• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آندھیوں کے دشت میں دارالاماں ہے میری ماں ... تازہ پھولوں کا مہکتا گلستاں ہے میری ماں

تحریر: نرجس ملک

عکّاسی و اہتمام: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

رحمان فارس کی ’’مائوں کے عالمی یوم‘‘ کی مناسبت سے ایک بہت ہی خُوب صُورت نظم ہے۔ ؎ ’’یہ چلتی پِھرتی دُعائوں کا عالمی دن ہے… دُعائیں لیجے کہ مائوں کا عالمی دن ہے… جو روز صبح مصلّے سے ہو کے آتی ہیں… اُنہی خموش صدائوں کا عالمی دن ہے… تمام رنگ ہیں، جن سے ہماری ہستی ہے… اُنہی سفید ردائوں کا عالمی دن ہے… بھڑکتے وقت کے شعلوں میں ریشمی ٹھنڈک… کڑکتی دھوپ میں چھائوں کا عالمی دن ہے… تمام عُمر چمکتا ہے مامتا کا چراغ… کہاں بس آج ہی مائوں کا عالمی دن ہے۔‘‘ 

بے شک، ممتا کا چراغ کسی ایک خاص دن، یوم کا محتاج نہیں، اِس کی لَو مدھم ہو یا تیز، مگر عُمر بَھر (بلکہ مائیں تو دنیا سے جا کے بھی نہیں جاتیں کہ اُن کی یادیں اور اولاد کے لیے پَل پَل مانگی گئی اُن کی اَن گنت دُعائیں، اُن کے بعد بھی گھنیرا سایا کیے رہتی ہیں) جلتی رہتی ہے، کبھی یہ لَو اولاد کے کسی دُکھ، درد، فکر، پریشانی کی آگ میں جلتی ہے، تو کبھی سیاہی، تاریکی و تِیرگی میں اُجیارے، روشنی کی خاطر۔ اور، سو باتوں کی ایک بات کہ ’’ماں، ماں ہی ہوتی ہے۔‘‘ چرند، پرند، حیوان کی ہو یا انسان کی اور انسانوں میں بھی شاہ کی ہو یا گدا کی، غلام کی ہو یا آقا کی، ماں، بس ماں ہوتی ہے۔ اس عالمی یوم کے توسّط ہی سے اب تک نہ جانے کتنی اور کس کس قبیل کی ماں سے بات چیت نہیں کی، لیکن جو سیکھا، جانا، مانا، وہ یہی ہے کہ جس نے ایک بار ماں نام کا چوغہ، جبّہ پہن لیا، اوڑھنی اوڑھ لی، پھر وہ مرتے دَم تک بس سراپا ’’ممتا‘‘ ہی ہے۔

دردانہ رحمٰن کہنے کو تو شوبز اور شوبز کی بھی بڑی اسکرین (سلور اسکرین/ فلم اسکرین) پر ایک طویل عرصے تک راج کرنے والی اداکارہ ہیں، جس کی چکاچوند بڑے بڑوں کی آنکھیں خیرہ کردیتی ہے، خصوصاً پاکستان فلم انڈسٹری کی80,70ء کی دہائی کا وہ دَور کہ جب ہر طرف فلم اسٹارز کا طوطی بولتا تھا اور کچھ دوچار نہیں، اِن ستاروں کا پورا ایک جھرمٹ، کہکشاں موجود تھی، اور اِسی کہکشاں کے ایک ستارے، دردانہ رحمٰن نے فلم ’’عشق نچاوے گلی گلی‘‘ سے راتوں رات مُلک گیر شہرت حاصل کی، تو پھر اُن پر قسمت کی دیوی کچھ یوں مہربان ہوئی کہ اُس کے بعد اُنہیں کبھی پیچھے مُڑ کےدیکھنا نہیں پڑا۔ 

لگ بھگ پاکستان کی ہر زبان میں بننے والی فلم میں کام کیا۔ گرچہ اپنے کیریئر کے عروج ہی پر اپنی کام یاب ترین فلم کے ہدایت کار، اسلم ڈار سے شادی بھی کرلی، مگر انڈسٹری سے وابستہ رہیں اور کوئی ساڑھے تین، چار سو فلموں میں کام کیا۔ بقول دردانہ رحمٰن، اُن کی زندگی کو اگر تین لفظوں میں سمیٹا جائے تو وہ ہیں، ’’جدوجہد، اخلاق اور صبر و برداشت‘‘ نیز، اُن کے وسیع حلقۂ احباب، واقفان حال کا بھی یہی ماننا ہے کہ دردانہ رحمٰن کی زندگی درحقیقت اِن ہی تین الفاظ کا مجموعہ ہے۔

دردانہ رحمٰن کی پیدائش لالو کھیت، کراچی کی ہے، لیکن صرف دو ماہ کی تھیں کہ والدین لاہور چلے گئے۔ 6 بہنوں، ایک بھائی پر مشتمل بڑے کنبے کی کفالت کی غرض سے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ اسلم ڈار نے شوبز میں متعارف کروایا اور اصل نام نسیم دردانہ تبدیل کرکے دردانہ رحمٰن کردیا اور بقول دردانہ، ’’میرے نام کے ساتھ رحمٰن کی اضافت کے ساتھ ہی مجھ پر اللہ کی ایسی رحمت ہوئی کہ آج تک مَیں اُس کے مہرو کرم سے مالا مال ہوں۔ سب سے بڑھ کر مجھے رب نے جو حُسنِ اخلاق اور صبرو برداشت کی دولت سے سرفراز کیا، اس کا تو کوئی ثانی ہی نہیں۔ 

پوری انڈسٹری گواہ ہے کہ مَیں اپنے عروج کے دَور میں بھی انتہائی Down to earth، عاجز، منکسر المزاج تھی اور آج تک میرے اخلاق کا یہ عالم ہے کہ مَیں اپنے ساتھ سخت زیادتی کرنے والے کے ساتھ بھی بدتہذیبی کا مظاہرہ نہیں کرسکتی۔ آپ اِس سے اندازہ لگالیں کہ جو میری ہنستی بستی دُنیا اُجاڑ گئے۔ (دردانہ رحمٰن کے دو بچّے تھے، ایک بیٹی اور ایک بیٹا۔ بیٹی ماہم رحمٰن کے ساتھ یہ شُوٹ ارینج کیا گیا ہے، جب کہ بیٹا، سلمان رحمٰن، جس میں دردانہ رحمٰن کی گویا جان تھی، اکتوبر2022ء میں ڈکیتی کی ایک واردات میں گولی لگنے سے زخمی ہوا اور بعدازاں4 دسمبر کو خالقِ حقیقی سے جا ملا) اُن کے لیے بھی مَیں نے کبھی بددُعا نہیں کی۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔ مجھ ممتا کی ماری کو تو زندہ درگور کرگئے ہیں، مگر خدا نہ کرے، کبھی اُن کے ہاتھوں کسی اور ماں کی گود اُجڑے۔‘‘

ہم نے دردانہ رحمٰن سے پہلا سوال ہی اُن کے بیٹے سلمان سے متعلق کیا، تو بہت ضبط و تحمّل، خُود کو آرائش و زیبائش کی کئی تہوں میں ملفوف کر کے پیش کرنے کے باوجود ایک ماں کا چہرہ شدّتِ جذبات سے دہکنے لگا۔

آنکھیں گویا ساون بھادوں ہوگئیں۔ ’’وہ صرف میرا بیٹا نہیں تھا، وہ میری جِند جان تھا۔ مَیں تو ایک بےجان بُت ہوں، میری رُوح تو اس طوطے میں بند تھی، جو سارا دن میرے اردگرد ہی گھومتا رہتا تھا۔ مَیں اُسے ’’سلمان جی‘‘ کہتی تھی اور وہ چوبیس گھنٹے ’’ماما، مما، مام‘‘ ہی کی آوازیں لگاتا رہتا۔ مَیں نے دو سال پہلے اپنی بھانجی (اداکارہ شین کی بہن فاطمہ) سے اُس کی شادی کردی تھی، مگر وہ شادی کے بعد بھی ’’ماماز بوائے‘‘ تھا۔ میرا پلّو چھوڑتا ہی نہیں تھا۔ ماہم باہر پڑھنے چلی گئی، تو پھر تو یہ دونوں میرے گرد ہی گھیرا ڈالے رکھتے۔ 

