• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتی اصلاحات کا بل بدھ کو بعض ترامیم کے ساتھ قومی اسمبلی میں منظوری کے بعد ان سطور کی اشاعت سے قبل جمعرات کو ایوان بالا سینٹ کے مرحلے سے گزر کر صدر مملکت کے پاس توثیق کے لئے پہنچ چکا ہو گا۔ تاہم اس نئے قانون سمیت کئی امور پر مباحث کا سلسلہ جاری ہے عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کا آسان لفظوں میں جواب کب اور کیسے ملے گا؟ پنجاب اور سرحد اسمبلی کے انتخابات کیلئے یقینی طور پر کب ووٹ دینے ہیں؟ قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کی پولنگ ایک ہی دن ہونی ہے یا دیگر زیر بحث آنے والے طریقے اختیار کیے جائینگے؟ اس وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر ) ایکٹ 2023ء،جسے چیف جسٹس آف پاکستان کے از خود نوٹس لینے کے اختیارت کے تناظر میں نیامیکنزم بنانے کے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، وکلا تنظیموں کی مختلف آرا کی زد میں ہے۔ پاکستان بار کونسل اور سندھ بار کونسل کے عہدیداروں کےبموجب عدالت عظمیٰ سے متعلق قانون سازی قا بل ستائش ہے۔ آرٹیکل 184(3) کے مقدمات میں اپیل کا حق دینا فریقین کے لئے فائدہ مند ہو گا۔ سندھ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اصلاحات سے عدلیہ کی آزادی کو تقویت ملے گی اور عام آدمی کی انصاف تک رسائی آسان تر ہو گی ۔جبکہ پنجاب بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے آرٹیکل 184(3) کے مقدمات میں اپیل کا حق دیئے جانے کو فریقین کے لئے سود مند قرار دیا۔ دوسری جانب سپریم کوٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام آل پاکستان وکلا کنونشن میں الیکشن کمیشن کے پنجاب میں عام انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کے خلاف مذمتی قرار داد سمیت سات قرار دادیں منظور کی گئیں۔ لاہور میں منعقدہ اس کنونشن میں ملک بھر کی وکلا تنظیموں سے شرکت کی اپیل کی گئی تھی تاہم سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سوا دیگر پاکستانی بار، پنجاب بار، سندھ اور بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے نمائندے شریک نہیں ہوئے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری کا کہنا تھا کہ کنونشن میں منظور کردہ تمام قرار دادیں متفقہ ہیں اور کسی ایسوسی ایشن نے بائیکاٹ نہیں کیا۔ مذکورہ قراردادوں کے بموجب سپریم کورٹ کی جوڈیشیل طاقت ریڈ لائن ہے جسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سب چاہتے ہیں اصلاحات ہوں لیکن بل غلط وقت پر پیش کیا گیا۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ ادارے کے وسیع تر مفاد میں سپریم کورٹ کے تمام ججوں کے مابین اختلافات خوش اسلوبی سے حل کریں۔ قومی اسمبلی نے بدھ کے روز بعض ترامیم کے ساتھ عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023کے زیر عنوان جس قانون کی کثرت رائے سے منظور ی دی اور جو ایکٹ کے طور پر نفاذ کے مراحل سے گزر رہا ہےاس میں محسن داوڑ کی ترمیم بھی شامل کر لی گئی ہے جس سے مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف کو ازخود نوٹس پر ملی سزا کے خلاف اپیل کا حق مل گیا جبکہ یوسف رضا گیلانی، جہانگیر ترین ، نسلہ ٹاور کے متاثرین سمیت از خود نوٹس کیسز فیصلوںکے دیگر متاثرہ فریق بھی ایک بار اپیل کا فائدہ اٹھا سکیں گے۔بدھ کے روز ہی از خود نوٹس کیسز کے حوالے سے قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ کا یہ فیصلہ سامنے آیا ہے کہ رولز بنائے جانے تک از خود نوٹس کے تمام کیسز ملتوی کر دیئے جائیں۔ متعلقہ حلقوں کو اس فیصلے پر سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔ اور یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ ججوں میں اختلاف رائے بہتر سے بہتر فیصلے تک پہنچنے کی جستجو کا حصہ ہوتا ہے۔ اسے کوئی اور مفہوم نہیں دیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین