• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں جنوبی اٹلی میں کشتی ڈوبنے کے واقعہ میں 12 بچوں سمیت 62 افراد جن میں پاکستانی بھی شامل ہیں، کی اموات کی خبر نے ہر پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کردیا ۔یہ کشتی ترکیہ سے لیبیا کے راستے اٹلی جارہی تھی جس میں پاکستان، افغانستان، ایران اور صومالیہ کے 150 باشندے سوار تھے۔ یہ بدقسمت کشتی حادثے سے 3 روز قبل ترکی کے شہر ازمیر سے روانہ ہوئی اور اٹلی کے ساحلی مقام کلابریا کے قریب تیز سمندری لہروں کی زد میں آکر چٹان سے ٹکراکر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ ابتدائی طور پر یہ خبریں آئیں کہ مرنے والوں میں 40پاکستانی بھی شامل ہیں۔ بعد ازاں ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق کشتی میں سوار 20پاکستانیوں میں سے 13کو بچالیا گیا جبکہ 7 پاکستانیوں کے ڈوبنے کی تصدیق ہوئی جن میں بدقسمتی سے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی قومی ہاکی ٹیم کی نوجوان کھلاڑی شاہدہ رضا بھی شامل تھیں جو اچھے مستقبل کی تلاش میں اس سفر پر روانہ ہوئی تھیں مگر یہ ان کا آخری سفر ثابت ہوا۔

یہ پہلا موقع نہیں بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے تسلسل کے ساتھ ایسے افسوسناک واقعات رونما ہورہے ہیں جن میں غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں متعدد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ کچھ ماہ قبل بھی لیبیا کے شہر بن غازی کے قریب کشتی کے ایک حادثے میں کئی پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے۔حالیہ دنوں میں ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، غربت اور بیروزگاری کے باعث نوجوانوں کے بیرون ملک جانے کے رجحان میں اضافہ ہواہے ، یہ نوجوان جو ملک کے معمار تصور کئے جاتے ہیں، بہتر مستقبل اور حصول روزگار کی غرض سے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کیلئے اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق گجرات، جہلم، بہاولپور، منڈی بہائو الدین اور دیگر شہروں سے ہوتا ہے۔ ان علاقوں کے لوگ یہ دیکھ کر کہ محلے کے کسی خاندان کے نوجوان کے بیرون ملک جانے سے اُس خاندان کے معاشی حالات بہتر ہوگئے تو وہ بھی لالچ میں اپنے نوجوان بیٹوں کو بیرون ملک جانے کی ترغیب دیتے ہیں اور یہ نوجوان انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اُنہیں بہتر مستقبل کا خواب دکھاکر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک لے جانے کا جھانسہ دے کر ان سے بھاری رقوم بٹورتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس گھنائونے دھندے سے ایک ہزار سے زائد کریمنل نیٹ ورک منسلک ہیں جن کا یہ غیر قانونی کاروبار ایک ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ جرائم پیشہ انسانی اسمگلرز سرعام سادہ لوح اور معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان سے بھاری رقوم بٹوررہے ہیں۔غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے خواہشمند نوجوانوں میں سے کچھ خوش نصیب نوجوان ہی اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں جبکہ بیشتر سمندری لہروں کا شکار ہوجاتے ہیں یا انہیں گرفتار کرکے ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی اصل تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران 4 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو مختلف ممالک سےپاکستان ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔انسانی اسمگلنگ سے جہاں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے، وہاں غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں کی بڑی تعداد اپنی قیمتی جانیں گنوا رہی ہے مگر افسوس کہ حکومت اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے متعلقہ ادارے کرپشن کی وجہ سے ان جرائم پیشہ افراد کے سامنے بے بس ہیں اور ان پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNDC نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو مستقبل قریب میں یہ معاشی بیماری وبا کی صورت اختیار کرلے گی۔ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کی کھلاڑی شاہدہ رضا کی طرح دیگر قومی ہیروز جو کسی بھی ملک کی شناخت ہوتے ہیں، آج ملکی حالات سے تنگ آکر بہتر مستقبل کیلئے غیر قانونی طور پر یورپ اور دوسرے ممالک کا رُخ کررہے ہیں۔

غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب کر یا کنٹینرز میں دم گھنٹے سے مرنے والے پاکستانی نوجوانوں کی داستانیں اتنی المناک ہیں کہ انہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں مگر انسانی اسمگلنگ کے روز بروز بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود حکومتی بے حسی اور خاموشی معنی خیز ہے اور حکومتی ادارے کرپشن کے باعث اُنہیں گرفتار کرنے سے قاصر ہیں حالانکہ حکومت نے اپنی ریڈ بک میں ایسے انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کے نام درج کر رکھے ہیں جو معصوم اور سادہ لوح نوجوانوں کو اپنے جال میں پھانسنے کیلئے ملک بھر میں دندناتے پھر رہے ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ نہ صرف انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے بھرپور اقدامات کرے بلکہ گھنائونے کام میں ملوث افراد کو بھی عبرتناک سزا دے تاکہ آئندہ انسانی اسمگلنگ کے گھنائونے دھندے میں ملوث افراد معصوم و سادہ لوح نوجوانوں کی زندگیوں سے نہ کھیل سکیں۔ والدین کو بھی چاہئے کہ وہ ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنی نوجوان اولاد کے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی حوصلہ شکنی کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین