• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا غضب ہے کہ اپنے دستور (1973ء)کے 50سال مکمل ہونے پر اس کے سلور جوبلی ایئر میں اک بار پھر پاکستان عملاً سرزمین بے آئین کی اذیت ناک تصوریر بنا ہوا ہے ۔اس پر دنیا حیران، ہمارے دوست اور برادر ممالک مضطرب اور بیرون ملک ایک کروڑ سے زائد پاکستانی سخت پریشان ہیں۔ رائج دستورِ پاکستان کی اہمیت یہ ہے کہ یہ وطن عزیز کے ریاستی نظام کو چلانے اور مسلسل بنانے اور سنوارنے کی مقدس دستاویز اور بحیثیت قوم ہمارا متفقہ سماجی معاہدہ (سوشل کنٹریکٹ) ہے ،جس سے پاکستان کے دستخطی چاروں صوبوں کے منتخب نمائندے ہیں ،یہ ہمارے ملحقہ اٹوٹ انگ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آئینی و انتظامی چھتری بھی ہے۔

یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو متحد اور جوڑے رکھنے، اس کی یقینی بقا و استحکام کا مسلسل انتظام و انصرام ہے ۔یہ آئین ہمارے حکمرانوں منتظمین اور شہریوں کیلئے انکے فرائض اور حدود و حقوق کی رہنمائی کا ذریعہ و ضامن ہے ۔اسکی تاریخی اہمیت اور حساسیت اس اعتبار سے بھی بے پناہ ہے کہ یہ ہمارے پہلے 24سالہ سیاسی عدم استحکام، فوجی آمریت و انتظار اور پھر پہلے عام انتخابات (1970ء) کے نتائج آنے پر آئین سے محروم پاکستان کی منتخب اسمبلی کن بنیادوں پر آئین تشکیل دے گی؟کے سوال پر منتخب اکثریت اور منتخب اپوزیشن میں اسمبلی سے باہر نفاق ،عیاش ڈکٹیٹر جرنل یحییٰ خاں کی تباہ کن جانبداری وغیر ذمے داری، ملٹری آپریشن ،خانہ جنگی، کھلی بھارتی مداخلت اور مشرقی پاکستان پر جارحیت سے ملک دو لخت ہونے کا پڑھا اور سمجھا سبق بھی ہے ۔یہ باقیماندہ پاکستان کی حکومت و اپوزیشن کے اتحاد سے آئینی پاکستان کا آغاز بھی بنا ۔یہ اس اعتبار سے مستحکم ثابت ہوا کہ اطلاق (1973)کے بعد سے تادم دو طویل مارشل لائوں کے نفاد کے باوجود اتنا سخت جاں نکلا کہ الحمدللہ آج بھی قائم ہے اور پاکستان کے اتحاد اور استحکام و بقاکا سب سے بڑا اور مکمل مستفید اور مکمل قبول ذریعہ ہے ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور اس کے بنگلہ دیش بننےکے بعد ہمارا ایسا سبق مکمل اور تلخ ترین حقائق تازہ ہونے کے باوجود اطلا ق آئین آغاز پر ہی ادھورا ہی عمل میں آیا، نافد ہوتے ہی خلاف ورزیوں اور خود آئین بنانے والی پہلی حکومت ہی کی مکمل روگردانی کاشکار ہو گیا ۔نتیجہ، پہلا ہی ’’آئینی دور‘‘ ملکی تاریخ کی بدترین سول آمریت قائم ہوئی ،جس کے منعقدہ باقیماندہ ملک (جسے حکومت نے پاکستان کا نام دیا تھا ) کے پہلے انتخاب ملک گیر دھاندلیوں سے پُر اور اس کے اعلیٰ جیٹ بیک گرائونڈ میں انتخابی مہم فسطائی سیاسی حکومتی حربوں ہتھکنڈوں سے اٹی تھی ،جس کیخلاف متحدہ اپوزیشن کی پرزور عوامی تحریک چلی جس میں زیادہ دھاندلی زدہ حلقوں کی نشاندہی کرکے 28قومی اسمبلی حلقوںکی تحریک چلی تو ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کو بغیر ری الیکشن کے پیش کر دی گئیں ’’مزید اور ‘‘ کے بھی اشارے مل رہےتھے لیکن بھٹو حکومت ری الیکشن پر تیار نہ ہوئی چار دن کے وقفے کے بعد جو صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب ہوئے اس میں قومی اتحاد کے بائیکاٹ اور پی پی حکومت کی اخلاقی بنیاد منہدم ہونے سے ملک بھر کے پولنگ اسٹیشنز ویران ہونے کے باوجود چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پی پی بھاری اکثریت سے جیتی ۔خوف میں مبتلا بھٹو حکومت کے خلاف جتنی زور دار تحریک چلی اتنی ہی زور دار حکومتی فسطائی مزاحمت کی گئی نتیجتاً جب بھٹو حکومت مذاکرات پر آمادہ ہوئی تو قومی اتحاد کی نصف لیڈر شپ اندرون خانہ اس کے سخت خلاف تھی، اصغر خاں نے تو ضیا الحق کو خط تک لکھ دیا تھا کہ مارشل لا لگائو اور انتخاب کرائو ،مارشل لا لگا لیکن انتخابات گیارہ سال تک بمطابق آئین نہ ہوئے جو سول سپورٹ لینے کیلئے ہوئے وہ غیر جماعتی اور نتائج جیب میں تھے یہ سب کچھ آ ج کےسیاست دانوںکے لئے سبق ہے۔

