نظیر فاطمہ
’’ہیلو!! مسز حماد! کیا حال ہیں؟‘‘ مسز خالد نے کال ریسیو ہوتے ہی اپنی نرم سی آواز میں پوچھا۔ ’’مَیں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہیں؟‘‘ مسز حماد نے موبائل فون اپنے دائیں کندھے اور کان کے درمیان دبایا اور اپنے ناخنوں پرسُرخ نیل کلر پھیلانے لگیں۔ ’’وہ، مَیں نے یہ پوچھنے کے لیے فون کیا تھا کہ آپ آج کیا سعید زمان کی افطارپارٹی پر جارہی ہیں، اگر جا رہی ہیں، تو مجھے بھی پِک کرلیجیےگا۔ خالد دراصل آفس سےڈائریکٹ آئیں گے اور میری گاڑی میکینک کےپاس ہے۔‘‘مسز خالد کا لہجہ قدرے التجائیہ سا تھا۔ ’’اوکے! مسز خالد! مَیں آپ کو پِک کرلوں گی۔‘‘ مسز حماد نے موبائل فون اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بات مکمل کی اور اللہ حافظ کہہ کر کال ڈس کنیکٹ کر دی۔
آج کل افطاریوں کا موسم چل رہا تھا۔ کل خان حیدر کے ہاں افطار پارٹی تھی اور ایسی شان دار افطار پارٹی کہ شرکاء اش اش کر اُٹھے۔ کوئی دس سے بارہ ڈشز تھیں اور بھانت بھانت کے پھلوں کے ڈھیر الگ۔ افطاری کے بعد مغرب کی باجماعت نماز کا اہتمام بھی تھا۔ افطار میں تو ایک سو کے قریب لوگ شریک تھے، مگر نمار با جماعت میں صرف پچیس سےتیس افراد ہی شامل تھے۔ باقی اِدھر اُدھرکرسیوں پر بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ خواتین یوں تیار ہو کر آئی تھیں، جیسے شادی کی کسی تقریب میں شریک ہوں۔ اِتراتے ہوئے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی تگ و دو میں مصروف، سر سے پائوں تک مختلف برانڈز کا چلتا پھرتا اشتہار ہوں جیسے۔
یہاں کا یہی چلن تھا کہ دسویں روزے کے بعد ایک دوسرے کے ہاں افطاریوں کا جو سلسلہ شروع ہوتا، تو پھر اُنتیسویں روزے ہی پر کہیں جا کر رُکتا۔ اور ہرکوئی اِن افطارپارٹیوں میں ایک دوسرےپر سبقت لےجانے کی کوشش کرتا۔ مقصد ثواب سے کہیں زیادہ بہت سے دنیاوی فوائد کا حصول جو ٹھہرا۔ مانا کہ افطار کروانا عین کارِ ثواب ہے، مگر تب جب اس کا اہتمام غرباء، مساکین اور ضرورت مندوں کے لیے کیا جائے، نہ کہ خُودنمائی کے جذبے یا دنیاوی فوائد کی غرض سے پیٹ بَھروں ہی کے آگے کھانے کے ڈھیر لگا دیئے جائیں۔ آج ایسی ہی ایک افطار پارٹی سعید زمان کے گھر پر تھی۔ اور مسز حماد اور مسز خالد وہیں جانے کی تیاری کر رہی تھیں۔
مسز حماد ہارن پر ہارن دے رہی تھیں۔ ’’سوری مسز حماد! بس تیار ہونے میں تھوڑا زیادہ وقت لگ گیا۔‘‘ مسز خالد جلدی سے گاڑی کا اگلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئیں۔ پانچ، سات ہزار کا جوڑا زیب تن کیے، فُل میک اَپ میں نک سک سے تیار مسز خالد خُوب دمک رہی تھیں۔ مسز حماد بھی کچھ کم نہیں لگ رہی تھیں۔ ’’بھئی، رمضان میں تو بہت ہی خرچہ ہو جاتا ہے۔ ہر افطار پارٹی کے لیے ایک نیا جوڑا بنانا پڑتا ہے۔ اب ایک ڈریس دوبارہ پہننا تو بے عزتی والی بات ہی ہے ناں۔‘‘مسز خالد نے اپنے کُھلے بالوں کو انگلیوں سے سنوارتے ہوئے کہا۔
