• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدی کی قوّتیں ریاستِ مدینہ سے نئی جنگ کے لیے تیار

یثرب سے مدینہ منوّرہ تک، ایک مستحکم اسلامی ریاست کے قیام کا سفر جاری تھا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم ریاستِ مدینہ کے استحکام اور مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے دن رات مصروفِ عمل تھے۔ آپؐ کی دلی تمنّا اور انتہائی کوشش تھی کہ پورے جزائرِ عرب میں امن و امان قائم ہو جائے، لیکن نبیوں کی قاتل قومِ یہود، بُتوں کے پجاری کفّار و مشرکین اور شیطان کے پیروکار منافقینِ مدینہ، گویا بدی کی تمام قوّتیں مسلمانوں کو برداشت کرنے پر تیار نہ تھیں۔ ریاستِ مدینہ کی تباہی و بربادی اب اُن کا مقصدِ حیات تھا۔ انتقام کی آگ نے اُن کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ چناں چہ، سب نے مل کر مدینہ منوّرہ پر بھرپور حملے کی تیاری شروع کر دی۔

غزوۂ خندق

ذی قعدہ، 5 ہجری کی ایک صبح تھی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ گرد و غبار کا ایک بہت بڑا طوفان مدینے پر حملہ آور ہونے کے لیے بڑھا چلا آ رہا ہے۔ جاسوسوں نے اطلاع دی کہ ابوسفیان کی قیادت میں عرب کے تمام قبائل کی مشترکہ فوج کے دس ہزار جنگ جُو ساڑھے چار ہزار اُونٹ، تین سو گھوڑے اور بے شمار سامانِ حرب کے ساتھ نہایت برق رفتاری سے مدینے کی جانب آ رہے ہیں۔ 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے صحابہ کرامؓ کی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس طلب فرمایا اور حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے پر مدینے کے شمال میں کُھلے راستے پر خندق کھودنے کا آغاز فرما دیا۔ بیس دنوں کی شب و روز محنت کے نتیجے میں ساڑھے تین میل لمبی، پانچ گز چوڑی اور پانچ گز گہری بیضوی شکل کی خندق وجود میں آ گئی۔ 

اس کے ساتھ جگہ جگہ چوکیاں بنا کر تین ہزار صحابہؓ مورچہ بند ہوگئے۔ اُدھر کفّار کا لشکر پوری قوّت کے ساتھ مدینے پر ہلّہ بولنے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک بڑی خلیج اُن کی راہ میں حائل ہوگئی۔ بڑھتے قدم رُک گئے۔ بنو قریش اس چال سے ناواقف تھے۔ وہ مدینے کا محاصرہ کر کے بیٹھ گئے، لیکن کب تک؟ عیش و عشرت کے عادی کفّارِ مکہ کے لیے یہ سب ممکن نہ تھا۔ پھر یہ کہ اُن کے پاس زادِ راہ بھی چند دن کا تھا۔ مدینے کی سخت ترین سردی برداشت سے باہر تھی۔ اُونٹ، گھوڑے، جانور مرنے لگے، کھانے پینے کا سامان ختم ہونے لگا۔ اپنے گھر سے سیکڑوں میل دُور مایوسی، گھبراہٹ، بیماریوں اور موت کے خوف نے ان کو بدحواس کر دیا۔ 

محاصرے کو27 دن ہی ہوئے تھے کہ ایک سرد اور تاریک رات کو تند و تیز آندھی نے تباہی مچا دی۔ اُن کا مال و اسباب تتّربتّر ہوگیا۔ اُونٹ، گھوڑے اور مویشی رَسیّاں توڑ کر بھاگ نکلے، یوں اس قدرتی آفت نے اُنہیں جان بچا کر واپس مکّہ جانے پر مجبور کر دیا۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ اس موقعے پر نبی کریمؐ نے فرمایا،’’ اللہ نے ہَوا کے ذریعے میری مدد کی، جب کہ قومِ عاد کو ہَوا سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔‘‘(صحیح بخاری،4105 )۔ اللہ نے قرآنِ کریم کی33 ویں سورہ، ’’سورۂ احزاب‘‘ میں غزوۂ خندق کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اُن لُٹے پٹے لوگوں کو حسرت و یاس کی تصویر بنے واپس جاتے دیکھا، تو فرمایا ’’اب یہ ہم پر چڑھائی نہیں کریں گے، بلکہ ہم ان پر چڑھائی کریں گے۔‘‘(صحیح بخاری، 4110، 4109)۔

یہودی قبیلے بنی قریظہ کی غدّاری

اُمّ المومنین، سیّدہ عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنگِ خندق سے فارغ ہو کر گھر تشریف لائے، تو حضرت جبرائیل امینؑ حاضر ہوئے اور بنی قریظہ کی جانب جانے کا اشارہ فرمایا، چناں چہ آپؐ نے بنو قریظہ کے خلاف لشکر کشی کی۔(صحیح بخاری، 4117، 2813)۔بنو قریظہ، غزوۂ خندق کے دَوران غدّاری کے مرتکب ہوئے تھے اور اُنھوں نے اپنے ڈیڑھ ہزار جنگ جُوئوں کے ساتھ کفّارِ مکّہ کا ساتھ دیا تھا۔

مسلمانوں کی فوج دیکھ کر بنو قریظہ قلعہ بند ہوگئے، تو مسلمانوں نے اُن کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی ہفتوں پر محیط تھا، جسے یہودی برداشت نہ کر سکے اور ہتھیار ڈال کر باہر آ گئے۔ بنو قریظہ، انصار قبیلے، بنی اوس کا حریف تھا، چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے اُن کی قسمت کا فیصلہ بنی اوس کے سردار، حضرت سعد بن معاذؓ پر چھوڑ دیا۔ اُنھوں نے فیصلہ دیا کہ ان کے جنگ جُو مَردوں کو قتل کرکے مال و دولت تقسیم کر دیا جائے۔

مدینہ منوّرہ یہودیوں سے پاک ہوگیا

یثرب سے مدینے تک کے اِس سفر میں اللہ کے نبیؐ نے یہودیوں کے تینوں بڑے قبائل کو غدّاری، سازش، منافقت، بد عہدی کرنے پر جلاوطن کر کے مدینے کی سرزمین کو یہود کے وجود سے پاک فرما دیا۔ یہ لوگ شہرِ یثرب کے تمام تر وسائل پر بلا شرکتِ غیرے قابض تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ان سے میثاقِ مدینہ اِسی لیے کیا تھا کہ یہ لوگ ریاستِ مدینہ میں امن و سکون کے ساتھ رہیں، لیکن یہ قوم باز آنے والی نہیں تھی۔ بنو قینقاع سب سے زیادہ بہادر اور مال دار قبیلہ تھا۔ 

آپؐ نے معاہدے کی بار بار خلاف ورزی پر سب سے پہلے اُسے مدینے سے نکالا۔ بنو نضیر کی جسارت کا یہ عالم تھا کہ اُس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کو اُس وقت شہید کرنے کا منصوبہ بنایا، جب آپؐ اُن کے سردار کے گھر تشریف فرما تھے۔ غزوۂ خندق کے بعد یہودیوں کے آخری قبیلے، بنو قریظہ کے وجود سے بھی مدینہ منوّرہ کو پاک کر دیا گیا، لیکن یثرب سے مدینے تک کا سفر ابھی جاری تھا۔ مشرکینِ مکّہ ریاستِ اسلام کی راہ میں بہت بڑی رُکاوٹ تھے اور مکّہ مکرّمہ کی مقدّس سرزمین کو ان کے ناپاک تسلّط سے چُھڑوانا نہایت ضروری تھا۔

قریش کے ساتھ معاہدۂ حدیبیہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو خواب میں مکّہ مکرمہ جا کر عُمرہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا،جس پر آپؐ ذی قعدہ،6 ہجری کی صبح 1400 صحابہ کرامؓ کے ساتھ مکّے کی جانب روانہ ہوگئے۔ آپؐ نے مکّے سے 13 میل کی مسافت پر حدودِ حرم کے قریب حدیبیہ نامی کنویں کے پاس قیام فرمایا۔ (صحیح بخاری، 2732، 2731)۔ قریشِ مکّہ نے آپؐ کو مکّہ مکرّمہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی اور خالد بن ولید کو دو سو جنگ جُوئوں کا لشکر دے کر مکّے سے مدینے جانے والی مرکزی شاہ راہ پر تعیّنات کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے خون خرابے سے بچنے کے لیے کفّار سےایک معاہدہ کیا، جسے’’ صلحِ حدیبیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک نے اُسے’’ فتحِ مبین‘‘ قرار دیا۔

مکّے کے جگر گوشے مدینے کے سفر پر

صلحِ حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم مسجدِ نبوی میں تشریف فرما تھے کہ ایک سہ پہر آپؐ  کو کفّارِ مکّہ کے تین نام وَر سپہ سالاروں کی آمد کی اطلاع ملی۔ صحابہؓ کے چہروں پر تفکّر و پریشانی کے آثار نمایاں تھے، لیکن آپؐ نے تبسّم فرماتے ہوئے حکم دیا کہ تینوں کو حاضر کیا جائے۔ صحابہؓ نے تینوں کو حضورؐ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ 