1988ء میں سانحہ اگست میں ضیاحکومت ختم ہو کر جو جمہوریت بحال ہوئی اس سے بھی آئین بحال ہو کر مکمل اطلاق نہ ہوا ضیا دور میں آئین ختم نہ ہوا تھا لیکن اس کا حلیہ بگڑ گیا تھا ’’مرد اول ‘‘ آصف زرداری کا شہرہ دنیا میں ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کے طور ہوا تو صدر (اسحاق خان) کو حاصل اسمبلی توڑنے کا وہ اختیار جو ضیا الحق نے آئین میں ترمیم کرکے شامل کیا تھا استعمال کرکے کرپشن زدہ حکومت کے جواز سے اسمبلی ٹوٹی ۔نواز شریف کا پہلا دور آیا تو ان کی آرمی چیف سے بنی نہ عدلیہ سے، سپریم کورٹ پر حملہ ہوا نوٹ ایبل ہے کہ آئین 1973کے نفاد پر بھٹو حکومت نے نہ بے نظیر و نواز شریف حکومتوں نے گلی محلے کی انتہائی اہم جمہوری سیاسی اور روز مرہ کی ضرورت منتخب بلدیاتی اداروں کا قیام مکمل معطل رکھا جو آئین پاکستان میں براہ راست عوام کے مفاد کا سب سے اہم اہتمام ہےاور نچلی سطح پر عوامی فلاح کا بجٹ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کو جانے لگا جو صریحاً غیر آئینی ہے اورتھا۔مشرف کا مارشل تب لگا جب عوام بے نظیر اور نواز حکومتوں کو آزما کر اتنے غیر مطمئن تھے کہ مشرف آئین توڑتے براجمان ہوئے، ایوبی ضیائی دور کی طرح گناہ گار آنکھوں نے مٹھائیاں بٹتیں اور دیگیں چڑھتی دیکھیں اور یہ ملک بھر میں ہوا ۔

2008ء سے جو آئینی حکومتیں بحال ہوئیں تو آئین کا حلیہ درست کرنے کے باوجود آئینی خلاف ورزیاں بھی مسلسل جاری رہیں اور وزرا اعظم کو بذریعہ عدلیہ عہدہ گنوانا پڑا اب عدلیہ سول رول کے دولت راج بن گئے دور میں تقسیم کر دی گئی ،یہ عالم ہے کہ اسمبلی نصف ہے اپوزیشن لیڈر پر قاتلانہ حملے کے بعد 45مقدمات درج کر دئیے گئے۔ٹاپ اپوزیشن لیڈروں کے گھروں پر پولیس دھاوے سے پولیس گردی مچائی جا رہی ہے اہل خانہ تک محفوظ نہیں ملک کے سب سے بڑے شہر میں ہوئی مردم شماری پر شہر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے عدلیہ سیاسی پارٹی بازی پر تقسیم کی جا رہی ہے سیاسی ابلاغی آلودگی انتہا پر، چیف جسٹس کو آئین کے مطابق فیصلوں میں بذریعہ ادھوری اسمبلی رکاوٹ ڈال رہی ہے دھمکیاں دی جا رہی ہیں قومی معیشت آئی سی یو میں سیاست و جمہوریت رسوا اتنی کہ دنیا میں چرچا جاری اتنے بڑے معاشی بحران میں بھی 84ارب روپے سے آٹے کی جان لیوا تقسیم میں حکمران پارٹی کے ہی شریف النفس لیڈر نے 20ارب کی چوری کا الزام لگایا خود دولت راج پارٹیوں کے ماہرینِ آئین چیخ پڑے کہ حکومت نے آئین توڑ دیا گویا پاکستان ایک بار پھر سرزمین بے آئین اور دل ہلا دینے والے نتائج روزانہ کی بنیاد پر نکل رہے ہیں ۔اللہ خیر

تازہ ترین