اقصیٰ منور ملک، صادق آباد
صُبح کا پُرنور اُجالا تاریکی کی دبیز تہہ دھیرے دھیرے مدّھم کررہا تھا۔ روشنی کُہرے کی چادر کی بکّل مارے نمودار ہورہی تھی اور اس کُہر آلود صبح کے سناٹے کو فضل چاچا کے رکشے کی پَھٹ پَھٹی آواز چِیر رہی تھی، جو کالونی کی طرف جانے والی سڑک پر دَوڑ رہا تھا۔ لہو جما دینے والی ہوا کے تھپیڑے اُن کے منحنی وجود سے ٹکرا رہے تھے، جن سے بچنے کے لیے انہوں نے گرم شال کو سر اور چہرے کے گرد لپیٹا ہوا تھا۔ سڑک کے اِردگرد بیش تر دُکانیں بند تھیں، بس دودھ، دہی کی دُکانیں یا چائے کے ہوٹل ہی کُھلے تھے۔
اب اُن کا رکشا کالونی میں داخل ہوچُکا تھا، جہاں سڑک کے دونوں جانب دو اور تین منزلہ پختہ مکانات کی قطاریں لگی تھیں۔ فضل چاچا نے رکشا ایک سفید رنگ میں دھلی بڑی سی حویلی کے صدر دروازے کے قریب روکااور اُترکر ڈور بیل بجائی، پھر ذرا سا آگے جاکر تین مزید گھروں کی گھنٹیاں بجاکر واپس حویلی کے دروازے کے پاس آ کھڑے ہوئے۔ اتنی دیر میں ملازم لڑکے نے صدر دروازے سے ملحق بیٹھک کا دروازہ کھولا اور وہ اندر چلےگئے۔ پانچ منٹ بعد ملازم ناشتا لیے آیا اور ٹِرے ان کے سامنے رکھ دی۔ ’’بٹیا رانی سے کہیے جلدی کریں، کالج کے لیے دیر ہورہی ہے۔‘‘ فضل چاچا کے کہنے پر لڑکا ’’جی بہتر‘‘ کہہ کر چلا گیا اور فضل چاچا جلدی جلدی ناشتا کرنے لگے۔ یہ اُن کا روز کا معمول تھا۔
’’خدیجہ…خدیجہ بیٹا! ناشتا کرلو، فضل چاچا آگئے ہیں۔‘‘ امّی کی آواز پر اس کے کنگھی کرتے ہاتھ مزید تیز ہوگئے اور اس نے جلدی سے پونی بنائی،بیگ کھول کر چیک کیا اور عبایا پہن کر نیچے آ گئی۔ ’’سات بج کر پچیس منٹ ہورہے ہیں اوریوں لگ رہا ہے، جیسے صبح ہی نہیں ہوئی، جب کہ گرمیوں میں اس وقت اچھا خاصا دن چڑھ چُکا ہوتا ہے۔‘‘ اُس نے برآمدے میں لگی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے امّی سے کہا، جو اس کے لیے کپ میں چائے ڈال رہی تھیں۔ ’’جنوری کی صبحیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔‘‘ اُس کی طرف دیکھے بغیر ہی جواب دیا اور وہ کچن میں رکھے پیڑھے پر بیٹھ گئی۔
ناشتا کرنے کے بعد وہ حسبِ معمول امّاں بی کے کمرے میں آئی، جو جائے نماز پر بیٹھی اپنے معمول کے وظائف میں مشغول تھیں۔ وہ اشراق پڑھنے کے بعد ہی اپنے کمرے سے نکلتی تھیں۔ ’’امّاں بی! مجھے کالج کے لیے دیر ہورہی ہے، جلدی سے حصار کردیجیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے خدیجہ ان کے پاس بیٹھ گئی۔ دراصل امّاں بی کی سختی سے ہدایت تھی کہ گھر کا کوئی بھی بچّہ بغیر حصار کے باہر نہ نکلے، تو خدیجہ بچپن سے اب تک کبھی حصار کروائےبغیر باہر نہیں نکلی تھی۔ جب بھی کوئی گھر سے نکلتا، تو پہلے امّاں بی کے پاس آتا، وہ آیت الکرسی، معوذتین اور آیاتِ حفاظت پڑھ کر پھونکتیں اور پھر جانے کی اجازت دیتیں، یہی اس گھر کا رواج تھا۔
