کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے کہا کہ پی ٹی آئی سیاست کو ملک کے اندر ہی رکھے تو اچھا ہوگا،ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالتی اصلاحات ترمیم آئین کے اندر رہتے ہوئے سپریم کورٹ کے حوالے سے قانون سازی ہوسکتی ہے ، عدالتی اصلاحات ترمیمی بل منظوری سے پہلے سپریم کورٹ بھیجا جائے جہاں فل کورٹ اسے دیکھے تو بہتر ہوگا،یہ رولز ، پریکٹس اور پروسیجرز کی بات بھی نہیں ہے،ایسی تبدیلی آئین میں ترمیم کیے بغیر نہیں ہوسکتی، اپیل کی طاقت پہلے ہی آرٹیکل 185میں دیدی گئی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نئی اپیل کا حق دینا رولز یا پروسیجر کی بات نہیں ہے ن لیگ کے رہنما محسن شاہنواز رانجھانے کہا کہ عدالتی اصلاحات ترمیمی بل سے سپریم کورٹ مجموعی فیصلہ سازی کی طرف بڑھے گی۔ سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے کہا کہ آئین کے تحت سپریم کورٹ کے حوالے سے پارلیمنٹ قانون بناسکتی ہے، قانون سازی سے پہلے سپریم کورٹ سے مشورہ کرلیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، سپریم کورٹ کے کام پچھلے 75سال سے اپنے بنائے گئے رولز کے تحت چلتے آرہے ہیں، حکومت عدالتی اصلاحات ترمیمی بل لانے سے پہلے سپریم کورٹ سے مشورہ کرلیتی تو زیادہ بہتر ہوتا، سپریم کورٹ کے متعلق قانون میں تبدیلی بہت اہم ترین بات ہوتی ہے، عدالتی اصلاحات بل پر پارلیمنٹ میں سیرحاصل بحث ہونی چاہئے، یہ کوئی ہنگامی معاملہ نہیں اس لیے قانون جلدبازی میں منظور نہیں ہونا چاہئے، قانون پر سپریم کورٹ کی رائے کے ساتھ بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز سے مشاور ت بھی ضروری ہے۔ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ حکومتی قانون سازی آئینی ترمیم کی بات نہیں کررہا پروسیجر کی بات کررہا ہے، آئینی ترمیم وہاں ہوتی ہے جہاں آئین تبدیل کیا جائے، سپریم کورٹ میں کئی اپیلیں ایسی ہیں جس کا ذکر آئین میں ہے، قانون کے تحت بھی سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دیا جاسکتا ہے، پارلیمنٹ میں کی گئی قانون سازی کو سپریم کورٹ اسٹرائیک ڈاؤن کرسکتی ہے، سپریم کورٹ اگر اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ یہ قانون سازی آئین سے متصادم ہے تو وہ اسے واپس کرسکتی ہے، سپریم کورٹ نے جب سے 184/3کا زیادہ استعمال شروع کیا اس کے تحت فیصلے کیخلاف اپیل کے حق کیلئے آوازیں آرہی ہیں،جسٹس منصور علی شاہ کی یہ تجویز قابل غور ہے کہ ہر جیوڈیشل سال کی ابتداء میں سینئر ججوں کا بنچ بنادیا جائے جو 184/3کے تمام کیسز سنے۔وسیم سجاد نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ میں 90دن کے اندر ردوبدل کرسکتا ہے، انتخابات کی تاریخ 90دن کے بعد کردی جائے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، سپریم کورٹ نے الیکشن کی تاریخ 90دن سے پانچ دس روز آگے پیچھے کرنے کی اجازت دی تھی، الیکشن کمیشن کا انتخابات کی تاریخ 30اپریل سے 8اکتوبر کرنا آئین کی روح کے خلاف ہے، سپریم کورٹ حکومت پر الیکشن کمیشن کو فنڈز ، عملہ اور سیکیورٹی فراہم کرنے کیلئے احکامات دے، انتخابات کی سیکیورٹی کیلئے فوج ضروری نہیں پولیس، رینجرز اور ایف سی بھی یہ کام کرسکتی ہے۔ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ پنجاب کی نگراں حکومت کے خلاف بیرون ملک مہم سے ملک کی بدنامی ہوگی، انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنی جگہ ہندوستان اس کا بہت فائدہ اٹھائے گا، پی ٹی آئی سیاست کو ملک کے اندر ہی رکھے تو اچھا ہوگا۔ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئین کے اندر رہتے ہوئے سپریم کورٹ کے حوالے سے قانون سازی ہوسکتی ہے ، عدالتی اصلاحات ترمیمی بل منظوری سے پہلے سپریم کورٹ بھیجا جائے جہاں فل کورٹ اسے دیکھے تو بہتر ہوگا، حکومت نے سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی جلد بازی میں کی تو مورخ حیرت سے دیکھے گا، آرٹیکل184/3 کے تحت نوٹس ازخود نوٹس سے زیادہ بڑی بات ہے، آرٹیکل 184/3میں پٹیشن کی جاتی ہے اور سپریم کورٹ ازخود بھی معاملات دیکھتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ بل میں تجویز کہ تین رکنی بنچ 184/3کے معاملات دیکھے یہ بالکل مختلف نوعیت کا معاملہ ہے، سپریم کورٹ کا بنچ فیصلہ کردے اس فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل مختلف نوعیت کا معاملہ ہے، اس کا تعلق آئین کے آرٹیکل 191سے نہیں ہے ، یہ رولز ، پریکٹس اور پروسیجرز کی بات بھی نہیں ہے،ایسی تبدیلی آئین میں ترمیم کیے بغیر نہیں ہوسکتی، اپیل کی طاقت پہلے ہی آرٹیکل 185میں دیدی گئی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نئی اپیل کا حق دینا رولز یا پروسیجر کی بات نہیں ہے۔سلما ن اکرم راجہ نے کہا کہ کسی ذیلی عدالت کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل معمول کی بات ہے، سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق دینا صرف رولز یا پروسیجر کی بات نہیں ہے، یہ بہت بڑا معاملہ ہے اس پر دقیق غور و خوض ہونا چاہئے۔