے ایک ہیلتھ کارڈ کے۔ اس سے بھی کتنے لوگوں کو فائدہ ملا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ اس لئے ان کا ہر بیان اور تقریر سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالنے سے شروع اور اسی پر ختم ہوتی ہے۔ یہ کیسی سیاست ہے جس میں سوائے سیاسی مخالفین پر الزامات لگانے اور ہر بات سے یوٹرن لینے کے اور کچھ نہیں ہے نہ ملک کے لئے نہ قوم کے لئے۔ اس انتقامی اور الزامی سیاست سے نہ تو کوئی ادارہ محفوظ ہے نہ کسی ادارے کا سربراہ اور نہ ہی سیاسی مخالفین محفوظ ہیں۔ ایسےطرز سیاست کو بھلا کون سیاست کہے گا۔ یہ تو سیاست کو بدنام ، گندہ اور گدلا کرنے کا بدترین طریقہ ہے۔

قوم یہ پوچھ سکتی ہے کہ کشمیر کے نام نہاد وقتی سفیر نے کشمیریوں کے لئے کون سا عملی کام کیا جس سے ان کا حق تو درکنار کوئی راحت کا لمحہ ہی ملا ہو بلکہ اس کےبجائے کشمیر کے اسی سفیر کے دور حکومت میں کشمیریوں کو ان کی خصوصی حیثیت سے ہی محروم کردیا گیا۔عمران خان نے نام نہاد امریکی سائیفر کا ڈرامہ کیا جس کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات میں زبردست تنائو آیا اور اس تنائو کی وجہ سے پاکستان کوبہت مشکلات کا سامنا رہا۔ اب کہیں جاکر آہستہ آہستہ برف پگھل رہی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جتنی کوششیں کی گئیں اور واقعی دہشت گردوں کو پاکستان سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ لیکن سابقہ دور حکومت میں دہشت گردی میں ملوث افراد کے لئے نرم گوشتہ رکھنے کی وجہ سے ان کے حوصلے بڑھتے گئے۔ غور کرنا چاہئے کہ آخر اب ایک بار پھر یکدم دہشت گردی میں کیوں اضافہ ہورہاہے۔ ملک میں عدم استحکام کیوں پیدا کیا جارہا ہے۔ ضمنی الیکشن کا عجیب مطالبہ اور ناکام جیل بھرو تحریک کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کا ساتھ دینے والے جو چند لوگ ہیں ان کو سوچنا چاہئے کہ جو ’’لیڈر‘‘ خود گرفتاری سے بچنے کے لئے ضمانتیں کرا رہا ہے ان کے کہنے پر کوئی عقلمند جیل کیوں جائے؟

تازہ ترین