تینوں نے اپنی تلواریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے قریب رکھیں اور کلمۂ طیبہ پڑھ کر مشرّف بہ اسلام ہوگئے۔ قریش کی فوج کے یہ تین طاقت ور ستون حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت عمروؓ بن العاص اور حضرت عثمان بن طلحہؓ تھے۔اس موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا’’ مکّے نے اپنے جگر گوشے تمہاری جھولی میں ڈال دیئے ہیں۔‘‘ (رحیق المختوم، ص، 474 )۔

غیرمُلکی سربراہان کو خطوط

یثرب سے مدینے تک کا سفر ابھی جاری تھا۔اِس مقدّس راستے میں آنے والی بہت سی رُکاوٹیں صاف کر دی گئی تھیں، لیکن ریاست کے استحکام کے لیے قرب و جوار کی ریاستوں سے بہتر تعلقات اور اُنہیں اسلام کی دعوت دینا وقت کی بہت بڑی ضرورت تھی۔ یہ چھے ہجری کی آخری سہ ماہی تھی کہ جب آپؐ نے رؤسائے عرب اور بیرونی ممالک کے بادشاہوں کو خطوط ارسال فرمائے۔ حضرت وحیہؓ کلبی کو قیصرِ روم کے پاس روانہ کیا۔اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے ایلچی کے ساتھ بڑے عزّت و احترام کا رویّہ رکھا۔ خط کی بھی تکریم کی، لیکن نصاریٰ سے دُشمنی کا خوف اور بادشاہت کی لالچ نے اُسے اسلام قبول کرنے سے روکے رکھا۔ حضرت عمروؓ بن اُمیّہ کو حبش کے بادشاہ، نجاشی کے پاس بھیجا۔ 

اُس نیک دل بادشاہ نے تخت سے اُتر کر استقبال کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے خط کو چوما، آنکھوں سے لگایا، جوابی خط میں تحریر کیا کہ’’ مَیں مسلمان تو بہت پہلے ہوگیا تھا، لیکن اب قبولِ اسلام کا اعلانِ عام کرتا ہوں۔‘‘ حاطبؓ بن ابی بلتعہ کو عزیزِ مصر کے پاس روانہ کیا۔ مِصر اور اسکندریہ کے بادشاہ مقوقش نے آپؐ کے ایلچی کو عزّت و احترام سے ٹھہرایا۔ خط کا مؤدبانہ جواب تحریر کیا۔ ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کی خدمتِ اقدس میں کچھ تحائف روانہ کیے، جن میں خلعت، ایک سفید خچّر اور شاہی خاندان کی دو خواتین ماریہ اور سیرین تھیں۔ 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے سیرین کو حضرت حسّانؓ بن ثابت کو ہبہ کر دیا، جب کہ حضرت ماریہ قبطیہؓ کو مسلمان کر کے اپنے عقد میں لے لیا۔ آپؐ کے چھوٹے صاحب زادے، حضرت ابراہیمؓ ان ہی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ (سیرتُ النّبی، علّامہ شبلی نعمانی، 282/1)۔حضرت عبداللہؓ بن حزافہ کو شاہِ ایران، خسرو پرویز کی جانب روانہ کیا۔ شاہِ ایران نے اُن کے ساتھ گستاخانہ سلوک کرتے ہوئے خط پھاڑ ڈالا۔

جب حضورؐ کو علم ہوا، تو آپؐ نے فرمایا’’ اللہ اس کی بادشاہت کو بھی اسی طرح چاک کر دے گا۔‘‘، چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ خسرو کے بیٹے نے اپنے باپ کو قتل کیا اور خود بادشاہ بن بیٹھا۔ (تاریخِ طبری،354/1 )۔ خطوط کا یہ سلسلہ6 ہجری سے 10 ہجری تک جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق اس عرصے میں آپؐ نے بادشاہوں اور رئیسوں کو250 خطوط لکھے۔ (سیرت سرورِ عالم، 257/3)۔

یہودیوں کی جنّت، خیبر

مدینہ منوّرہ کے شمال میں دو سو کلومیٹر کی مسافت پر خیبر نام کا ایک سرسبز و شاداب شہر ہوا کرتا تھا۔ مدینے سے جلاوطن کیے جانے والوں کی اکثریت خیبر منتقل ہوئی۔ یوں یہ جگہ مسلمانوں کے خلاف سیاسی اور جنگی سازشوں کی گڑھ بن چُکی تھی۔ اُن کا رابطہ مشرکینِ مکّہ سے بھی تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم مدینے سے ساڑھے چار سو کلومیٹر دُور حدیبیہ کے مقام پرکفّارِ قریش کے ساتھ مصروف تھے۔ ایسے میں موقع غنیمت جان کر خیبر کے یہودیوں نے مدینے پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم مدینہ واپس تشریف لائے، تو یہودیوں کی سازش اور حملے کی خبریں گردش کر رہی تھیں۔ 