خُود بھی میرے ایک ایک منٹ کی خبر رکھتا، فاطمہ کو بھی دوڑاتا رہتا۔ میری بہو فاطمہ بڑی معصوم، خاموش طبع سے بچّی ہے۔ شوہر چلا گیا، مگر یہ کسی صُورت مجھے چھوڑ کر جانے پر آمادہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ بڑا مسبّب الاسباب ہے۔ اُس نے جب بھی مجھے کسی آزمائش کے لیے چُنا، صبر و حوصلے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ، وسیلہ بھی خُود ہی بنایا۔ وگرنہ سلمان کے بعد میرے زندہ رہنے کا کوئی خاص مقصد رہ نہیں گیا تھا۔ ماہم، الحمدُللہ اپنی تعلیم مکمل کرچُکی ہے اور وہ بہت ٹیلنٹڈ، جینئس ہے۔ اُس کے معاملے میں سوائے اس بات کے کہ اللہ بس اُس کا کوئی بہترین جوڑ مِلا دے، میری کوئی فکر، پریشانی نہیں ہے۔ وہ اپنا میوزک، یوٹیوب چینل کر رہی ہے۔ 

وصی شاہ کے ساتھ ایک ٹی وی شو کی میزبانی کر رہی تھی کہ بھائی کے ساتھ یہ سانحہ پیش آگیا۔ بہرحال، اب جب تک زندگی ہے، جینا تو ہے۔ ہم نے اِس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر ہی کہ ’’سلمان اب ہمارے ساتھ نہیں‘‘ زندہ رہنے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے۔ پہلے ہم چار تھے، اب تین ہیں، مگر گھر میں میرے بیٹے کی جو جگہ تھی، وہ بس اُسی کی ہےاور اُسی کی رہے گی کہ وہ صرف ایک آئیڈیل بیٹا ہی نہیں تھا، ایک بہترین بھائی، مثالی شوہر بھی تھا اور انسان تو اتنا اچھا تھا کہ اب تک رشتے دار، دوست احباب، محلے والے اُسے یاد کر، کر کے آہیں بھرتے ہیں۔ میرا بیٹا مجھ سے ایسے لاڈ کرتا تھا، جیسے کوئی شیرخوار بچّہ ہو۔ کبھی ایک منٹ کے لیے مجھے اداس، رنجیدہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ بائیک نکالتا اور کہتا، ’’چلیں ماما! کہیں گھوم پِھر کے، کچھ کھا پی کے آتے ہیں۔‘‘ 

وہ میری گاڑی چلاتا، میری تصویریں، ویڈیوز بناتا، میرے ہر شو پر میرے ساتھ جاتا۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی ہم نے اُسے گہری نیند سے بھی بے دار کیا اور اُس نے ہلکی سی ناگواری کا بھی اظہار کیا ہو۔ ہر وقت ہنستا بولتا، شور شرابا کیے رکھتا۔ ماہم، عُمر میں اُس سے بڑی ہے، مگر وہ بڑے بھائی، باپ کی طرح اُس کا خیال رکھتا۔ اپنی بیوی سے بھی بہت پیار کرتا تھا۔ سچ کہوں تو میرا چھوٹا سا گھر جنّت کا نمونہ تھا۔ مَیں زندگی بھر بڑی سخت جدوجہد کر کے، بڑے مصائب، سخت تکلیفیں اُٹھانے کے بعد اب آکر ایک آسودہ، بہت مطمئن زندگی گزارنے کے قابل ہوئی تھی، لیکن خیر… جو میرے اللہ کی مرضی، جو میرے مالک کو منظور، کوئی گلہ، شکوہ نہیں، مَیں راضی بہ رضا ہوں۔ دردانہ رحمٰن کا صبر و حوصلہ واقعی دیدنی تھا۔

ہم نے اُن سے اگلا سوال، ماہم سے متعلق کیا کہ ’’ماں، بیٹی کی بانڈنگ کیسی ہے، سلمان سے پہلے کیسی تھی اور اب اُس کے بعد کیسی ہے؟‘‘ تو دردانہ رحمٰن نے ہونٹوں پر ایک بہت میٹھی سی مُسکان سجاتے ہوئے کہا۔ ’’میرے رب کا بڑا احسان ہے، اُس نے مجھے رحمت سے بھی نوازا اور نعمت سے بھی۔ مَیں نے اللہ کی نعمت سے بھی بڑا سُکھ پایا۔ میرے بیٹے نے چھوٹی سی عُمر میں مجھے لمبی حیاتی کا سُکھ دیا۔ اُس نے مجھے ایسے سنبھالے رکھا کہ جیون ساتھی تک کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ 

