وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آج آئین کا مقدمہ لیکر ایوان میں پیش ہوا ہوں، عمران خان کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو گا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ 1973ء کے آئین کو بنے ہوئے 50 سال ہوگئے ہیں، 1971ء کے سانحے میں پوری قوم کے لیےسبق تھا، آئین نے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ کے اختیارات واضح کر دیے، پچھلے برس ہم اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے تھے، اتحادی جماعتوں نے ریاست کو بچانے کے لیے سیاست کو داؤ پر لگایا آج آئین کا سنگین مذاق بنایا جا رہا ہے۔
وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ آج مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، ایک لاڈلا عدالت میں پیش نہیں ہوتا، چاہے کتنے بھی نوٹس ملیں، اسے رات کے اندھیرے میں مختلف عدالتوں سے توسیع ملتی ہے، وہ عدلیہ کا مذاق اڑاتا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ لاڈلا ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر تحکمانہ انداز میں بات کرتا ہے، اس نے آئین و قانون کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ وہی لاڈلا ہے جس نے اس پارلیمنٹ پر دھاوا بولا تھا، سپریم کورٹ کے باہر گندے کپڑے لٹکائے تھے، اس ایوان کو گالی دی اور تنخواہ بھی جیب میں ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ اس شخص نے خاتون جج کے بارے میں کیا کہا کسی نے نوٹس نہیں لیا، عمران خان جب حکومت میں تھے تو اپوزیشن کے خلاف جھوٹے مقدمے بنوائے، عمران نیازی نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور اس کی خلاف ورزی کی، ان کے چار سال کے دور میں قرضہ 70 فیصد بڑھ گیا۔
عمران خان کی حکومت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ اس لاڈلے کی حکومت نے ملک کو دیوالیہ پن کی طرف دھکیلا، عمران خان نے کہا کہ اس کی حکومت امریکا نے ختم کی، سابق وزیر اعظم نے یوٹرن لیا اور کہا کہ امریکا نے سازش نہیں کی تھی۔
آئی ایم ایف سے متلعق بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ہماری حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، آج آئی ایم ایف ہم سے قدم قدم پر ضمانتیں لے رہا ہے، ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں، وزیرِ خزانہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کی شرائط کو مکمل کیا۔
انہوں نے کہا کہ اب ہمیں دوست ممالک کے وعدے پورے کرنے کا کہا جا رہا ہے، ہم دوست ممالک سے تعلقات بحال کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، اس شخص نے جس طرح دوست ممالک کے زعماء کو ناراض کیا اس کی مثال نہیں ملتی، قوم کے اندر تقسیم در تقسیم کر دی گئی ہے اور اس لاڈلے کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ عمران نیازی نے دو کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کیا، بڑے ڈرامے باز آئے ہوں گے مگر ایسا ٹوپی ڈرامہ شاید ہی کسی نے کیا ہو، عمران خان نے لابنگ فرم ہایئر کی ہیں اور بیانات دلوائے جا رہے ہیں، ان غیرملکیوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں بات کریں۔
شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان جب حکومت میں تھے تو کہتے تھے اپوزیشن والے سفارت کاروں سے کیوں ملتے ہیں، اس لاڈلے کو پاکستان کے ساتھ کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے، بہت ہو گیا اب قانون اپنا راستہ لے گا۔
انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والوں پر پیٹرول بم پھینکے جائیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں، اس لاڈلے کو ضمانت پر ضمانتیں ملتی جا رہی ہیں، یہ جنگل کا قانون ہے، یہ 1973ء کے آئین کو دفن کرنے کی سازش ہے، آج عمران نیازی دہشت گردوں کو اپنی شیلڈ بنا رہا ہے، ان کے گھر میں دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے کابینہ سے مشاورت کرتا ہوں، اگر ہم فیصلے اپنی کابینہ میں کر رہے ہیں تو باقی ادارے کیوں نہیں کرتے؟قومی اسمبلی میں پرائیویٹ ممبرز ایجنڈا کو مؤخر کر دیا گیا۔
وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ قوم کی بیٹی کو چاند رات کو گرفتار کیا گیا، کسی نے نوٹس نہیں لیا، تحریک انصاف نے فوج کے خلاف منظم مہم چلائی، بیرون ملک آرمی چیف کے خلاف مظاہرے کرائے، عمران خان کو پاکستان سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دیں گے، ایوان کو ان معاملات کا فی الفور نوٹس لینا ہو گا، عمران خان کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو گا۔
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ڈیوٹی کے دوران ایک بریگیڈیئر لیول کا افسر شہید ہوا، 80 ہزار پاکستانیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دیں، آج یہ نیازی دہشت گردوں کو اپنی شیلڈ بنا رہا ہے، ویڈیوز اور تصاویر منگوا کر دکھ لیں، میں آج بطور پاکستان، پارلیمنٹیرین گزرش کر رہا ہوں کہ اس ہاؤس کو ان معاملات کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے کہیں دیکھا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پیٹرول بم مارے جائیں، کیا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے، کیا یہ ایوان اس بات کی اجازت دے گا؟
ان کا کہنا ہے کہ 26 نومبر کو نئے سپہ سالار کا چناؤ ہوا، جنرل عاصم منیر ایک پروفیشنل سولجر ہیں، سوشل میڈیا پر افواج کی لیڈر شپس پر غلیظ زبان استعمال کر رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پرانے نیب کے قوانین کے مطابق ہمارے کچھ ساتھیوں کو انصاف ملا، مالم جبہ کا کیس میرے دور میں تو بند نہیں ہوا، جلدی تھی کہ خواجہ آصف اور آصف زرداری کو دس دس سال جیل بھجوایا جائے، ریٹائرڈ ججز کو نیب میں لگایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس میں اسٹیٹ بینک نے فیکٹس دیے، ہمیں ہاتھ باندھ کر عدالتوں میں کھڑا کیاجاتا تھا، تحکمانہ انداز میں ڈکٹیٹ کیاجاتا تھا، کسی شخص کے خلاف کوئی ثبوت سزا دلوانے کے لیے نہیں آیا۔
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے گزارش کروں گا کہ آڈیو کا فارنزک کرائیں، اگر آڈیو جھوٹی ہے تو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور اگر سچی ہے تو سچ سامنے آنا چاہیے، سیاستدان تو ایک منٹ میں جیلوں میں جاتے ہیں، معاشرے میں معزز لوگ بھی ہوتے ہیں، قابل احترام بھی ہوتے ہیں، خائن بھی ہوتے ہیں، جھوٹے بھی ہوتے ہیں، یہ معاشرے کا حصہ ہے، آج تک کتنے اعلیٰ عدالتوں کے جج کرپشن پر نکالے گئے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ کس طرح عمران نیازی 2021ء میں دہشت گردوں کو واپس لے کر آیا، ان کو آفرز دیں، وہ کون لوگ تھے جنہوں نے دہشت گردوں کو اسپانسر کیا، سوات اور دوسرے علاقوں میں بسایا، کون ان کو لے کر آیا تھا، کیا مقاصد تھے، اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب پارلیمانی سیکیورٹی کی میٹنگ ہوئی تھی تو ڈنکے کی چوٹ پر کہا تھا کہ دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے، ان کیمرا میٹنگ تھی، تفصیل نہیں بتا سکتا۔
شہباز شریف نے کہا کہ 2018ء کا جھرلو چلا تھا اس کی باتیں قوم کے سامنے آ چکیں، وہ جھرلو آخری رات بھی چلا جب آر ٹی ایس بند کر دیا گیا، دیہاتوں کے نتائج چند گھنٹوں میں اور شہروں کے نتائج لیٹ آ رہے تھے، وہ جھرلو الیکشن اس قوم کا شومئی قسمت بن گیا، چور اور ڈاکو کا بیانیہ اتنا تیز کیا گیا کہ دنیا کی تاریخ میں اس مثال نہیں ملتی۔
وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمپلیکس حملے اور توڑ پھوڑ پر جے آئی ٹی بن چکی ہے، یہ وہ جے آئی ٹی نہیں جو ثاقب نثار نے بنائی تھی، بنی گالہ کے گھر کو ریگولرائز کر دیا گیا اور اس کو صادق اور امین قرار دے دیا گیا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ وہی عمران نیازی ہے جو چار حلقوں کی بات کرتا تھا تو دو چیف جسٹسز نے یہ کیس ٹیک اپ کیا تو ان کی بدترین توہین کی گئی، یوسف رضا گیلانی کو تو ڈس کوالیفائی کردیا گیا، کسی نے پوچھا تک نہیں، آج شرافت کا مقابلہ بدمعاشی سے ہے، جمہوریت کا مقابلہ فاش ازم سے ہے۔