• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظیر فاطمہ، لاہور

بعض اوقات انسان کسی کو دیکھے، جانے اور ملے بغیر بھی اُس سے بلاوجہ کا بَیر باندھ لیتا ہے۔ ایسا ہی بیر مہرین نے بھی پال رکھا تھا، اور کس کے خلاف… بالکل ایک اَن جان ہستی کے خلاف، جس سے کبھی ملنا تو درکنار، وہ اُس کی شکل و صُورت سے بھی واقف نہ تھی۔ وہ ہستی تھی ماریہ کی بھابھی… ماریہ کون…؟ ماریہ اُس کی کولیگ تھی، مگر دونوں میں خاصی حدتک دوستی کا رشتہ پروان چڑھ چُکا تھا۔ دراصل ماریہ کی زبانی اُس کی بھابھی کے بارے میں بہت کچھ سُن سُن کر وہ ان سے متنفّر ہوگئی تھی۔

’’ایسا بھی کوئی کٹھور دل اور متکبّر ہو سکتا ہے بھلا کہ اپنی بیمار ساس کو نگاہ اٹھا کے نہ دیکھے، آخر کو وہ اُس کے شوہر کی ماں ہے۔‘‘ مہرین سوچتی۔

دس بج چُکے تھے۔ ماریہ ابھی تک دفتر نہیں پہنچی تھی۔ مہرین کو پریشانی ہو رہی تھی۔ ماریہ نے کوئی اطلاع بھی نہیں دی تھی ابھی تک۔ مہرین اُسے فون ملانے لگی۔ ’’ہاں یار! پہنچ رہی ہوں بس آدھے گھنٹے میں۔‘‘ کال ریسیو کر کے ماریہ نے بس اتنا کہا اور فون بند کر دیا۔

’’السّلام علیکم‘‘ مہرین پوری توجّہ کے ساتھ کام میں مگن تھی، جب اُسے ماریہ کی آواز سنائی دی۔ مہرین نےفوراً کرسی گُھما کر اس کی طرف رُخ کیا، جو میز پر اپنی چیزیں رکھ رہی تھی۔ ’’کہاں رہ گئی تھی یار…بندہ ایک ٹیکسٹ ہی کر دیتا ہے۔‘‘مہرین نے شکوہ کیا۔ ’’کہاں رہنا تھا، میڈ آج پھر چُھٹی پر تھی۔ امّی کو صاف ستھرا کر کے ناشتا کروا کر آرہی ہوں۔‘‘ ماریہ کا مُوڈ بگڑا ہوا تھا۔’’اورخود ناشتا کیا ؟‘‘مہرین نے پوچھا۔ ’’کہاں، وقت ہی نہیں ملا۔‘‘ ماریہ نے کہا۔ ’’اچھا تم بیٹھو، مَیں تمھارے لیے کافی اور سینڈوچ منگواتی ہوں۔‘‘ مہرین کا اُس پر ترس آیا، جو اکثر ہی بغیر ناشتے کے آفس آجاتی تھی۔

’’بھابھی کہاں تھی تمھاری…‘‘’’کہاں ہوتی ہے، سو رہی تھی مزے سے… اُس نے کبھی نیچے اُتر کر دیکھا ہے اتنی صبح، جو آج آجاتی۔‘‘ ماریہ نے تلخی سے کہا۔’’اچھا چلو، موڈ ٹھیک کرو۔‘‘مہرین اُس کے لیے کافی اور سینڈوچ لینے چلی گئی۔

ماریہ کی امّی وہیل چئیر پر تھیں۔ اُن کو سنبھالنے کے لیے ایک بندے کی ہر وقت ضرورت ہوتی تھی۔ ماریہ سب سے چھوٹی تھی۔ دو بھائی مُلک سے باہر تھے۔ ایک بھائی اور بھابھی اپنے دو بچّوں کے ساتھ اُن کےگھر کے اُوپر والے پورشن میں رہتا تھا۔ اُس کی بھابھی نیچے کم کم ہی آتی تھی۔ اُس نے اپنی ساس کی قطعاً کوئی ذمّے داری نہیں اٹھا رکھی تھی۔ جس دن میڈ چُھٹی کر لیتی، ماریہ کو اپنی امّی کو سنبھالنا پڑتا اور وہ چڑچڑی سی ہو جاتی۔

’’امّی! پتا نہیں کیا چیز ہے، یہ ماریہ کی بھابھی بھی…بندہ ساس سمجھ کر نہ سہی، انسان سمجھ کرہی کوئی شرم، لحاظ کر لیتا ہے۔‘‘ مہرین نے آج ہونے والا سارا واقعہ امّی کے گوش گزار کرنے کے بعد کہا۔

’’ بس بیٹا! یہ دنیا ایسی ہی ہے،بے فیض لوگوں سے بھری ہوئی۔کہیں ساس ظالم، تو بہو مظلوم اور کہیں بہو ظالم، تو ساس مظلوم۔‘‘ امّی نے بڑے سبھائو سے کہا۔ ’’میرا دل چاہتا ہے کہ کبھی موقع ملے، تو مَیں اُس کی بھابھی کو خُوب سنائوں۔‘‘ مہرین نے تنفر سے کہا۔’’ہر کسی کے گھر کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ تم اُن کےذاتی معاملات میں زیادہ دخل اندازی مت کیا کرو۔‘‘ امّی نے اُس کے انداز پر اُسے سختی سے ٹوکا تو وہ ’’اونہہ‘‘ کہہ کر رہ گئی۔

چُھٹی کا دن تھا۔ مہرین صبح سویرے اُٹھی اور لان میں چلی آئی۔ ہارسنگار کےدرخت کے پاس پہنچ کر وہ رُک گئی۔ رات کے کسی پہر کِھلنے والے سفید پھول، درخت کے آس پاس بکھرے ہوئے تھےبلکہ درخت کے نیچے گھاس پرنارنجی ڈنڈیوں والے سفید پھولوں کی ایک چادر سی بچھی ہوئی تھی۔ مہرین نے گہری سانس بھرکراِس منظر کی تازگی کو اپنے اندر سمویا۔ معاً اس کا فون گُنگنا اُٹھا۔ ماریہ کی کال تھی۔ اس کی امّی وہیل چئیر اُلٹنے سے گر گئی تھیں اور وہ اُنھیں اسپتال لے کر گئی تھی۔

شام کو مہرین امّی سے اجازت لے کرماریہ کی امّی کی عیادت کے لیے اُس کے گھر گئی۔’’آج اگر ماریہ کی بھابھی سے میرا سامنا ہوا ناں، تو مَیں اُنھیں جَتا ضرور دوں گی کہ ان کا طرزِ عمل غلط ہے۔‘‘ اُس نے خاصی تلخی سے سوچا۔ ماریہ کی امّی کا حال چال پوچھ کر وہ کمرے سے باہر آئی، تو ماریہ اسے لاونج میں بٹھا کر اُس کے لیے چائے بنانے چلی گئی۔

’’السّلام علیکم‘‘ ایک نسوانی آواز پر سر اُٹھا کر دیکھا، تو سامنے ایک ڈاکٹر صاحبہ کھڑی تھیں۔ مہرین سمجھی، ماریہ کی امّی کو چیک کرنے آئی ہوں گی۔ ’’ماریہ…!‘‘ مگر اُنھوں نے تو وہی کھڑے کھڑے ماریہ کو آواز دی۔ ’’یہ امّی کی دوائیاں ہیں…رات کھانے کے بعد دینی ہیں۔ مَیں ابھی اُن کا بلڈپریشر چیک کرتی ہوں۔ پھر اُوپر جا کر بچّوں کے لیے کھانے کا کچھ انتظام کروں گی۔ تم امّی کو دوائیاں دے دینا۔ رات کے لیے مَیں نے ایک نرس کا بندوبست کر لیا ہے، وہ سب دیکھ لے گی، تم فکر نہ کرنا، ‘‘ ماریہ نے ان کے ہاتھ سے دوائیاں پکڑ لیں، تو وہ اُس کی امّی کے کمرے میں چلی گئیں۔