وہ مجھے عُمرہ کروانے لے کے گیا اور بخدا قدم قدم پر میرا کسی چھوٹے بچّے کی طرح خیال رکھا۔ مَیں نے پورے سفرِ عُمرہ میں ایک ایک سانس کےساتھ اُسے بےشمار دُعائیں دیں۔ میرا بیٹا تو جنّتی ہے کہ وہ چلتی پِھرتی سُکھ چھائوں تھا۔ نہ جانے دنیا میں کتنی ایسی عورتیں ہیں، جو اِس احساس ہی سے یک سر محروم ہیں، تو پھر مَیں اپنے رب کی کیسے ناشکری کروں کہ اُس نے مجھے25، 26 برس ایک نعمت سے خُوب سیر ہونے کے لائق تو سمجھا۔ 

اِسی طرح ماہم، میری بیٹی ہی نہیں، میری ماں، بہن، سہیلی، ہم دَم و ہم راز، مونس و غم خوار ہے۔ وہ ہمیشہ ہی سے بہت سُلجھی ہوئی، سمجھ دار بیٹی ہے، مگر بھائی کے چلے جانے کے بعد تو خاص طور پر بہت سوبر، سنجیدہ، ذمّے دار ہوگئی ہے۔ پہلے میرے اور فاطمہ کے حوالے سے اتنی Protective نہیں ہوتی تھی، اب تو ہمیں بالکل اکیلا نہیں چھوڑتی۔اگرچہ مَیں کوشش کرتی ہوں کہ اُس کے سامنے خودکو کمپوز، مضبوط رکھوں، مگرظاہر ہے، بیٹی ہے، ماں کی رَگ رَگ سے آشنا، سمجھ جاتی ہے کہ ماں، بھائی کی کہاں کہاں، کیسے کیسے کمی محسوس کررہی ہے، تو پھر وہ بیٹی کے ساتھ، بیٹا بھی بننے کی کوشش کرتی ہے، مگر میری تو بس اب ایک ہی تمنّا ہے کہ جلد از جلد اِسے اپنے گھربار کا کردوں اور دُعا یہ ہے کہ اللہ قدردانوں سے دل ملائے۔ 

مَیں نے اپنے دونوں بچّے بڑی ہی محنت و مشقّت، رات دن کی ریاضت سے پالے، ویسے تو سب ہی والدین، اولاد کے لیے بڑے جوکھم اُٹھاتے ہیں، پر مَیں تو گیارہ برس کی عُمر سے جو گھر سے نکلی، تو آج تک کولھو کے بیل سی جُٹی ہوں۔ پہلے والدین، بہن، بھائیوں کو سنبھالا، اُن کے مستقبل کے لیےاپنےحال سے بےحال رہی، پھر اولاد کی پرورش، اچھی تعلیم و تربیت کے لیے دن رات ایک کیا، اپنا آپ تج دیا۔ تو بس، اب اپنے سوہنے رب کے سامنے بیٹی کی خوشیوں ہی کے لیے جھولی پھیلا رکھی ہے۔ مَیں تو اللہ سے کہتی ہوں، اگر آپ کو میری کوئی ایک صفت بھی پسند ہے، تو اُس کا اجر مجھے میری بیٹی کے اچھے نصیب کی صُورت عطاکردے۔ میری تو پوری زندگی کانٹوں کی رہ گزر سی تھی، مگر میری ماہم سداپھولوں کی سیج پہ رہے۔‘‘

’’مائوں کے عالمی یوم‘‘ کی نسبت سے ہم نے ماہم سے بھی اُن کے خیالات جاننا چاہے، تو بہت شیریں لہجے، مترنّم سی آواز میں یوں گویا ہوئیں۔ ’’میری ماما دنیا کی بیسٹ ماما ہیں۔ مَیں برطانیہ تک ہو آئی ہوں،(ماہم نے حال ہی میں برطانیہ سے انٹرنیشنل بزنس میں گریجویشن کیا ہے) مگر بخدا مَیں نے اپنی ماں جیسی مضبوط، بہادر، جفاکش، حوصلہ مند اور خُوش اخلاق و خُوش مزاج عورت نہیں دیکھی۔ صحیح معنوں میں میری ماں ’’اللہ والی‘‘ ہے۔ بڑی سے بڑی مصیبت، آزمائش میں صابر و شاکر، مہذّب، مہمان نواز، سلیقہ مند اور اپنے کام کی دَھنی، نہ کبھی تھکتی ہیں، نہ ہار مانتی ہیں۔ ہم نے تو اپنی ماں کو ہمیشہ کام کرتے ہی دیکھا ہے۔ بہت کُھل کے، بڑے دل سے اگر ہنستی تھیں، تو سلمان کے ساتھ۔ وہ کسی نے کہا ہے کہ ناں کہ ؎ ماں کو بیٹے اچھے لگتے ہیں۔