چناں چہ 7 محرم، 7 ہجری کو آپؐ 1400 صحابہؓ کے ساتھ خیبر کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہاں یہودیوں کے آٹھ نہایت مضبوط اور ناقابلِ تسخیر قلعے تھے۔ مسلمان کئی دنوں سے اُن کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، لیکن اُنھیں فتح نہ کر پائے تھے۔ ایک صبح آپؐ نے جنگ کی قیادت سیّدنا علی المرتضیٰؓ کے حوالے فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے اُنھیں تاریخی فتح نصیب فرمائی۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے قلعے کا بھاری دروازہ اپنی پیٹھ پر اُٹھا لیا، جس کے بعد مسلمان قلعے میں داخل ہوگئے۔ مؤرّخین لکھتے ہیں کہ جب اس دروازے کو گھسیٹ کر دُوسری جانب ڈالنے لگے، تو آٹھ آدمیوں سے بھی نہ ہل سکا۔ یہ شہر، یثرب کے یہودیوں کی آخری پناہ گاہ تھی۔

قیصرِ روم کے ایوان لرز اُٹھے

خیبر کی عبرت ناک شکست نے یہودیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی، لیکن قیصر و کسریٰ کے ایوانوں سے آنے والی خبروں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کو متفکّر کر دیا تھا۔ آپؐ نے حضرت حارثؓ بن عمیر کو قاصد بنا کر شاہِ بصرہ کے پاس بھیجا۔ راستے میں اردن کی سرحد کے نزدیک بیتُ المقدِس سے دو دن کی مسافت پر واقع وادیٔ موتہ میں قیصرِ روم کے گورنر، شرجیل بن عمرو نے اُنہیں شہید کر دیا۔ حضورؐ کو اس کا بے حد دُکھ ہوا۔ آپؐ نے حضرت زید بن حارثہؓ کی امارت میں تین ہزار صحابہؓ کا ایک لشکر روانہ کیا اور فرمایا کہ’’ اگر زیدؓ قتل ہو جائیں، تو جعفرؓ امیر ہوں گے اور اگر یہ بھی قتل ہوگئے، تو عبداللہ بن رواحہؓ امیر ہوں گے۔‘‘ (صحیح بخاری، 4261)۔ 

مسلمان1100 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر جب وہاں پہنچے، تو قیصرِ روم ایک لاکھ آہن پوش جنگ جُوئوں اور ایک لاکھ قبائلی فوجیوں کے ساتھ مسلمانوں کے استقبال کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اِتنی بڑی فوج سے مقابلہ مسلمانوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ دونوں فوجوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔دُنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط بادشاہ کی ٹڈّی دَل فوج سے اُن کی اپنی سرزمین پر جا کر ٹکرا جانا، وہ محیّرالعقول واقعہ ہے، جس نے یہود و نصاریٰ سمیت پوری دُنیا کو انگشت بدنداں کر دیا۔

اُدھر سیکڑوں میل دُور مسجدِ نبوی میں تشریف فرما اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم، صحابہؓ کو میدانِ جنگ کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ’’زیدؓ نے جھنڈا لیا اور لڑتے ہوئے شہید ہوگئے، جھنڈا جعفرؓ نے لے لیا، وہ بھی شہید ہوگئے، پھر جھنڈا ابنِ رواحہؓ نے اُٹھایا، مگر وہ بھی شہید ہوگئے۔اب جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک نے لے لیا اور اللہ نے اُن کو فتح عطا فرمائی۔‘‘(صحیح بخاری، 4262، 3757، 1246)۔ اُس وقت کمان حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس تھی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ خود فرماتے ہیں کہ’’جنگِ موتہ کے دن میرے ہاتھوں سے نو تلواریں ٹُوٹیں، پھر میرے پاس صرف ایک چھوٹی سی تلوار بچی۔‘‘(صحیح بخاری، 4265)۔

اسلامی انقلاب دُنیا کی دہلیز پر

جمادی الاوّل 8 ہجری کو اہلِ روم کے گھر کی دہلیز، وادیٔ موتہ میں قیصرِ روم کی فوج سے ہونے والا معرکہ، یثرب سے مدینے تک کی اسلامی ریاست کے مقدّس سفر کا وہ حصّہ تھا، جس نے قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا اور یہی وہ عظیم معرکہ تھا، جس نے پوری دُنیا میں اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے نئی راہیں کھولیں۔ (جاری ہے)