’’یہ کون تھیں…؟‘‘مہرین نےپوچھا۔’’میری بھابھی صاحبہ۔‘‘ ماریہ نے طنز بَھرے انداز میں کہا، تو مہرین جیسےشرمندگی کے گہرے سمندر میں غرق سی ہوگئی۔ وہ تو ماریہ کی بھابھی کو ایک عام سے گھریلو عورت سمجھتی تھی، جو بس سُسرال والوں کی مخالفت میں جُتی رہتی ہے۔

’’ماریہ!یہ تو ڈاکٹرہیں۔‘‘مہرین کے منہ سے بےاختیار نکلا۔ اُس کے اُوپر ایک چادر آن گری تھی…اور وہ حیرت کی چادر تھی۔ ’’ہاں تو کیا کروں، ڈاکٹر ہیں تو…بس ابّا کو شوق تھا، ڈاکٹر بہو لانے کا۔‘‘ ماریہ کا لہجہ ہنوز جلا کَٹا تھا۔ ’’یار! تم جس طرح اُن کا ذکر کرتی تھی، مَیں تو اُنھیں کوئی بہت ہی فارغ، سُست قسم کی خاتون سمجھتی تھی۔ یہ تو بے چاری خُود اتنی مصروف ہوتی ہوں گی۔ اسپتال کی سخت ڈیوٹی، بچّوں کی دیکھ بھال، پورے گھر کو سنبھالنا… پھر بھی تمھیں اِن سے شکایت ہے۔‘‘ مہرین کو تصویر کا دوسرا رُخ نظر آیا، تو اُسے اپنی سوچ پر بھی افسوس ہوا۔

’’ہاں تو کیا کریں…عورت کو سُسرالیوں کی خدمت تو کرنی پڑتی ہے، بھلےوہ جہازہی اُڑاتی ہو۔‘‘ مہرین کو ماریہ کی سوچ پر سخت افسوس ہوا۔ اُس کے دل میں ماریہ کی بھابھی کے لیے نفرت کا تناور درخت حقیقت کی ہوا کا تھپیڑا کھاتے ہی گرگیا تھا۔

’’ماریہ! ہم لوگ بہت دوغلے ہیں۔ ہمیں ڈاکٹر بہو بھی چاہیے اور پھر ہم اُسے سسرال میں ذرا سا مارجن بھی نہیں دیتے۔ انسان ہونے کا مارجن بھی نہیں دیتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ میڈیکل کے میدان میں جھنڈے بھی گاڑے اور گھر میں جھاڑو پونچھا بھی کرے۔‘‘ مہرین نے تاسف سے کہا۔ وہ اپنی زبان پر مصلحت کا تالا نہیں لگا سکی، تو صاف بات کردی۔ اب اُسے سمجھ آیا کہ جب وہ صبح سو رہی ہوتی ہو ں گی، تو اسپتال میں نائٹ ڈیوٹی بھگتا کر آتی ہوں گی، پھر بچّوں کو اسکول بھیج کر گھڑی دو گھڑی سو جاتی ہوں گی، جس پر ماریہ تپی رہتی تھی۔

’’چھوڑو،تم یہ لیکچر…چائے پیو۔‘‘ ماریہ نے بے زاری سے کہا۔ مہرین نے چائے کا کپ لبوں سے لگا لیا۔ مگر…اُس نے دل ہی دل میں عہد بھی کیا تھا کہ آئندہ وہ کبھی کسی کے بارے میں محض یک طرفہ کہانیاں سُن سُن کر اپنی رائے قائم نہیں کرے گی۔ ہمیشہ تصویر کے دونوں رُخ دیکھ کر ہی رائے قائم کیا کرے گی۔ اور…ماریہ کے گھر سے نکلتےہوئے اُس نے ماریہ کی بھابھی سے باندھا ہوا بیر بھی اپنے دل سے نکال کر کچرے دان میں پھینک دیا۔