• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہلا خضر، کراچی

چھوٹی سی کُٹیا تازہ پِسی منہدی کی خُوش بُو سے مہک رہی تھی۔ اُس کی سکھیوں نے لونگ کی دھونی رَماکر لال ہتھیلیوں کو دل کےسچّے جذبوں جیسا گہرا رنگ چڑھا دیا تھا۔ نیلم کی خوابیدہ آنکھوں میں سجے سنہرے خواب پورے ہونے کو تھے۔ اس کا خالہ زاد دلدار اُسے پلکوں کی سیج پر بٹھا کر لے جانےوالا تھا۔ یہ تصوّرہی اسے گُدگُدا رہا تھا کہ ایک دن بعد اس کا نکاح ہے اور پھروہ دونوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہو جائیں گے۔

آزاد کشمیر کی سرحد پر واقع اُس خوب صورت گاؤں، گلاب پور کے باسی سادہ لوح اور جفاکش تھے۔گاؤں کے چپّے چپّے پر قدرت کی صنّاعی کے حسین نظارے بکھرے پڑے تھے۔ گیت گاتے جھرنوں کی مدھر آواز،سرسبز وادیوں میں جلترنگ کی طرح سنائی دیتی تھی۔گھاس پھونس اور مٹّی گارے سے بنے کچّے مکانوں کے ارد گرد ضرورت کی سبزیاں اور پھل کاشت کیے جاتے۔ ہر گھر کے سامنے بے ترتیب بانس کی باڑ میں بھیڑ، بکریاں منمناتی دکھائی دیتی تھیں۔مگر، اس جنّت نظیر وادی سے چند میل کی مسافت پر مقبوضہ کشمیر کے بلند پہاڑوں پر بھارتی فوج کی ایک چوکی بھی تھی۔

بزدل دشمن کی جرأت نہ تھی کہ دن کے اُجالے میں پاک سر زمین پر دراندازی کرے،لیکن رات کے اندھیرے میں وہ معصوم گاؤں والوں پر کبھی فائرنگ کرتا، تو کبھی گولہ باری کرکے ایسے اَن جان بن جاتا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔اس وادی پر مستقل طور پر خطرات کے بادل چھائے رہتے، مگر یہاں کے باسیوں کے دل پاک وطن کی محبّت اور عزم و ہمّت سے مضبوط تھے۔ ان کی رگوں میں پاکستان کی محبّت لہو بن کر گردش کرتی تھی۔ نیز، دشمن سے مقابلے کے لیے پاک فوج نے سرحد پربارودی سرنگوں کاجال بھی بچھا رکھا تھاکہ اگر بھارتی فوجی یہاں کا رُخ کریں، تو قدم رکھتے ہی نیست و نابود ہوجائیں۔ اور گاؤں والوں کو بھی اس بات کی خبر تھی کہ یہ سب ان کی حفاظت کے لیے کیا گیا ہے۔

دلدار کے والدین کچھ عرصہ پہلے بارڈر پار سے آئے ایک گولے کی زد میں آکر شہید ہو گئے تھے، پھر نیلم کی والدہ نے بہن کی اکلوتی نشانی کو اپنی اولاد سمجھ کر سینے سے لگا لیا۔ دلدار انتہائی نیک، حد درجہ محنتی، قابل، ملن سار اور بہادر لڑکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ نیلم کی ماں نے اپنی بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے میں ایک لمحہ نہیں لگایا۔ سب گھر والے اس رشتے سے بےحد خوش تھے۔ دلدار نے سخت محنت کے بعد اپنی ہونے والی بیوی کے لیے ایک چھوٹا سا گھر بنایا تھا، جس میں ضروریاتِ زندگی کاسب چھوٹا موٹا سامان موجود تھا۔

وہ دسمبر کی ایک یخ بستہ شام تھی۔ اگلے روز اُن دونوں کا نکاح تھا۔ دلدار صبح سے نیلم کی پسندیدہ شیشم کی لکڑی سے بنی مسہری اور سنگھار میز لینے شہر گیا ہوا تھا۔شام کو واپس آیا اور حسبِ معمول خالہ کے گھر اپنے کھانے کی پوٹلی لینے گیا، تو پتا چلا کہ نیلم ہاتھوں میں منہدی سجائے بخار میں تپ رہی ہے۔ ہونے والی بیوی کی یہ حالت دیکھ کر وہ بہت فکر مند ہوگیا۔ ’’خالہ! اسے کیا ہوگیا، مَیں نے پہلے تو اسے اتنا بیمار کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ دلدار نے فکرمندی سے پوچھا۔’’بیٹا! پریشان نہیں ہو، نیلم کے بابا حکیم صاحب سے دوا لے آئے ہیں۔ اِن شاءاللہ کل تک ٹھیک ہوجائے گی۔ ابھی تم بھی تھکے ہوئے ہو، گھر جا کر آرام کرو، پھر صبح نکاح کی تیاری بھی تو کرنی ہے۔‘‘ خالہ نے تسلّی دیتے ہوئے کہا۔

وہ اپنے گھر توچلا گیا، پر اُس کا دل سخت بے چین تھا۔نیلم کا بخار سے تپتا چہرہ اور منہدی سے سجی خُوب صُورت ہتھیلیاں اسے رہ رہ کر یاد آرہی تھیں۔یہی سب سوچتے سوچتے اُس کی آنکھ لگ گئی، توخواب میں اُسے اپنے شہید والدین دکھائی دئیے، جو اسے پکار رہے تھے۔ دلدارگھبرا کے، چونک کر اُٹھ بیٹھا، اب نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دُور جاچُکی تھی۔

اُس کے دل کو عجب سی بےچینی لاحق تھی۔ کافی دیر گھر میں اِدھر اُدھر چکر اتا رہااور پھرسخت سردی کے باوجود اُٹھ کےخالہ کے گھر کی طرف چل دیا۔ ابھی کچھ ہی دُور پہنچا تھا کہ اُسے درختوں کے جھنڈ سے کچھ سرگوشیاں سنائی دیں۔ گلاب پور کے باسی تو سرِ شام سونے کے عادی تھے، اس لیے اُسے حیرانی ہوئی کہ یہ کیسی سرگوشیاں ہیں۔ رات گئے گاؤں والے تو درختوں میں چُھپ کر نہیں بیٹھ سکتے۔ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا، درختوں کے جُھنڈ کے پاس جا پہنچا، تو اسے چاند کی دودھیا روشنی میں کچھ اجنبی چہرے دکھائی دیئے، جنہیں دیکھتے ہی وہ فوراً سمجھ گیا کہ یہ بھارتی فوجی ہیں۔وہ ہاتھوں میں مشین گنز تھامے ہوئے تھے، جب کہ وہیں قریب ہی زمین پر جُھکے دو سائے کچھ کام کر رہے تھے۔ 

شدید ٹھنڈ کے باوجود دلدار کے ماتھے پر پسینے کے چند قطرے اُبھر آئے’’یقیناً یہ بارودی سرنگ ناکارہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ ہماری وادی میں بآسانی گُھس سکیں۔‘‘دلدار نے سوچا اور اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ ’’اگر دشمن اپنے مذموم عزائم میں کام یاب ہو گیا، تو رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر وہ اس راستے سے اپنی پوری پلاٹون داخل کر سکتا ہے۔‘‘ دلدار مسلسل سوچ رہا تھا۔ ’’نہیں،نہیں مَیں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔ اس پاک زمین کے ایک چپّے پر بھی ان ملعونوں کو قابض نہیں ہونے دوں گا۔

میرے والدین اور ان جیسے لاکھوں شہیدوں نے اپنے خونِ جگر سے اس گلشن کو سینچا ہے اور کشمیر…اس جنّت کا ایک حصّہ تو پہلے ہی ان بھیڑیوں کے شکنجے میں ہے۔ مَیں ان بھارتیوں کوکام یاب نہیں ہونے دوں گا۔‘‘یہی سب سوچتےاس نے بآوازِ بلند ان فوجیوں کو للکارا اور پھر اس سے پہلے کہ وہ دلدار پر فائر کھولتے، اُس نے بارودی سرنگ پر چھلانگ لگادی۔ اور دھماکے کی زوردار آواز نے پوری وادی کا سکوت چیر کے رکھ دیاتھا۔پاک فوج کے جوان بجلی کی سی تیزی سے وہاں پہنچ چُکے تھے۔ اور بزدل دشمن کو واصلِ جہنم کردیا گیا تھا۔

دلدار نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں، تو خُود کو مسحور کُن خوش بوؤں کا لبادہ اوڑھے پایا۔ چاندنی کی کرنوں نے اُسے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اتنے میں اُسے اپنی ماں کی آواز سُنائی دی، جواس کے ماتھے پر بوسا دیتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔’’خوش آمدید میرے بہادر بیٹے!! تم نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے ہزاروں، لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچالی ہیں۔ تم نےاپنی جان، اپنی خوشیوں کو قربانی دے کر پاک وطن سے محبت کا قرض ادا کردیا ہے۔‘‘

بذریعہ ڈاک موصول ہونے والی ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ متفرق/ کچھ توجّہ اِدھر بھی…