تو یہ سو فی صد سچ ہے اور میرا خیال ہے، اِس معاملے میں مائیں بے اختیار ہوتی ہیں۔ بیٹیوں سے مائوں کا دُکھ سُکھ کا، ایک سہیلی کا سا رشتہ ضرور ہوتا ہے، لیکن ایک بیٹے کی ماں ہونے کا احساس ہی بڑا توانگر ہے۔ شاید عورت جب ایک بیٹے کی ماں بنتی ہے، تو اُسے زندگی میں پہلی بار ایک مرد کی مکمل ملکیت کا احساس ہوتا ہے۔ اُسے لگتا ہے، اُس کا بیٹا دنیا کا وہ واحد مرد ہے، جو پورے کا پورا اُس کا ہے۔ وہ اُس کو اپنے وجود، آغوش میں سمیٹ کے، زمین پر اپنے قدم بڑی سختی سے جَمے محسوس کرتی ہے۔ 

یک دَم ہی بہت امیر و کبیر، مضبوط و توانا ہوجاتی ہے اور مَیں، اپنی ماں کے اِن احساسات کو سمجھتی ہی نہیں، اِن کا احترام بھی کرتی تھی، کیوں کہ مَیں جانتی تھی کہ اُنہوں نےخُود پوری زندگی ایک مرد کی طرح گزاری، تو جیسے جیسے سلمان ہوش سنبھالتا، ماں کا بازو، سہارا بنتا گیا، مَیں ماں کی سرخُوشی و سرمَستی، بےخُودی و بےاختیاری دیکھتی اور دل ہی دل میں اُن کے معصومانہ رویے سے بہت لُطف اندوز بھی ہوتی کہ ماما، بھائی کے سامنے کیسے بچّہ بن جاتی ہیں۔

شاید وہ اپنی عُمر بھر کی ساری محرومیاں، ناآسودگیاں، اِک اُسی کے وجود سے مکمل کر رہی تھیں، لیکن پتا نہیں، اوپر والے کو شاید اُن کی مزید آزمائش مقصود ہے۔ (ماہم نے ایک لمبی، سرد آہ بَھری) مَیں، اپنی ماں کے اِس زخم کو مَرتے دم تک مندمل نہیں کرسکتی۔ مجھے پتا ہے، اِس درد کو کوئی مداوا نہیں۔ یہ اب آخری سانس تک کا روگ ہے اور صرف ماما کا نہیں، میرا اور فاطمہ کا بھی، بلکہ سلمان سے وابستہ ہر شخص کا، لیکن زندگی ہے، تو جینا بھی پڑےگا۔ سو، ہم سب بھی مسلسل جینے کی کوششوں ہی میں لگے ہیں۔ مَیں نے دوبارہ ریاض شروع کردیا ہے۔ (یاد رہے، ماہم باقاعدہ تربیت یافتہ گلوکارہ ہیں۔ ایک فلم ’’فکر ناٹ‘‘ کے لیے پلے بیک سنگنگ کی ہے، تو ایک معروف ترکش ڈرامے کا او ایس ٹی بھی اُن کے کریڈٹ پر ہے۔) ماما اپنے یوٹیوب چینل ’’دردانہ رحمٰن آفیشل‘‘ پر کام کررہی ہیں، تو زندگی کے بقیہ معاملات بھی جیسے تیسے نبھ ہی رہے ہیں۔‘‘

’’ماما آپ کی زندگی کے اہم دن اور آپ اُن کی زندگی کے خاص دن کیسے سلیبریٹ کرتے ہیں؟‘‘ ہم نے پوچھا، تو ماہم نے پھیکی سی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔ ’’سلمان کے بعد ہر ایونٹ، تہوار پہلی پہلی بار ہی آرہا ہے۔ ابھی پہلا رمضان، پہلی عید گزری ہے اور پتا نہیں، کیسے گزری ہے۔ اُس کے ہوتے تو ہر ہر موقع، تہوار بہت ہی اسپیشل ہوتا تھا۔ بڑے جوش و جذبے، زورو شور سے منایا جاتا تھا۔ اِس رمضان المبارک میں نے ماما کو بہت بڑا ترجمے والا قرآن گفٹ کیا،تو وہ بہت ہی خوش ہوئیں کہ اُنہیں چھوٹے قرآن میں پڑھنے میں مشکل ہوتی تھی۔ ’’مدرز ڈے‘‘ بھی مَیں اور فاطمہ اہتمام سے منانے کی کوشش کریں گے کہ ہم دونوں ہی کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ماما کو جس طرح اور جس حد تک بھی خوش رکھ سکتے ہیں، ضرور رکھیں۔ 

کیوں کہ مَیں نہیں چاہتی کہ میری انتہائی محنتی و مشقّتی، بہت بلند ہمّت ماں، جو ساری زندگی خاندان بَھر کے لیے ایک مثال، رول ماڈل بنی رہی، اب عُمر کے اِس حصّے میں کسی ذہنی ٹوٹ پھوٹ اورخُود ترسی کاشکار ہوجائے۔یہ زندگی تو بہرطور ایک عارضی ٹھکانہ ہے۔ ابدی زندگی میں اِن شاء اللہ تعالیٰ ہم سب ساتھ ہوں گے۔ اگر رب نے ایک نعمت واپس لی ہے، تو ہمیں اَن گنت نعمتوں سے نوازا، مالا مال بھی تو کیا ہے۔ مجھے یقین ہے، میری ماں اِس کڑی آزمائش پر بھی پُوری اُترے گی، جیسے وہ آج تک اُترتی آئی ہیں۔ اللہ نے اُنہیں عاجزی و خاک ساری، انکساری و ملن ساری کی دولت عطا کی ہے، جو آج کے دَور میں عُنقا ہے۔ یہاں تو ذرا سی کام یابی پر لوگ فخر سے پُھولے نہیں سماتے، گردنوں میں سریا فٹ ہو جاتا ہے، جب کہ مَیں اپنی ماں کو دیکھتی ہوں کہ وہ ہر چھوٹے، بڑے سے کھڑے ہوکر ملتی ہیں۔ 

اپنے گھر آنے والے ہر شخص کی تعظیم و تکریم کرتی ہیں۔ انہوں نے پوری زندگی اپنے بہترین اخلاق سے سب کے دل جیتے ہیں اور یہ تو پیغمبرانہ صفت ہے، تو بھلا ایسی پیغمبرانہ صفت کی حامل میری ماں کو اللہ صبر کیوں نہ دے گا۔ بہرحال، اِس ’’مدرز ڈے‘‘ پر میرا پوری دنیا کی اولاد کے لیے ایک ہی پیغام ہے کہ ’’خدارا، اپنے والدین، خاص طور پر اپنی مائوں کا بہت خیال رکھیں۔ ہم اُن کے لیے اپنی پوری زندگی بھی وقف کردیں، تو بخدا اُن کی اُس ایک رات کا حساب نہیں چُکاسکتے کہ جب وہ بچپن میں ہماری کسی تکلیف کے سبب ساری رات جاگتی، دُعائیں کرتی، انگاروں پر لَوٹتی رہیں۔ پتا نہیں، کس کے اشعار ہیں، مگر بخدا میرے دل کی آواز ہیں ؎ ماں سے روشن ہے زمانے بَھر میں علم و آگہی…ہے اندھیروں راستوں پر وہ چراغِ زندگی…سیکڑوں دُکھ ماں نے جھیلے اپنے بچّوں کے لیے…اپنے ہر بچّے کو اُس نے خُوش نما موسم دیئے…نیک دل مخلوق میں ہوتا ہے، ہر ماں کا شمار…ماں پہ نازل ہو رہی ہے، رحمتِ پروردگار…ہر محاذِ زیست پہ رہتی ہے ماں ثابت قدم…ہنس کے سہہ لیتی ہے وہ انسانیت کے رنج و الم…مشکلاتِ زندگی سے ماں تو گھبراتی نہیں…وہ کسی کے بھی سامنے ہاتھ پھیلاتی نہیں…میرےروزو شب کی سچّی داستاں ہےمیری ماں…دھوپ کے موسم میں مجھ پر سائباں ہے میری ماں…آندھیوں کے دشت میں دارالاماں ہے میری ماں…تازہ پُھولوں کا مہکتا گلستاں ہے میری ماں…میری ماں نے زندگی کے گُر سِکھائے ہیں مجھے…اور آدابِ محبّت بھی بتائے ہیں مجھے…آئینہ خانے میں ماں ہے صُورتِ آئینہ گر…انجمن آرائی میں بھی ماں ہے معتبر…منزلِ مقصود ٹھہرے ماں کے قدموں کے نشاں…رہ روانِ شوق میں ہے وہ امیرِ کارواں۔‘‘