قرآنِ مجید، فرقانِ حمید میں اللہ ربّ العزت نے روزوں کی فرضیت کے حُکم کے بعد کتنے بہترین انداز میں تسلی دی کہ ’’گنتی کے چند روز ہی تو ہیں۔‘‘ لیکن برق رفتاری سے گزرتے یہ شب و روز ہمیں اللہ ربّ العالمین کے فرمان ’’ ایّامِ معدودات‘‘ کی یاد دہانی کرواتے ہیں کہ یہ گنتی کے چند دن بجلی کی سی سرعت سے گزرتے جارہے ہیں۔ ان ایّام سے وہی انسان فائدہ اُٹھا سکتا ہے، جو اِن کے لمحے لمحے کی قدر کرے اور اِنہیں غنیمت جان کر اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وقت نیکیاں سمیٹنے اور اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرنے کا ہے۔ اگر کسی مال پر سیل لگی ہو، نہایت ہی کم دام پر اعلیٰ معیار کی اشیاء مل رہی ہوں، تو کیا اُس مال پر رش نہیں ہوگا، بے شک ہوگا۔ لوگوں کا ہجوم اس قدر ہوگا کہ اُن کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ اس فانی دنیا کی مادی اشیاء کے حصول کے لیے جب انسان اتنی تگ ودود کر سکتا ہے، تو کیا باقی رہنے والی نعمتوں، فضیلتوں، اور ربّ العالمین کو راضی کرنے کےلیے کچھ محنت اور کوشش نہیں کرسکتا؟؟ بالکل کرسکتا ہے، اور اُسے کرنی بھی چاہیے، کیوں کہ اِسی میں اُس کی دنیا و آخرت کی بھلائی مضمر ہے۔
اللہ ربّ العالمین کا فرمان ہے ’’روزہ میرے لیے ہے، اور مَیں ہی اس کی جزا دوں گا۔ ‘‘سو چیے، کتنی عظیم عبادت ہے روزہ، جس کی جزا ربّ العالمین نے خود اپنے ذمّے لی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے ’’روزہ دار کے منہ کی بُو، اللہ کے نزدیک مُشک کی خُوش بُو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ رمضان المبارک صبر کا مہینہ ہے، اللہ ربّ العالمین رمضان المبارک کے ذریعے بندے میں تقویٰ پیدا کرتا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کے شب و روز میں رحمتوں،برکتوں کا نزول جاری رہتا ہے اور اسی مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے، جو ہزار راتوں سے افضل ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس مہینے کو پاتے تو اس میں خُوب عبادات کرتے، صدقہ و نوافل ادا کرتے، لوگوں کے ساتھ اور بھی زیادہ احسان کا معاملہ فرماتے، اور جب اِس ماہ کا آخری عشرہ شروع ہوتا، تو مزید عبادت کے لیے کمر کس لیتے۔ خود بھی جاگتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی اِس کی تاکید کرتے۔ ہمارے ہاں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ پہلے پہل تو رمضان المبارک کا خُوب اہتمام کیا جاتا ہے۔ روزے، نوافل، صدقات، تراویح نہایت انہماک سے ادا کیے جاتے ہیں، لیکن جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں، جوش و خروش میں کمی آجاتی ہے، یہ رویّہ بہت غلط ہے۔
شروع تا آخر ایک مسلمان کا وہی جذبہ، جوش و خروش برقرار رہنا چاہیے بلکہ اِس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید اضافہ ہونا چاہیے۔ اور پھر رمضان المبارک کی یہ سعادتیں ہمیں ایسے وقت میں نصیب ہوئی ہیں، جب ہر طرف خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ یوں تو زندگی کا ویسے بھی کوئی بھروسا نہیں، لیکن اب ایسے لگتا ہے، جیسے موت ہر وقت ساتھ ہے۔ کب کس کی سانسیں دبوچ لے، کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہر کوئی منہگائی، بےروزگاری، ژالہ باری، طوفانی بارشوں، اورزلزلے جیسی آفات کے نرغے میں ہے۔
ہر ایک ہی کو کسی نہ کسی طرح کے مصائب کا سامنا ہے، تو پھر ایسے میں تو اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ انسان اپنے خالقِ کائنات سے جُڑے، اُس کے سامنے اپنی عاجزی و بے بسی کا اظہار کرے۔ خُوب توبہ استغفار کرے۔ اپنےخالق کو بتائے کہ وہ اپنے گناہوں پر کس قدر شرمندہ ہے۔ اُس سے بخشش طلب کرے، اُسےراضی کرنےکی کوشش کرے۔ اللہ ربّ العالمین سے اپنا تعلق مضبوط بنانےکا بھلا اس سے بہتر موقع اور کون سا ہوگا۔
سو، اِن رہ جانے والے چند دِنوں ہی کی قدر کرلیں۔ اِنھیں منصوبہ بندی کےساتھ گزاریں۔ یہ بڑے قیمتی دن ہیں، جو شاید دوبارہ کبھی نہیں ملیں گے کہ رمضان المبارک کے قیمتی ایّام کے زیاں کا کوئی مداوا ممکن ہی نہیں۔ہمارے اہل و عیال، جان پہچان کے لوگوں میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں، جو پچھلے سال ماہِ صیام میں ہمارے ساتھ موجود تھے، مگر یہ ماہِ عظیم نہیں پاسکے۔ اس رمضان المبارک کی سعادتیں پانے سے پہلے ہی اس فانی دنیا سے کُوچ کرگئے۔ انہوں نے شاید سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ اگلے برس اس ماہِ سعیدسے محروم رہ جائیں گے۔ تو خُود کو خوش نصیب جانیے کہ اللہ رب العالمین نے ایک بار پھر آپ کو ان قیمتی ایام سے نوازا ہے۔
اِس احسان پر اُس رب العالمین کا شکر ادا کریں اور اپنے اِس وقت کو زیادہ سے زیادہ عبادات میں گزاریں۔ اِن دِنوں میں بس وہی امور انجام دیں، جو ازحد ضروری ہیں۔ ایسے تمام کام، جو رمضان کے بعد بھی ہوسکتے ہیں، اُنہیں بعد کے لیے اُٹھا رکھیں۔ غیر ضروری، طویل گفتگو سے اجتناب برتیں۔ چھوٹی سی چھوٹی نیکی کوبھی معمولی نہ سمجھیں۔ کسی بھی قسم کی نیکی کا موقع ملے، اُسے ادا کرنے سے نہ چُوکیں۔
افطار کے لیے نت نئی ڈشز بنانے میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔ کچھ روز کےلیےکم وقت میں بننےوالے کھانوں ہی پر اکتفا کرلیں۔ کام کاج کے دوران اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھیں۔ اور جس حد تک ممکن ہو، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے اپنے آپ کو بالکل دُور رکھیں، کیوں کہ یہ وہ ظالم چور ہے، جو آپ کا انتہائی نایاب وقت چُرا لے جاتا ہےاور آپ کو احساس بھی نہیں ہونے دیتا۔ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع پیدا کریں۔
قرآنِ کریم کی تلاوت، اس پر غور و فکر کریں۔ اپنی زبان کو جھوٹ، غیبت، لہو لعب، لڑائی جھگڑوں سے پاک رکھیں، اور اپنے اخلاق کو بہتر بنائیں۔ روزے کی حالت میں دن کے وقت بہت زیادہ نہ سوئیں، اس سے بھی آپ دن کا زیادہ حصّہ نیند میں گنوا دیں گے اور عبادت کے لیے وقت نہیں ملے گا۔ پس، جب کبھی سُستی غالب آئے، قرآنِ کریم کی اس آیت کو دہرالیں، ’’اَیَّامًا مَعدُودٰت‘‘ گنتی کے چند روز ہی تو ہیں۔