٭ سلطان الہند خواجہ غریب نواز کے مختصر حالاتِ زندگی، ضیاء المصطفیٰ نظامی، دارالقلم خانقاہ قادریہ، برکاتیہ نظامیہ، اگیا شریف، سنت کبیر نگر، یو پی ٭ اچھے لوگ پیدا نہیں ہوتے، تیار کیے جاتے ہیں، ایمن علی منصور، مقام نہیں لکھا ٭ ہم بھی وہاں موجود تھے، مَیں سوچتا ہوں، صدیق فن کار، نئی آبادی، جھاورہ کینٹ، راول پنڈی ٭ صحافت کے اُفق کا اَن مول، چمکتا دمکتا ستارہ، شہناز قمر الاسلام صدّیقی، لاہور ٭کتاب کی اہمیت، قراۃ العین فاروق، حیدرآباد ٭ حضرت عُمر فاروقؓ کا دریائے نیل کے نام خط، غازی غلام رسول طاہر، کراچی ٭مینگروز، شمائلہ ناز، مقام نہیں لکھا ٭ ہیسکو سروس ادارے، نام و مقام نہیں لکھا ٭ حکیم مولانا مولوی غازی عبدالعزیز قریشی عثمانی…خادمِ دین، قاری عبدالرؤف فائز قریشی، جی پی او صدر، راول پنڈی ٭ چیف جسٹس آف پاکستان، انسانیت کے نام اپیل، ناظم آباد بلاک 2 میں طویل لوڈ شیڈنگ، عوام کہاں جائیں، محمّد شاہد اعجاز احمد، ناظم آباد، کراچی ٭ خطبۂ حجتہ الوداع، مسئلہ کشمیر اور انگریزوں کی غدّاری، ہندوؤں کی فن کاری، بابر سلیم خاں، لاہور ٭ نیو گیس کنیکشنز پر پابندی ختم کی جائے، گلزارِ ہجری سے پیپلز بس سروس چلائی جائے، صغیر علی صدّیقی، کراچی ٭ حضرت مولانا مجاہد خان الحسینی کے حالاتِ زندگی اور خدمات، نثار احمد خان، نوشہرہ کینٹ ٭ شانِ رسالتؐ، قرآن اور مساجد کی بےحرمتی پر یورپ میں قانون سازی کروانے کا عزم، ارشاد الرحمٰن ایڈووکیٹ، کراچی۔

بذریعہ ڈاک موصول ہونے والی ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار برائے صفحہ’’ڈائجسٹ‘‘

٭ پچھتاوا، امن شاہ، لطیف آباد، حیدرآباد ٭ گم شُدہ رائٹر، قراۃ العین فاروق، حیدرآباد ٭ عرض کیا ہے، غلام اللہ چوہان، کراچی ٭معافی، شاہدہ ناصر، گلشنِ اقبال،کراچی ٭ انسان، راشدہ صدّیق عبّاسی، چاہ سلطان، راول پنڈی۔

بذریعہ ڈاک موصول ہونے والا ناقابلِ اشاعت کلام اور اُن کےقلم کار برائے صفحہ’’ڈائجسٹ‘‘

٭ قصیدہ جشنِ عیدِ میلادالنبیؐ، محمّد لیاقت قادری، کراچی ٭ کاش، راشدہ صدّیق عبّاسی، چاہِ سلطان، راول پنڈی ٭توبہ دل سے کرلو، جو بھول ہوجائے، مراد حیدر ہاشمی، باغ بان پورہ،لاہور ٭ہمیشہ سیدھے رستے چُننا،تیری کھوج، نظم،ساجدہ عبدالصّمد، ہنگورجو، کراچی ٭عزت و احترام ، صدیق فنکار، جھاورہ، راول پنڈی کینٹ ٭غزلیات، سید سخاوت علی جوہر، کورنگی، کراچی ٭چادر، محمّد علی سحر، محمود آباد، کراچی٭دُعا، ایم اے ہاشمی، سولجر بازار، کراچی ٭کون رکھے گا ہمیں یاد، وارث علی بٹ، مقام نہیں لکھا ٭غزل، انسانی یک جہتی، سید آفتاب حُسین ٭تلاش، بے ثباتی، دوچہرے، سوچ، انکشاف، تلاشِ رزق، ضدّی ، دستک، ظفر احسن، نارتھ کراچی، کراچی٭اِک شہادت ایسی بھی، کہاں، خیال کرو، عمیرہ رحمٰن، مقام نہیں لکھا٭انسان میں انسانیت کب آئے گی، سلیم احمد خان آزاد، وائرلیس کالونی، جی ٹی روڈ٭دوہونہار طالب علموں کی شہادت کے نام، ڈاکٹر شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی ٭نیّرہ نور کی یاد میں، بدلتی ساعتیں،رضوانہ خورشید، خیابانِ رومی، ڈی ایچ اے۔