’’مَیں چلتی ہوں امّاں بی، اللہ حافظ…‘‘ دَم کروانے کے بعد خدیجہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’جاؤ میری بچّی، اللہ کی امان میں۔‘‘ کہہ کر امّاں بی پھر سے وظائف کی طرف متوجّہ ہوگئیں۔ ویسے تو امّاں بی اُس پر دَم کرکے ہی باہر جانے دیتی تھیں، لیکن گھر سے نکلتے ہوئے خدیجہ خود بھی آیت الکرسی پڑھ کر ہی نکلتی۔ یہ اس کی عادتِ ثانیہ بن چُکی تھی اور اس نے اس کے فوائد کا اپنی آنکھوں سے کئی مرتبہ مشاہدہ بھی کیا تھا۔ خدیجہ رکشے میں آبیٹھی، اس کی ساتھی چار لڑکیاں بھی آچُکی تھیں۔ اب فضل چاچا کا رکشا کالج کی طرف تیزی سے رواں دواں تھا۔
کالج سے چُھٹّی ہوچُکی تھی۔ لڑکیوں کے ازدحام میں وہ گیٹ تک پہنچی۔ ندا وہاں پہلے ہی سے کھڑی تھی۔’’خدیجہ! حیرانی کی بات ہے، آج فضل چاچا ابھی تک نہیں آئے۔‘‘ ندا نے آنکھیں پھیلا کر کہا، کیوں کہ فضل چاچا انتہائی ذمّے دار اور وقت کے بےحد پابند تھے۔’’ارے یار، ٹریفک میں پھنس گئے ہوں گے، پریشان کیوں ہوتی ہو، بس ابھی آجائیں گے۔‘‘ خدیجہ نے تسلّی دیتے ہوئے کہا۔ حالاں کہ پریشان وہ خود بھی ہو رہی تھی کہ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، وہ ہمیشہ کالج کی چُھٹّی سے پانچ منٹ پہلے گیٹ پر موجود ہوتے تھے۔ کالج بس بھی جاچُکی تھی اور کالج اب قریباً خالی ہوچُکا تھا۔ وہ پانچوں گیٹ کے قریب پیپل کے درخت کے نیچے بنی سنگی بینچز پر بیٹھی تھیں۔ ٹھنڈی ہوا ابھی بھی چل رہی تھی۔
سورج نے ایک مرتبہ زمین پر جھانک کر پھر سے منہ دھند کی چادر میں چُھپالیا تھا۔ رکشے کی آواز پر انہوں نے سر اُٹھاکر آواز کی سمت دیکھا، لیکن وہ فضل چاچا کا رکشا نہیں تھا، اب وہ سب ہی پریشان ہورہی تھیں۔ رکشا کالج کے گیٹ پر رُکا اور اس میں سے ایک شخص نکلا’’فضل چاچا کا رکشا خراب ہو گیا ہے، وہ اسے ٹھیک کروانے ورک شاپ لے کر گئے ہیں اور مجھ سے کہا ہے کہ آپ لوگوں کو گھر چھوڑ دوں۔‘‘ آدمی کی بات سُن کر ان سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ’’اگر ایسا تھا تو فضل چاچا گیٹ کیپر کو کال کرکے بتاتے۔‘‘ فاطمہ نے سرگوشی کی۔ ’’بی بی! آپ سب نے بیٹھنا ہے، تو بیٹھو، ورنہ مَیں جارہا ہوں، مجھے مزید سواریاں بھی اُٹھانی ہیں۔‘‘
ڈرائیور نے درشتی سے کہا۔ ’’بھائی صاحب! آپ جایئے، ہم خود ہی چلے جائیں گے۔‘‘ خدیجہ نے بھی جواباً سختی سے کہا۔ ’’دیکھیے… آپ لوگ فضل چاچا کی ذمّے داری ہیں اور آپ جانتی ہیں، وہ اس معاملے میں کتنے سخت ہیں۔ اگر آپ اکیلی جائیں گی، تو وہ مجھ پر غصّہ کریں گے۔‘‘ رکشے والے نے قدرے نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا۔ لڑکیوں کو رکشے والے سے بات کرتا دیکھ کر گیٹ کیپر بھی اپنے کیبن سے باہر آگیا تھا۔ ’’خدیجہ! جب وہ کہہ رہا ہے کہ اسے چاچا ہی نے بھیجا ہے، تو ہم بیٹھ جاتے ہیں، اب دیکھو ناں ویسے بھی اتنی دیر ہوگئی ہے، فضل چاچا ابھی تک نہیں آئے۔‘‘ اقراء نے بے زاری سے کہا، وہ شاید کھڑے کھڑے یا اس بحث سے تنگ آگئی تھی۔
