• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سُو بُری خبریں، ڈالر 300 روپے کے لگ بھگ پہنچ چکا، سیاسی ابتری ، معاشی بدحالی ، بد اَمنی سب کچھ ایک دوسرے میں پیوست۔ 5 رُکنی بینچ کا فیصلہ، الیکشن ہر صورت 90 روز میں کروانا ہونگے۔ آئین نے ملک و قوم کو متحد و منظم رکھنا تھا۔ بنیادی حقوق اور قانون کی حکمرانی یقینی بنتی تو ریاستی نظام مستحکم رہتا۔ مملکت کو استحکام و دوام ملتا۔ آج آئین کا نفاذ، انتشار اور افراتفری کو ہوا دے چکا ہے۔ مملکت کی بد نصیبی، بحران کا حل، کئی مزید بحران پیدا کرنے کو ہے۔ معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ کے پاس سیاسی بحرانوں سے نکلنے کا حل موجود نہیں ہے۔ بحران سے نبٹنے کیلئے دانشمندی، فہم و فراست، قومی اتفاق رائے چاہئے تھا۔ سب سے بڑھ کر صاف شفاف نیت درکار تھی۔ سب لا موجود۔ پارلیمان یعنی سیاستدانوں نے آئین بناکر عدلیہ کو اُسکا CUSTODIANبنایا۔ سپریم کورٹ کا رہنما اُصول عمارت پر چسپاں، سورہ ص ( 26 ) کا ایک حصہ، آئین کی روح ہے۔ کیا سپریم کورٹ اس آیت پر عمل پیرا ہے۔ آیت کی خلاف ورزی کے نتائج سے باخبر ہے؟

’’اے داؤد، ہم نے تجھے زمین میں بادشاہ بنایا ہے، پس تم لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کیا کرو، اور نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گی، بے شک جو اللہ کی راہ سے گمراہ ہوتے ہیں اُنکے لئے سخت عذاب ہے اس لئے کہ وہ حساب کے دن کو بھول گئے‘‘۔ص(26)

رہنما اُصول سے رُوگردانی یا نفسانی اور ذاتی خواہشات کی پیروی، اللہ کے عذاب کی خبر دیتی ہے۔ اگر سپریم کورٹ یوم حساب سے غافل ہے تو اللہ تعالیٰ سے سرکشی کہلائے گی۔سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ، بظاہر آئین کی پاسداری اور حاکمیت ، انصاف کے تقاضے چکنا چور نظر آئے ۔ سپریم کورٹ 15 رُکنی فُل کورٹ بینچ نہ بنا پائی ؟ حکومتی معاملات کی ادائیگی میں تو سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو کابینہ سے منظوری کا پابند بنا رکھا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے بنفس نفیس چند ججوں کی مدد سے پچھلے 14 برسوں سے ساتھی ججوں کو غیر موثر کر رکھا ہے۔ آئین کا مدعا کہ سپریم کورٹ کا فُل کورٹ بوقت ضرورت مل کر آئین کے اوپر طبع آزمائی کرے ۔ایک عرصہ سے خصوصاً جسٹس افتخار چوہدری کے وقت سے تاک تاک کر 17 ججز کو سپریم کورٹ سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر، مرضی کا بینچ اور پھر آئینی معاملات پر فیصلے صادر کرنا ،رواج بن چکا ہے۔کئی مواقع ایسے بھی کہ اپنے ہی فیصلوں کی نفی کی ۔ آئین کی ایسی توجیہات ہوئیں کہ بینچ پر بیٹھے ساتھی ججز کہہ اُٹھے ، آئین دوبارہ لکھا (REWRITE) جا رہا ہے ۔چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا نے میں یہی کچھ دیکھنے کو ملا۔

جب 9 رُکنی بینچ تشکیل ہوا، تو دو متنازع ججوں کی بینچ پر موجودگی کیخلاف آوازیں بلند ہوئیں۔ چیف جسٹس صاحب نے احتجاج کے باوجود مناسب یہی سمجھا کہ دونوں جج لازمی حصہ رہیں گے۔ بینچ فکسنگ کا لفظ متعارف ہوا۔ بینچ اس حساب سے بنا کہ سارے ملک میں 5\4 کا فیصلہ پہلے سے طے نظر آیا۔ 9 رُکنی بینچ میں دو سنیئر ججوں کی غیر موجودگی نے مزید شکوک و شبہات پیدا کئے۔

اس سے پہلے ثاقب نثار کے وقت سے ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تعیناتی کیلئے سنیارٹی کا اُصول پامال رکھا۔ الجہاد ٹرسٹ، سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے کی دھجیاں اُڑیں۔ تاک تاک کر حساب کتاب کیساتھ ایسے ججز تعینات ہوئے کہ کس تاریخ کو کون سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بن پائے گا۔ وکلا برادری اور سول سوسائٹی کی آہ وبکا صدابہ صحرا رہی۔ نو رُکنی بینچ کے متنازعہ دو ممبران نے دباؤ اندر جب علیحدگی اختیارکی توطے شدہ توازن برقرار رکھنے کیلئے بینچ کو پُر اسرار طریقہ سے 5 تک محدود، دو موثر ججوں کو بینچ سے علیحدہ کر دیا گیا۔،ترازو حسب مطابق تولے۔آئینی بحران کو حل کرنے کیلئے ایک اور زیادتی ، آئین کیساتھ انصاف بمطابق دو دن کی پابندی، انصاف کیساتھ ایک اور مذاق تھا۔ ایک واردات مزید، دو سینئر ججز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کا بینچ بغیر وجہ کے توڑ دیا گیا جبکہ ججز عدالت میں اور کازلسٹ موجود۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس کے باوجود بینچ کیا اور ایک تاریخی فیصلہ دے ڈالا۔ مجھے نہیں معلوم کہ قاضی فائز عیسیٰ کا دو رُکنی فیصلہ غیر موثر کرنے کیلئے اقدامات ہونگے یا سپریم کورٹ اپنے ماتھے پر لاقانونیت کا سہرا باندھے اسے نظر انداز رکھے گی۔ جہاں سپریم کورٹ فیصلہ سُننے سے پہلے چند پسندیدہ ججوں پر انحصار کرے، اپنے ادارے اور برادر ججوں کیساتھ ناانصافی کرے، رہنما اُصول’’پس تم لوگوں میں انصاف کیساتھ فیصلہ کرو ‘‘کہاں فٹ ہوگا ؟سپریم کورٹ کے موجودہ طرز عمل اور رہنما اُصول (سورہ ص 26 ) پر اسلامی نظریاتی کونسل کا فتویٰ چاہئے۔ 12جنوری 2018 بھارتی سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے جسٹس J. CHELAMESWARکی قیادت میں ایک پریس کانفرنس کی کہ اُس وقت کے چیف جسٹس دیپک مسرا بہیمانہ طریقہ سے انتظامی اُمور چلا رہے ہیں اورجونیئر ججز کو اہم کیسز ترجیحی بنیاد پر دیئے جا رہے ہیں ۔ پریس کانفرنس نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا، چیف جسٹس کیخلاف بغاوت ضرور کہلائی، بھارتی سپریم کورٹ کے انتظامی معاملات ڈگر پرآ گئے ۔ ہمارے ہاں تو اہم کیسز ایک طرف ، آئینی معاملات 2\3جونیئر ججز کیساتھ ملک نافذ کئے جا رہے ہیں ۔ جونیئر ججز بھی وہ جو ہائیکورٹس سے سنیارٹی کے اُصولوں کو روندتے ہوئے سپریم کورٹ پہنچے۔

اس سارے عرصہ اور عمل میں عمران خان کا کردار کسی صورت نظر انداز نہیں رکھنا۔ عمران خان شریک جُرم بطور مہرہ استعمال ہوا اور مستفید بھی ہوا ۔ دھرنا 2014 کو جاوید ہاشمی صدر پی ٹی آئی نے یہ انکشاف کر کے سبوتاژ کیا کہ’’سپریم کورٹ کی ملی بھگت سے ’’جوڈیشل کو‘‘نواز شریف حکومت کا تختہ اُلٹا یا جارہا ہے‘‘۔تب سے چل سو چل، لاک ڈاؤن 2016 میں سپریم کورٹ کے جج آصف کھوسہ نے حد ٹاپی اور عمران خان کے گھر جا کر سو موٹو لینے کا عندیہ دے ڈالا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سارے لانگ مارچز، دھرنوں اور جیل بھرو تحریک نے منہ کی کھائی۔ عوامی پذیرائی اور توجہ نہ ملی کہ بدنیتی جزو لاینفک تھی۔ میری ہمیشہ سے تکرار، سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی انتشارو افراتفری بے قابو ہو جائیں گے۔سپریم کورٹ انصاف کو زبردستی نافذ کرے یا سپریم کورٹ کے فیصلے کے نفاذ کو زور زبردستی روکا گیا، دونوں صورتوں میں خانہ خرابی و بربادی، رہے نام اللہ کا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین