وہ حکومت جسے پی ڈی ایم کی حکومت کہا جاتا ہے، بقول پیپلزپارٹی اس حکومت میں ہماری شناخت پیپلز پارٹی ہی ہے، بیشتر کا خیال ہے یہ شریف برادران کی حکومت ہے جس میں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی سہولت کار ہیں۔ بہرحال، جس کی بھی ہےاس حکومت نے حلف لیتے وقت استروں کی مالا گلے میں ڈالی۔
اپریل 2022 میں جب خان حکومت کو تحریکِ عدم اعتماد کے سبب چلتا کیا گیا، تو چند دن تحریک انصاف کے ہاں مرثیہ گوئی رہی اور شریفوں کے ہاں شادیانے بجے۔ چند ہی دن بعد گنگا نے الٹا بہنا شروع کردیا۔ کیا حکومت اور کیا اپوزیشن دونوں کے ہاں صف ماتم بچھ گئی تاہم’’تیسری قوت‘‘کے ہاتھ شادمانی لگ گئی۔ مجموعی طور سے تینوں مذکورہ بالا آئین آئین کا ورد کرنے لگے مگر معزز عدلیہ کی عادلانہ قوت نے لطف اٹھایا۔ ایک اور قوت جس کو لوگ خان کے آنے کا سبب گردانتے تھے وہ بھی کسوٹی پر آگئی تو ایک الگ ہی لمحہ فکریہ نے جنم لیا۔
کہا یہ جاتا ہے وزراء اور صدور ہوں یا مختلف چیفس انکے پاس ریاست کے اتنے راز ہوتے ہیں کہ جنہیں ناقابلِ بیان جان کر قبر میں ساتھ ہی اتارا جاتا ہے لیکن رفتہ رفتہ ہم اس قحط الرجال کی شاہراہ کے مسافر ہوتے چلے گئے جس کی منزل بھی رسوائی اور مسافت بھی رسوائی! اب اسے بدقسمتی کہئے یا سابق آرمی چیف اور سابق وزیراعظم کے ایک دوسرے کے خلاف بالواسطہ یا بلاواسطہ الزامات، اس بے احتیاطی و غیر ذمہ دارانہ رویے سے عالمی سطح پر جگ ہنسائی کے در وا ہوئے۔ کیا یہ کشمیر جیسے حساس معاملات میں سابق وزیراعظم یا سابق آرمی چیف پر ان دونوں کی جانب سے الزامات دھرنا قابلِ فراموش ہے؟ پاکستان کے قوت بخش اداروں اور سیاسی قیادت کو معیشت کے سنگ روایتی و اخلاقی معیار کو بھی قومی و عالمی سطح پر فروغ دینا ہوگا ،تب کہیں قومی وقار کی بیل منڈھے چڑھے گی۔
لوگ اس بات کو سیاست کی دلچسپ بات کہتے ہیں کہ خان نے امریکہ سے سعودیہ ، حسین حقانی سے محسن نقوی، آصف زرداری سے نواز شریف اور مخصوص میڈیا سے سابق آرمی چیف تک پہ الزام لگایا کہ میری حکومت انہوں نے ختم کی لیکن عدم اعتماد کی کامیاب تحریک کے بعد پھر یہ بھی کہہ دیا کہ میں نے سابق آرمی چیف کے کہنے پر پنجاب اور کے پی کی حکومتیں توڑیں۔ آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں، ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔ لیکن فقیر اسے دلچسپ بات نہیں آدھا سچ کہتا ہے جو کہیں اصل سچ کی آستین میں گُھس کر زہر پھیلاتا یا معاشرتی اقدار میں دھوکے کا تن آور درخت بن جاتا ہے۔
جہاں سیاستدان احسان فراموشی کے سازشی میزائل داغنے شروع کرتا ہے وہاں سے نیوٹن کا تیسرا قانون جڑ پکڑنا شروع کردیتا ہے، واضح رہے، یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ مقتدرہ دو عشروں سےخان کی سیاسی نگہداشت میں مصروف رہی، بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بعد عمران خان کو باقاعدہ لانچ کردیا گیا، 2014 کے دھرنے میں عمران خان کو ہاٹ فیورٹ بنانے کے بندوبست کو حتمی شکل دی گئی ، جنوبی پنجاب متحدہ محاذ کی تشکیل، ترین کے جہازوں کو پھل لگنا، قاسم سوری کے اسٹے آرڈر سے زبیدہ جلال کی بلوچستان سے کاشت تک، آر ٹی ایس کا بیٹھنا یہ سب کیا تھا؟ گویا پرانی حکومتوں کے 80 فی صد سرخیل کو دامن گیر کرنا، نوجوانوں اور لوئر مڈل کلاس کو اقتدار میں لانے کا عمرانی جھانسا کہاں کی انقلابی ترتیب تھی ؟
غیرجانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان اور صدر علوی نے جتنابڑا غیر جمہوری اور غیر آئینی قدم اس وقت اسمبلی توڑنے کا اٹھایا جب تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تھی اور اسپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کارروائی سے بچنے کیلئے حیل و حجت کا سہارا لیتے رہے، یہ نوے دن میں الیکشن نہ ہونے سے کہیں بڑی آئین شکنی ہے۔ غیر جانبدار ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کےپی اور پنجاب اسمبلی توڑنے کا "آئینی اقدام" جمہوری و آئینی روایات کو سبوتاژ کرنا تھا کہ ایک طرف دو بارہ الیکشن ہو کر معاشی نقصان اور دوسرا سطحی مقبولیت پنجاب اور کے پی میں مرضی کے نتائج لے کر مرکز ہاتھ میں لیا جاسکے۔ جبکہ پی ڈی ایم حکومت نے حکومت سنبھالنے کا چیلنج لیا، آئی ایم ایف کا سامنا کیا، جو وعدہ خلافی عمران حکومت نے آئی ایم ایف سے کی ان کے نتائج کا بھی تدبر سے مقابلہ کیا ، حتیٰ کہ مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی نے اپنی ساکھ کو تلوار کی تیز دھار پر رکھ کر سسٹم بچانے کی اعصاب شکن کوشش کی، ورنہ خان اینڈ کمپنی تو صدارتی نظام کی چاہت میں بھی آئین شکنی پر تُلی ہوئے تھی! ایسے میں پیپلز پارٹی کا بلاول بھٹو کی وزارتِ خارجہ پر آمادہ ہو جانا اور ان کٹھن حالات میں پیپلزپارٹی اور بلاول بھٹو سیاست کو داؤ پر لگانا بہت بڑا رسک تھا۔نوجوان بلاول بھٹو کی لمبی اننگ کو اس چھوٹے دورانیہ کی حکومت کی بھینٹ چڑھانا ایک غیر معمولی فیصلہ تھا۔ ہاں یہ صورتحال ضرور دلچسپ ہے عمران اور ہم نوا سارا دن کہتے ہیں پی ڈی ایم کے لوگ انتخابات سے ڈرتے ہیں۔ چلیں مان لیا وہ ڈرتے بھی ہیں تو ان کی حکومت کی دسترس دیکھیں کہ وہ آپ سے حکومت چھننے کے بعد رواں دواں ہیں اور آپ نے انہیں نیچا دکھانےکے چکر میں اپنی دو صوبائی حکومتیں سولی چڑھا دیں۔ اس ایک سال میں بلاول بھٹو امریکہ سے روس اور ایران سے بھارت کے شنگھائی تعاون تنظیم تک کے کامیاب ترین دوروں میں پورے عالم کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب رہا۔
بہرکیف اب چائنہ سے تعلقات میں پھر سے بہتری آگئی، گرے لسٹ سے الگ نکلے۔ یہ کامیابیاں بھلے ہی خان اور ہم نواؤں کی چھاتی پر مونگ دلتی ہوں مگر قوم کیلئے تو یقیناً سود مند رہیں۔ ممکن ہے شرفاء آغاز میں حکومت چھوڑ بھی دیتے مگر زرداری صاحب نہ مانے، انہوں نے سوچا مقبولیتیں بعد میں دیکھی جائیں گی، بالآخر عمرانی سیاسی نہلے پر زرداری دہلے نے خان کو سرِ دست تو نہتا کردیا!