اُس کی بات سُن کر باقی لڑکیوں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’انکل !آپ ذرافضل چاچا کو کال کیجیے گا، پلیز۔‘‘ خدیجہ نے گیٹ کیپر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، تو اُس نے فوراً اپنی جیب ٹٹولی۔ ’’اوہ، میرا موبائل تو جلدی میں کیبن ہی میں رہ گیا۔ ابھی لے کر آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کیبن کی طرف بڑھا۔ ’’عجیب تماشا لگا دیا ہے، نہیں جانا، تو نہ سہی۔ مجھے بھی دیر ہورہی ہے۔‘‘ رکشا ڈرائیور کچھ بوکھلا سا گیا اور جلدی میں رکشے اسٹارٹ کرکے یہ جا، وہ جا۔اور وہ پانچوں ایک دوسرے کا منہ تکتی رہ گئیں۔ ’’بیٹا، وہ راستے میں ہیں، ابھی پانچ منٹ میں پہنچنے والے ہیں۔ یہ رکشےوالا کیوں چلا گیا، اسے آپ نے جانے کے لیے کہاتھا؟‘‘گیٹ کیپر نے کہا۔ ’’آپ کال کرنے کے لیے گئے، تو وہ بھی چلا گیا لیکن… اسے فضل چاچا نے بھیجا تھا ،تو وہ اب خود کیوں آرہے ہیں؟‘‘ خدیجہ کچھ اُلجھی اُلجھی سی تھی۔
’’بیگم صاحبہ! آپ تو جانتی ہیں کہ مَیں بٹیا رانی کو پہلی جماعت سے اب تک اسکول لانے، لے جانے کی ذمّے داری پوری فرض شناسی سے ادا کررہا ہوں۔ اتنے سالوں میں آپ کو کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ آج جانے کیا ہوا، مَیں چائے پی کر واپس آیا، تو رکشے کے دو ٹائرز پَھٹے ہوئے تھے۔ کالج کی چُھٹی میں پندرہ منٹ تھے، تو بس پریشانی میں چوکیدار کو فون کرنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ معافی چاہتا ہوں بیگم صاحبہ، آج میری کوتاہی کی وجہ سے جانے کیا ہوجاتا۔‘‘ فضل چاچا حویلی کے برآمدے میں بچھے امّاں بی کے تخت کے پاس سر جُھکائے کھڑے تفصیل بتا رہے تھے۔
ساتھ بچھی رنگین چار پائیوں پر ان چاروں کی مائیں بھی بیٹھی تھیں۔ ’’یہ اُسی اغوا کار رکشے والے کی حرکت ہوگی، پہلے فضل چاچا کے رکشے کے ٹائربرسٹ کر دیئے، پھر کالج پہنچ گیا۔ خدا جانے کب سے منصوبہ بنا رہا ہو۔‘‘ فاطمہ کی والدہ پریشانی سے بولیں۔ ’’ثریا بیٹی، پریشانی کاہے کی، اس نے جو بھی منصوبہ بنایا، اللہ نے ناکام کردیا۔ ہماری بچیاں خدا کے حُکم سے محفوظ ہیں،یہ سب آیاتِ حفاظت کے حصار میں جو تھیں اور جب اللہ کی امان میں دے دیا، توپھر بھروسا رکھنا چاہیے کہ وہ کچھ غلط نہیں ہونے دے گا۔‘‘
امّاں بی نے شفقت بَھرے انداز میں انہیں سمجھایا، پھر ساتھ ہی فضل چاچا کی طرف متوجّہ ہوئیں۔ ’’نہیں فضل، آپ کو ہم سے معافی مانگنے کی قطعی ضرورت نہیں، اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں اور نہ ہمیں آپ سے کوئی شکایت ہے، جس طرح مجھے اس وقت دن ہونے کا یقین ہے، اِس سے کہیں زیادہ مجھے خدا کی رحیم و کریم ذات پر یقین ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری بچیاں سلامت ہیں۔ ہاں، آئندہ کے لیے خیال رکھیے گا کہ اگر کوئی مجبوری ہوجائے، تو فی الفور اطلاع کردیں تاکہ آج کی طرح کا کوئی واقعہ رونما نہ ہو۔‘‘ انہوں نے اپنے مخصوص شفقت بَھرے لہجے میں کہا اور پاس بیٹھی خدیجہ نے ’’امّاں بی، اللہ پاک نے ایک مرتبہ پھر آیاتِ حفاظت کے حصار کا کرشمہ دکھا دیا۔‘‘ کہتے ہوئے اپنا سر اُن کے کندھے پر رکھ دیا۔