• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں آئے دن یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے 30ارب ڈالر، وارن بفٹ نے 26ارب ڈالر اور اینڈریو کارنیج نے 10 ارب ڈالر عطیے کی مد میں دیے۔ اس طرح ہمیں دنیا کے بڑے بڑے مخیر حضرات کے ناموں سے واقفیت ہوتی رہتی ہے مگر کسی مسلمان مخیر کے بارے میں اس طرح کی خبریں ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ شاید یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی چیریٹی زکوٰۃ ہے جس کی مد میں مخیر مسلمان حضرات ہر سال 500 ارب ڈالر کے عطیات دیتے ہیں۔

دوسرے اسلامی ممالک کی طرح پاکستان کا شمار دنیا میں چیریٹی اور زکوٰۃ دینے والے سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں زکوٰۃ اور خیرات دینے کا سلسلہ یوں تو سال بھر جاری رہتا ہے مگر رمضان المبارک میں اس میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے اور لوگ اس ماہ مقدس میں دل کھول کر زکوٰۃ اور عطیات کی مد میں ایک بڑی رقم غریبوں اور مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں۔ پاکستان سینٹر فار فلن تھراپی کے ایک سروے کے مطابق، پاکستانیوں کی جانب سے زکوٰۃ، فطرانہ اور عطیات کی مد میں دی جانے والی رقوم 240 ارب روپے سے تجاوز کرچکی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا شمار چیریٹی کرنے والے شہروں میں پہلے نمبر پر ہوتا ہے اور کراچی کے عوام سالانہ 75ارب روپے چیریٹی کی مد میں دیتے ہیں جب کہ صوبائی سطح پر پنجاب میں سالانہ 113کروڑ روپے، سندھ میں 78ارب روپے، خیبرپختونخواہ میں 38ارب روپے اور بلوچستان میں 10ارب روپے زکوٰۃ کی مد میں دیے جاتے ہیں۔ حکومت بھی ہر سال یکم رمضان المبارک کو بینکوں کے کھاتے داروں کی رقوم سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ کی مد میں کاٹتی ہے جس سے حکومت کو تقریباً 4 ارب روپے سے زائد حاصل ہوتے ہیں لیکن حکومت پر اعتماد نہ ہونے کے باعث بیشتر کھاتے دار اپنی رقوم زکوٰۃ کی کٹوتی سے بچنے کیلئے رمضان المبارک کی آمد سے کچھ روز قبل ہی نکلوالیتے ہیں یا پھر زکوٰۃ ڈکلیئریشن جمع کروادیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو حکومت کو زکوٰۃ کی مد میں کئی گنا زیادہ رقم حاصل ہوسکتی ہے۔

حکومت پر اعتماد نہ ہونے کے سبب مخیر حضرات اپنی زکوٰۃ، خیرات اور عطیات سے براہ راست فلاحی اداروں، غریبوں اور مستحقین کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں تاہم آج کے سوشل میڈیا دور میں اس میں نمود و نمائش کا عنصر شامل ہوتا جارہا ہے اور لوگ کسی کی مدد کرتے ہوئے تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے اپنی تشہیر کرتے ہیں جس سے غریبوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ ہر سال رمضان المبارک میں راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے کے نتیجے میں کئی افراد جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے سائٹ میں نقدی اور مفت راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے کے نتیجے میں 3بچوں اور 9خواتین سمیت 12 افراد کی موت کے دلخراش واقعہ نے ہر پاکستانی کو افسردہ کردیا ہے اور یہ مطالبہ زور پکڑرہا ہے کہ حکومت اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے سخت اقدامات اٹھائے۔قرآن پاک میں اللہ کا فرمان ہے کہ جو عمل اللہ کی خوشنودی اور آخرت میں ثواب کی اُمید کے حصول کی بجائے نمود و نمائش اور ریاکاری کے لئے انجام دیا جائے تو وہ نیکی ضائع ہوجاتی ہے اور کوئی ثواب نہیں ملتا۔

نبی کریمﷺ کا فرمان ہے، ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور زکوٰۃ و خیرات دینے سے انسان کے مال میں کمی نہیں ہوتی۔‘‘ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کوئی بھی معاشرہ اُسی وقت ترقی کرتا ہے جب اس کے صاحب حیثیت افراد اپنی دولت کا ایک حصہ نادار اور مستحق لوگوں پر خرچ کریں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی یہ امانتیں ذمہ داری کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے اصل حقداروں تک پہنچائیں کیونکہ زکوۃ، خیرات، عطیات اور صدقات صرف غریبوں اور محتاجوں کا حق ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ www.makeawish.org.pk پر اُن بچوں کی خواہشات کی فہرست موجود ہے جو زندگی کے آخری ایام میں اپنی آخری خواہشات کی تکمیل کا انتظار کررہے ہیں اور مخیر حضرات ان کی خواہشات کی تکمیل کرکے ان کے آخری دنوں میں چہروں پر خوشیاں بکھیر سکتے ہیں۔ میری قارئین سے درخواست ہے کہ وہ میک اے وش فائونڈیشن کو رمضان المبارک میں دیئے جانے والے زکوٰۃ اور عطیات میں یاد رکھیں اور میک اے وش فائونڈیشن پاکستان یونائیڈ بینک لمیٹڈ کلفٹن برانچ کے اکائونٹ نمبر PK03UNIL0109000265407576 یا ادارے کے ایڈریس 208-A، کلفٹن سینٹر، بلاک 5کلفٹن کراچی پر بھیجیں۔ اگر ملک کا ہر مخیر شخص یہ ذمہ داری لے کہ وہ کسی ایک لاعلاج بچے کی آخری خواہش پوری کریگا تو پاکستان کا کوئی بچہ اپنا خواب یا حسرت لئے اس دنیا سے رخصت نہیں ہو گا اور شاید ہمارا یہی عمل آخرت میں نجات کا سبب بن جائے۔ اللہ تعالیٰ کا بھی یہ فرمان ہے کہ ’’میری خوشنودی کے ساتھ میری مخلوق کی خوشی بھی حاصل کرو۔‘‘

تازہ ترین