’’ویسے میں نے سُنا ہے کہ رمضان میں جو چیز پہلی دفعہ استعمال کرو، اُس کا حساب کتاب نہیں ہوتا۔ اِس لیےمیرےخیال میں تو خرچےکی کچھ زیادہ فکر نہیں کرنی چاہیے، جتنے جوڑے چاہو بنائو اور پہنو۔‘‘ مسز حماد نے نئی منطق نکالی۔ وہ غالباً یہ بات بھول گئیں کہ انسان کی تو ہر آتی جاتی سانس کا حساب ہوگا، اور محض دنیا دکھاوے کے لیے بنائے گئےجوڑے تو پھرجوڑے ہیں۔ ویسے دونوں میں سے کسی کا بھی روزہ نہیں تھا، مگر افطاری میں یوں شریک ہونےجارہی تھیں، جیسےبڑا اجر کمانے جا رہی ہوں۔
’’ہیلو مسز زین العابدین!‘‘ دونوں سعید زمان کے ہاں پہنچیں، تو اُن کا پہلا سامنا مسز زین العابدین سے ہوا۔ یہ اُن کے سرکل کی اُن چند خواتین میں شامل تھیں، جو اور بہت سے’’عجیب عجیب‘‘ کام کرنے کے علاوہ پورے روزے بھی رکھتی تھیں۔ ’’وعلیکم السلام! آپ دونوں کا کیا حال ہے؟‘‘ مسز حماد اورمسز خالد نےاپنے ہیلو کےجواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ ُسن کر ایک دوسرے کو تھوڑی معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ اور اُنھیں جلدازجلد نمٹا کر دونوں اپنی ہی جیسی دیگرخواتین میں جابیٹھیں۔
’’ہم نے تو افطار جیسے مقدّس فریضے کو بھی ’’افطار پارٹی‘‘ بنا دیا ہے، جس کا مقصد ہلّے گلّے اور انجوائے منٹ کے سوا کچھ نہیں۔ افطار کرنا اور کروانا بھی ایک عبادت ہے، مگر ہم نے تو اِسے بھی ایک فیسٹیول بناکر رکھ دیا ہے۔ اتنی بڑی بڑی شان دار افطار پارٹیوں میں مستحق روزے داروں کا ذرا سا حق بھی نہیں اور ایسے افراد کی افطاری کے لیے اتنا اہتمام، جن میں سے اکثریت بغیر روزے کے ہے۔‘‘ مسز زین العابدین تتلیوں کی طرح اِدھر اُدھر اُڑتی خواتین اور لڑکیوں کودیکھ دیکھ کرسوچ رہی تھیں ۔
افطاری کے بعد نماز ادا کر کے مسز زین العابدین ایک حلقےمیں بیٹھ کر بات چیت کرنےلگیں۔ ’’رمضان المبارک کا مہینہ درحقیقت ہمیں نفس پر کنٹرول کی تعلیم، مفلس و نادار افراد کی دُکھ، تکلیف، بھوک پیاس سمجھنے کا درس دیتا ہے۔ دن بھر بھوکارہ کے، محض رب کی خوش نُودی کی خاطر اپنی تمام ترخواہشات اورتعیشات ترک کر کے، ہمیں ہمارے مقصدِ زندگی، یعنی ایک اللہ کی بندگی اور دوسرے بندوں کا احساس کرنے کی ترغیب دیتا ہے ، مگر ہم نے تو اِسے صرف کھانے پینے کا مہینہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ افطار سے سحر تک بس کھانے پینے ہی میں مصروف رہتے ہیں اور سحر سے افطار تک نت نئے لوازمات کی منصوبہ بندی یا تیاری ہی میں لگے رہتے ہیں۔
ہمیں کچھ سوچنا چاہیے کہ کیا ہمارا یہ رویہ کتنا غلط ہے۔ ہم روزہ رکھ کر اُس کے تقاضے پورے بھی کر رہے ہیں یا صرف بھوک پیاس ہی کاٹ رہے ہیں۔‘‘ مسز زین العابدین اپنے مخصوص دھیمے، مگر پُر اثر انداز میں بول رہی تھیں۔ اُن کا طرزِ زندگی اِس سوسائٹی کے دیگر افراد سے بہت مختلف تھا۔ اُن کا زیادہ تر وقت خدمت ِ خلق میں گزرتا تھا اور اُنھیں ایسی نمود و نمائش والی جگہوں پر جانا بھی پسند نہیں تھا۔ مگر چوں کہ اُن کے شوہر کا تعلق ایک بہت ہی اثر و رسوخ والے خاندان سے تھا اور وہ ایسی ہر تقریب میں مدعو ہوتے تھے، تو اُنھیں بھی چارو ناچار اُن کا ساتھ دینا پڑتا تھا۔
’’ لو جی، اِن کا لیکچر پھر شروع ہو گیا۔‘‘ مسز حماد نے مسز خالد کے کان میں منہ گُھسا کر کہا۔ ’’لیکن مسز زین العابدین! ہمیں رمضان میں اپنا دسترخوان وسیع کرنے کی تعلیم بھی تو دی جاتی ہے ناں، تو پھر تو یہ کھانا پینا اور افطار پارٹیاں ثواب کا کام ہوا۔‘‘ مسز خالد نے کبھی کسی درس میں سُنا ہوا جملہ مفہوم سمجھے بغیر ہی بول دیا۔ مسز حماد نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اُن کو اس جملے پر داد دی۔
مسز زین العابدین اُن دونوں کے انداز پر ہلکے سے مُسکرا دیں۔ ’’دستر خوان وسیع کرنے سے مُراد یہ نہیں ہے کہ اپنے دستر خوان پر بیس ڈشز کا اضافہ کرلو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنا دستر خوان غرباء، مساکین اور ضرورت مندوں تک وسیع کر دو۔ ان کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر لو۔‘‘ اُنھوں نے بہت نرمی سے مسز خالد کےجملے کی وضاحت کی، مگر جواباً دونوں منہ بنا کر رہ گئیں۔
’’ میرا بس چلے، تو مَیں تو مسز زین العابدین کو اپنی کسی پارٹی میں ہرگز نہ بلائوں۔‘‘ واپسی پر بھی مسز خالد اور مسزحماد کو ایک ساتھ ہی نکلنا پڑا، تو مسز خالد نے گاڑی میں بیٹھتے ہی مسز حماد کے سامنے اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔ اُنھیں مسز زین العابدین کی اِس طرح وضاحت پر سخت بے عزتی کا احساس ہوا تھا، اور وہ ابھی تک غصّے میں جل بُھن رہی تھیں۔ ’’ہر وقت نصیحت بی بی بنی رہتی ہیں۔ چند یتیم خانوں میں دو دو دیگیں بھجوا کر اور کچھ روزے داروں کے گھر راشن ڈلوا کر سمجھتی ہیں، بڑا تیر مار لیا۔
اِتنی ہی تکلیف ہے، تو پھر دوسروں کے گھر انواع و اقسام کے کھانے کھانے پہنچ کیوں جاتی ہیں۔‘‘ مسز حماد نے خاصی کمینگی سے کہا۔ حالاں کہ مسز زین العابدین اِن افطارپارٹیوں میں شریک ضرور ہوتی تھیں، مگر اُنھوں نے کبھی کھانے کا لالچ نہ کیا تھا۔ وہ کھجور سے روزہ افطار کرتیں، تھوڑا سا کچھ کھا کر پانی پیتیں اور پھر مغرب کی نماز پڑھ کر جلد ہی وہاں سے اُٹھ جاتیں۔
’’تو اور کیا… اب اِن افطارپارٹیز میں اتنے اہم لوگ بلائےجاتے ہیں۔ اُن کو اگر پروٹوکول نہ دیا جائے تو اس سوسائٹی میں ہمارا سروائیول کتنا مشکل ہو جائے۔ اگر اِن پارٹیز کے ذریعےایک تیر سے دو شکار (ثواب بھی اور مادّی فوائد بھی) ہوجاتے ہیں، تو بھلا اس میں کیا بُرا ہے۔‘‘ مسز خالد بڑبڑائیں۔
’’ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم نے دین اور نیکیوں کو بھی خُودنمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ دین ہمارے لیے کشتِ اغراض ہے، جسے ہم اپنی غرض اور فائدے کے تحت بوتے اور سینچتے ہیں۔ بعض لوگ اسے جنّت حاصل کرنے کے لیے پروان چڑھاتے ہیں، بعض نارِ جہنم سے بچنے کے تحت اور بعض مادّی و مالی فوائد کے حصول کے لیے۔ ہم نے دین کو بھی تجارت سمجھ لیا ہے ،یہ کریں گے تو فائدہ، یہ کریں گے تو نقصان۔
ہم کوئی بھی نیک کام صرف اللہ کی رضا کے لیے نہیں کرتے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ اصل چیز تو اللہ کی رضا ہے کہ وہ راضی تو سب ہمارا، وہ ناراض تو ہم ککھ بھی نہیں۔‘‘سعید زمان کے گھر ہونے والی افطار پارٹی میں کھانے کا زیاں دیکھ کر مسز زین العابدین ابھی تک کُڑھ رہی تھیں۔ وہ خُودنمائی کے جذبے کے تحت ایسی افطاریوں پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کی قائل نہیں تھیں، جن میں درجنوں ڈشز کو چھوا تک نہیں جاتا تھا۔
وہ ہر سال رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے چند روز پہلے اُن غریب گھروں میں پورے مہینے کا اچھے درجے کا راشن ڈلوا دیتی تھیں، جو غربت کے باوجود پورے روزے رکھتے تھے، مگر اُن کے پاس کھانے پینے، پیٹ بھرنے کے لیے قناعت و توکّل کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ اور پھر وہ یہ سوچ سوچ کو خُوش ہوتی تھیں کہ اب اِن غریب گھرانوں کو یہ فکر نہیں ہوگی کہ سحری میں کیا کھائیں اور افطار کس سے کریں۔ اس کے علاوہ ہر روز قریبی یتیم خانے میں باقاعدہ کھانا بھی بھجواتی تھیں۔
ایسا نہیں تھا کہ مسز زین العابدین اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو افطار نہیں کرواتی تھیں، بالکل کرواتی تھیں، مگر بے جا اسراف نہیں کرتی تھیں۔ دو سے تین ڈشز اورموسمی پھل افطار کے وقت اور ڈنر میں کوئی ایک ڈش۔ گرچہ لوگ اُن کی اس ’’روکھی سوکھی‘‘ افطار پارٹی میں بادل نخواستہ شریک ہوتے تھے۔ زین العابدین کو بھی کچھ خاص اچھا نہ لگتا تھا، مگر وہ پروا نہیں کرتی تھیں۔ اُن کے زیر نظر حضرت علی ؓ کا یہ قول رہتا تھا کہ ’’تم اچھا کرو اور زمانہ تمہیں بُرا سمجھے۔ یہ تمھارے حق میں بہتر ہے، بجائے اس کےکہ تم بُرا کرو اور زمانہ تم کو اچھا سمجھے۔‘‘
’’ زین !مجھے آج سعید زمان کے گھر میں کھانوں کے ڈھیر ضائع ہوتے دیکھ کر بہت دُکھ ہوا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ہمیں ایک پَل کے لیے اپنے گردو نواح کے اُن غریب روزہ داروں کا خیال کیوں نہیں آتا، جن کو افطار کے لیے ایک کھجور، ایک سموسہ اور ایک گلاس شربت بھی میسّر نہیں،مگر وہ خُودداری کے ہاتھوں مجبور ہو کر چُپ ہو رہتے ہیں۔ وہ لوگ جن پر اللہ نے اپنی نعمتوں کی بارش کر رکھی ہے، اُن کا فرض ہے کہ وہ ایسے ضرورت مند افراد کو ڈھونڈیں اور اُن کی مدد کریں، جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، مگر اُن کے حالات اُن کے چہروں پر لکھے ہوتے ہیں۔
بس پڑھنے والی نظر چاہیے۔ ہمیں اُن لوگوں پر، جن کے گھروں میں ہر نعمت میسّر ہے، روپیا پیسا خرچ کرنے کی بجائے، اُن لوگوں کی مدد کرنی چاہیے، جن کے پاس یہ نعمتیں نہیں ہیں اور ایسے طریقے سے اُن کی مدد کرنی چاہیے کہ اُن کی عزت ِ نفس کو ٹھوکر بھی نہ لگے۔‘‘ مسز زین العابدین نے بات کرتے کرتے ایک نظر اپنے شوہر کی طرف دیکھا، جو عدم دل چسپی سے اُن کی باتیں سُن رہے تھے۔ اور پھر بالآخر بول ہی پڑے۔’’یار! بس بھی کرو۔ جو تمھارا دل چاہتا ہے، وہ تم کرتی ہو ،تو جو دوسروں کا دل چاہتا ہے، وہ اُنھیں کرنے دو۔ ہم دوسروں کو روک ٹوک کر اُن کی نظروں میں بُرے کیوں بنیں۔‘‘ مسٹر زین العابدین نے اتنا کہہ کر میز سے کتاب اُٹھا لی، جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اب مزید کوئی بات نہیں ہوگی۔
’’مَیں لوگوں کی نظروں میں بُرا بننے سے نہیں ڈروں گی اور ہر ایسی افطار پارٹی میں جہاں بے جا اسراف ہوگا، لوگوں کے سامنے اپنا نقطۂ نظر بیان کرتی رہوں گی۔ کون جانے کس کے دل میں میری بات اُتر جائے اور اُس سے کسی کا بھلا ہو جائے۔ ایسا میں صرف اللہ کی رضا کے لیے کروں گی کہ وہ راضی تو سب ہمارا، وہ ناراض تو ہم ککھ بھی نہیں۔‘‘ مسز زین العابدین نے دل ہی دل میں پختہ عہد کیا اور سونے کے لیے لیٹ گئیں۔