• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدترین معاشی حالات نے وطن عزیز کی سفارتی جہتوں پر بھی کاری زخم لگا ئے ہیں۔ جس کا جو جی چاہتا ہے کہہ دیتا ہے اور جو چاہتا ہے مطالبہ دھر دیتا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ تو یہ اب ہر کس و ناکس کے علم میں ہے کہ ڈاکٹرائن ڈائن ثابت ہوئی۔ تازہ ترین مثال روسی سفیر کے خیالات ہیں جو انہوں نے سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر نہ رکھتےہوئے برملا بیان کردیے۔ وزارت خارجہ صرف اس کا نوٹس لینے تک محدود ہو گیا حالانکہ درکار تو یہ تھاکہ ان سے باضابطہ طور پر احتجاج کیاجاتا اور استفسار کیا جاتا کہ کیا ماسکو میں متعین پاکستانی سفیر اگر روس کی داخلی سیاست جو سراسر آمریت ہے، پر لب کشائی کریں تو آپ کے لئے قابلِ قبول ہوگی ؟ روس کا درحقیقت مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ وہ جب بھی موقع پاتا ہے تو دوسروں کے داخلی مسائل میں ٹانگ اڑانے کو اپنا حق تصور کرنے لگتا ہے اور یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی روس سے ماضی میں بھی دوریاں بڑھتی چلی گئیںورنہ شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے اپنے پہلے دورۂ امریکہ میں امریکی سرزمین پر کھڑے ہوکر بھی دورۂ روس کی بات کی تھی اور یہ دورہ صرف روسی حکام کی سرد مہری کی وجہ سے نہ ہو سکا تھا۔ روس اور روس کے زیر اثر افغانستان کی جانب سے پاکستان کو اپنے قیام کے وقت سے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ انیس سو اکہتر کی جنگ کے ذہنی صدمے نے ہمیں بطور قوم اس طرز عمل کی جانب راغب کر دیا کہ ہر امر میں اپنے آپ کو کوسے جاؤ ، مطعون کئے جاؤ اور اس کیفیت کو بڑھاوا دینے میں لبرل دانش وروں نے خوب کردار ادا کیا اور ان کو یہ کردار ادا کرنے کا موقع تواتر سے ملتا رہا کہ سب کیا دھرا پاکستان کا ہے ورنہ روس افغانستان کے پختون علاقوں میں قیام پاکستان کے وقت سے جو کردار ادا کر رہا تھا ،جو سازشیں اور مسلح گروہوں کی صف بندی کر رہا تھا اس کا ہی ایک تسلسل ہے جس نے پاکستان اور افغانستان کو آج تک جکڑا ہوا ہے اور یہ سب کرنے کے دوران وہ پختونوں سے بھی کتنا مخلص تھا، اس معاملے کو سمجھنا ہوگا، جاننا ہو تو فقیرایپی کی رزمک کی تقریر کا مطالعہ کر لیجئے کہ وہ کس طرح اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل کے لئے پختون قومیت کو استعمال کر رہا تھا اور اسی لئے انہوں نے اپنی تقریر میں پختونوں کو نصیحت کی تھی کہ آئندہ کبھی افغانستان کے بہکاوے میں آکر پاکستان کی مخالفت نہ کریں۔ خیال رہے کہ فقیرایپی قرارداد بنوں کے روح رواں ، پشتونستان نیشنل اسمبلی کے پہلے صدر اور افغانستان کی زیر سرپرستی چلنے والی مسلح سرگرمیوں کے سربراہ تھے اور یہ واضح رہے کہ اس وقت بھی افغانستان کی سرپرستی کےمعنی در حقیقت روس اور بھارت کی سرپرستی تھا ۔ فقیر ايپی جلد ہی یہ سب سمجھ گئے تھے ۔ اس سب کو دھرانے کا مقصد یہ ہے کہ روس کے حوالے سے ہر قدم احتیاط کا متقاضی ہے، یہ امر بہت خوش آئند ہوگا کہ پاکستان کے روس سے تجارتی تعلقات بڑھیں، روس سے پیٹرول خریدا جائے ، جذبۂ خیر سگالی بڑھے ،مگر کسی طور کسی کو بھی داخلی معاملات پر لب کشائی کرنے کی اجازت دینے یا ایسا رویہ برداشت کرنے سے عبارت نہیں ہونا چاہئے۔ ہم پہلے ہی روس یوکرائن جنگ کے معاملے میں غیر جانبداری اختیار کرکے اپنی طے شدہ اصولوں سے انحراف کر چکے ہیں پاکستان کی یہ طے شدہ ریاستی پالیسی ہے کہ ہم کسی بھی ملک کی خودمختاری، اقتدار اعلیٰ پر کسی کے بھی حملے کو درست نہیں گردانتے اور ایسے معاملے پر غیر جانبدار نہیں رہتے بلکہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ امریکہ کی دنیا میں ایک مسلمہ حیثیت ہے۔

جذباتی نعرے ایک طرف مگر پاکستان کو اس کی متعدد امور میں ضرورت بھی ہے مگر اس سب کے باوجود جب اس نے شام میں طاقت کے بل بوتے پر حکومت کی تبدیلی کی کوشش کی ، اس کی خود مختاری کو پامال کیا تو اس وقت وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اس طریقہ کار کی واشگاف الفاظ میں مخالفت کی اور اس امر کو دہرایا کہ پاکستان قوموں کی خودمختاری کے احترام کے نظریے پرعمل پیرا ہے۔ ہم نے مگر روس یوکرائن جنگ میں اس پالیسی کو ایک طرف رکھتے ہوئے غیر جانب دار رہنے کی حکمت عملی اختیار کی حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان روس کی جارحیت پر اس کی مذمت کرتا جو کہ ایک اصولی مؤقف ہے ۔ پاکستان موجودہ مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی غرض سے ہر جگہ ہاتھ پاؤں چلا رہا ہے ۔ اس ضمن میں امریکہ سے گفتگو جاری ہے ۔اس گفتگو میں پاکستان کو چاہئے کہ وہ امریکہ کو باور کروادے کہ ہم یہ هہرگز نہیں چاہتے کہ کسی بھی ملک چاہے وہ امریکہ ہو یا چین کہ ہم پران کے غیر معمولی قرضے واجب الادا ہو جائیں ۔ اس گفتگو کے دوران ایک اعتبار سے امریکہ کا رویہ تسلی بخش ہے کہ وہ یہ کہہ رہا ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کسی امریکی یا چینی بلاک کا حصہ بن جائے با لفاظ دیگر چین اور امریکہ کے موجودہ تعلقات میں وہ پاکستان کو کسی کشمکش میں ڈالنانہیں چاہتا ۔ ہمیں امریکہ کی اس پوزیشن سے فائدہ اٹھانے کیلئے سفارتی محاذ پر مزید سر گرم ہو نا چاہئے۔

تازہ ترین