رمضان المبارک کے روزوں کے اختتام پر،یعنی یکم شوال کو عید الفطر منائی جاتی ہے۔ یہ عالمِ اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے، جس کا دنیا بِھر کے مسلمان مسکراتے چہروں کے ساتھ، نہایت گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں۔ عید کا یہ تہوار اللہ ربّ العزّت کے ذکر، اُس کی بے پناہ عنایتوں کے شُکر اور تفریحات کے لیے خاص ہے۔ مسلمان عید الفطر کو صبح سویرے اٹھتے، نئے کپڑے زیب تن کرتے اور نمازِ عید کا اہتمام کرتے ہیں۔ نمازِ عید بڑی مساجد، کُھلے میدانوں یا عیدگاہوں میں اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہے۔ اِس موقعے پر مسلمان ایک دوسرے سے بغل گیر ہوکر باہمی رنجشیں اور دُوریاں دُور کرتے ہیں۔
نیز، عزیز واقارب اور دوستوں کے لیے پُر تکلف کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ علاقائی ثقافت اور اپنے اپنے ذوق کے مطابق تفریح کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تہوار ہمیشہ سے انسانی تہذیب و معاشرت کا حصّہ رہے ہیں۔عربوں کی تاریخ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل یوم السبع، یوم السباسبہ اور بعض دوسرے تہواروں کا ذکر ملتا ہے۔ دیگر اقوامِ عالم میں بھی عید کے تہوار مقرّر ہیں، جن کا تعلق زیادہ تر اُن کی تاریخ کے اہم واقعات سے ہے۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلّم نے بھی مسلمانوں کے لیے خوشی کے دو دن، عید الفطر اور عید الاضحیٰ مقرّر فرمائے اور دونوں دینِ اسلام کے دو عظیم مظاہر قرار پائے۔عید الفطر دراصل اُن لوگوخ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے، جو تقویٰ کے حصول کے لیے کوشاں رہے، اُس کی رضا اور معرفت حاصل کرنے کے لیے دن کو بھوک پیاس کی شدّت برداشت کرتے اور رات کو قیام کرتے رہے۔اللہ تعالیٰ کے آخری نبی، حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم نے مکّے سے مدینہ منوّرہ ہجرت کے بعد عید کے یہ دن مقرّر فرمائے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے’’نبی صلی اللہ علیہ وسلّم مدینہ تشریف لائے، تو وہاں لوگوں نے تفریح کے لیے دو دن مقرّر کر رکھے تھے، جن میں وہ کھیل کود سے دِل بہلاتے تھے۔
آپؐ نے پوچھا’’ یہ کیسے دن ہیں؟‘‘ لوگوں نے بتایا کہ’’ یہ جاہلیت میں ہمارے کھیل تماشے کے دن رہے ہیں۔‘‘اس پر حضورﷺ نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرّر کر دیے ہیں: عیدالفطر اور عید الاضحیٰ۔‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے’’ عید کے یہ دن کھانے پینے، باہم خوشی کا لُطف اُٹھانے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کے لیے ہیں۔‘‘سیّدنا عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ عید کا دن تھا، کچھ لونڈیاں بیٹھی وہ اشعار گا رہی تھیں جو جنگِ بعاث سے متعلق انصار نے کہے تھے، اِسی دَوران حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لائے اور بولے’’ نبیؐ کے گھر میں گانا بجانا؟‘‘
نبی کریمﷺ نے فرمایا’’ ابوبکرؓ رہنے دیں، ہر قوم کے لیے تہوار کا ایک دن ہے اور آج ہماری عید کا دن ہے۔‘‘ایک بار عید کے دن کچھ حبشی بازی گر کرتب دِکھا رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے یہ کرتب خود بھی دیکھے اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو بھی دِکھائے۔‘‘مسلمانوں کے ہاں عید کے یہ تہوار صدیوں سے اسلامی تعلیمات کے مطابق ہی منائے جاتے رہے ہیں، مگر کچھ عرصے سے اِن خالصتاً مذہبی تہواروں میں بھی اسلامی تعلیمات نظر انداز کی جا رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی بڑی وجہ ہماری غفلت ہی ہو سکتی ہے یا کسی حد تک دیگر تہذیبوں کا غلبہ۔
ہمارا خیال ہے کہ دیگر تہذیبوں پر الزام دینے کی بجائے ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور اِس موقعے پر اپنی تہذیب و ثقافت اور اسلامی روایات کے احیاء کی کوشش کرنی چاہیے۔ہماری وہ تہذیب، جس کی پرورش دینِ اسلام کی آغوش میں ہوئی، ہماری وہ ثقافت، جو اللہ کی بندگی اور دین کے معاشرتی تصوّرات کے زیرِ اثر وجود میں آئی، وہ تہذیب، جس کے بنیادی عناصر میں حفظِ فروج، حفظِ مراتب اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر شامل ہیں۔ہماری غفلت و لاپروائی سے ہمارا معاشرہ مغربی تہذیب کا اسیر ہو رہا ہے اور شخصی آزادی کی مصنوعی فکر میں پلنے والی اِس مغربی تہذیب کا غلبہ ہر سُو دیکھا جا سکتا ہے۔
اِس تہذیب نے ہماری معاشرتی زندگی اِس حد تک آلودہ کر دی ہے کہ ہمارا تہذیبی و ثقافتی سرمایہ آخری سانسیں لے رہا ہے۔ عید الفطر کے اس موقعے پر ہمیں اپنے اسلاف کی ہدایات و روایات کی روشنی میں اپنی تہذیب و اقدار کو زندہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ اگر خدانخواستہ اِس تہذیبی کش مکش ہم ہار گئے، تو پھر عقائد و نظریات کے میدان میں بھی ہماری جیت آسان نہیں رہے گی۔
عید کے اِس پُر مسرت موقعے پر رشتے داروں اور دوستوں کی خُوب آئو بھگت کی جاتی ہے۔اُن کی ضیافت کے لیے مختلف اقسام کے کھانے پکائے جاتے ہیں۔ اِسی طرح ملنے ملانے والوں کی طرف سے بھی دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔یہ دعوتیں، ضیافتیں مِل بیٹھنے کے بہانے ہیں، تعلق اور محبّت کے اظہار کا ذریعہ ہیں، رشتے استوار کرنے اور اُنہیں مزید مضبوط بنانے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہیں۔ مزید برآں یہ کہ ہمارے پیارے نبیؐ کا اسوۂ حسنہ بھی ہے۔میٹھے پکوانوں کی وجہ سے عید الفطر کو’’ میٹھی عید‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اِس موقعے پر لوگ میٹھے پکوانوں اور گوشت سے بنے مختلف کھانوں سے لُطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔
اِس دن مہمانوں کی پُرتکّلف دعوت، اُن کی خاطر مدارات ہماری ثقافت و روایات کا ایک اہم حصّہ ہے، مگر یہ دعوتیں اُس وقت مشکل میں ڈال دیتی ہیں، جب لوگ مَن پسند کھانے سامنے دیکھ کر اپنی صحت کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور سال بَھر میں کی جانے والی احتیاطوں اور پرہیز سے بے پروا ہو کر ہر قسم کے کھانے پر ہاتھ صاف کرجاتے ہیں۔ چوں کہ رمضان المبارک میں مسلسل ایک ماہ تک فجر سے مغرب تک کھانے پینے سے دُور رہنے کے باعث انسانی معدہ کھانے پینے کے معاملے میں ایک خاص معمول کا عادی ہو چُکا ہوتا ہے، ایسی صُورت میں ہمیں کچھ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ کی ان تمام نعمتوں سے لُطف اندوز ہونا ہمارا حق تو ہے، مگر روزوں کے بعد اچانک بہت زیادہ کھانا پینا، نظامِ انہظام کے لیے بعض اوقات نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔
عید کے دَوران نسبتاً زیادہ مرغن کھانے کھائے جاتے ہیں، جن میں چکنائی، مٹھاس اور کیلوریز کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ان کی بہت زیادہ مقدار ہمارے پیٹ کے لیے نقصان کا باعث ہوتی ہے، جس سے پیٹ خراب بھی ہو سکتا ہے۔ معدے میں تیزابیت، سینے میں جلن، بد ہضمی، پیٹ کا درد اور دست وغیرہ زیادہ تر مسالے دار اور تلے ہوئے کھانوں کے باعث ہوتے ہیں۔یہ عمومی مشاہدہ ہے کہ زیادہ مسالے دار، زیادہ نمکیات اور زیادہ مرچ والے کھانے معدے کی سوزش، السر اور ذہنی تنائو کا باعث بنتے ہیں۔ یہ خون کے دبائو، جگر کی کارکردگی، خون کے خلیوں اور ان کی گردش پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، جس کے باعث بعض ذہنی و جسمانی بیماریوں کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ایسے موقعے پر ذیابطیس کے مریضوں کو اور بھی زیادہ احتیاط کرنی چاہیے، کیوں کہ زیادہ میٹھی اور چکنائی سے بھرپور غذا کھانے سے خون میں شکر کی مقدار بڑھنے سے طبیعت کے بگڑنے کا اندیشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ دِل، بلڈ پریشر اور معدے کے امراض میں مبتلا مریضوں کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ عید کے دنوں میں ذیل میں دی گئی عمومی ہدایات ضرور پیشِ نظر رہنی چاہئیں۔
٭کھانے سے پہلے دو گلاس پانی پینا، بڑھتی ہوئی بھوک میں کمی لانے کا بہترین ذریعہ ہے۔رمضان المبارک میں مسلسل روزوں سے ہمارے جسم میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے، اِس کی مقدار کو جسم میں برقرار رکھنے کے لیے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پانی کا زیادہ استعمال ایک صحت مند جسم اور صحت مند زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ہمارے جسم کے لیے پانی کی کتنی مقدار ضروری ہے، اِس کا انحصار ہماری روزمرّہ کی سرگرمیوں پر ہے۔تاہم، ایک معمول کی زندگی کے لیے روزانہ 8سے10 گلاس پانی لازمی ہے۔ ٭غذا کو ہضم کرنے کا سلسلہ کھانے کو چبانے ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارے لعابِ دہن میں ایسے خامرے موجود ہوتے ہیں، جو خوراک کو نگلنے سے پہلے ہی ہضم کرنے کے قابل بنانا شروع کر دیتے ہیں۔
اِس لیے جو بھی کھانا کھائیں، خُوب چبا کر کھائیں۔ کسی طبیب کا قول ہے کہ’’ اللہ نے بتیس دانت دیئے ہیں، اگر معدہ تندرست رکھنا چاہتے ہیں، تو کھانا بتیس دانتوں سے چبا کر کھائیں۔‘‘٭عید کے روایتی پکوانوں بالخصوص کڑاہی گوشت، گوشت کے دیگر پکوان، بریانی، باربی کیو وغیرہ میں مسالوں اور تیل کی مقدار کم رکھنی چاہیے۔٭عید کے دنوں میں سبزیوں اور پھلوں کا استعمال بھی ضروری ہے۔ان میں موجود پانی اور فائبر پیاس بُجھانے کے ساتھ ساتھ پیٹ بَھرنے کا احساس بھی دِلاتے ہیں۔پَھلوں میں موجود مٹھاس، جسم میں میٹھے کی طلب کو کم کرتی ہے۔٭کھانے کا مقصد پیٹ بَھرنا نہیں ہے، پیٹ آدھا بَھر جائے، تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے۔
اِن عمومی ہدایات کے علاوہ طبّی ماہرین اِن امور کی طرف بھی توجّہ دِلاتے ہیں٭عید پر گوشت سے مختلف کھانے تیار کیے جاتے ہیں، جن میں تلا ہوا گوشت بھی شامل ہے۔ تلے ہوئے گوشت کا زیادہ استعمال ہماری صحت کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اِس کا بہت زیادہ اور متواتر استعمال کولیسٹرول، ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق، ایک آدمی کو ایک دن میں70 گرام سے زیادہ گوشت نہیں کھانا چاہیے۔ گوشت کے زیادہ استعمال سے مختلف پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں،جیسا کہ بد ہضمی، اسہال اور قے وغیرہ۔٭اِس موقعے پر کریم کیکس اورانرجی ڈرنکس کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے،جس سے شوگر کے مریض پیچیدگی کا شکار ہو سکتے ہیں۔٭جنک فوڈ کا استعمال بھی عام عادت بن چُکا ہے، عید پر جنک فوڈ کی بجائے گھر کے بنے ہوئے متوازن کھانے ہی کو ترجیح دینی چاہیے۔٭مرغن کھانوں کے ساتھ ہاضمے کے لیے سوڈا واٹر ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی بجائے لیموں پانی کا استعمال مرغن غذاؤں کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے اور سینے کی جلن سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔٭بعض افراد کھانے کے بعد غنودگی محسوس کرتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ کھانے کے فوراً بعد سو جانا بعض صُورتوں میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہارٹ اٹیک سے پہلے جو وارننگ سائن ملتے ہیں، سو جانے سے اُن کا پتا نہیں چل پاتا۔
علاوہ ازیں، کھاتے ہی سو جانے سے زیادہ مقدار میں کھایا ہوا کھانا بھی بروقت ہضم نہیں ہو پاتا، جس کے باعث بدہضمی اور معدے کی مختلف بیماریوں کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ بات جان لینا بھی ضروری ہے کہ کھانے میں بے اعتدالی کو اگر معمول نہ بنایا جائے، کھانے پینے میں توازن رکھا جائے، تو صحت مند زندگی گزاری جا سکتی ہے اور عُمر بَھر عید کے ایسے مواقع سے بھرپور لُطف اُٹھا سکتے ہیں۔ کھانے کا عام اصول یہ ہے کہ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانا چاہیے اور بے وقت کھانے سے بچنا چاہیے۔
اِس ضمن میں بھی ہمارے نبیﷺ نے ایک اصول ہمیں بتایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’انسان کو چاہیے کہ اپنے معدے کے تین حصّے کرے، ایک ٹھوس غذا کے لیے، ایک پانی کے لیے اور ایک حصّہ(ہوا کے لیے) خالی رہنے دے تاکہ سہولت سے سانس لے سکے۔‘‘ ایک اور موقعے پر ارشاد فرمایا’’ ہم وہ قوم ہیں، جو اُس وقت تک نہیں کھاتے، جب تک ہمیں بھوک نہ لگے اور جب کھاتے ہیں، تو پیٹ بَھر کر نہیں کھاتے۔‘‘
ہمیں اِن ہدایات کو عیدالفطر کے موقعے پر اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ خوشی کے اِس موقعے پر کھانے پینے میں اعتدال سے ہم نہ صرف مختلف اقسام کی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ عید کی خوشیوں اور رنگینیوں سے زیادہ اچھے طریقے سے لُطف اندوز بھی ہو سکتے ہیں۔